ایسا لگتا ہے کہ ہمارے وطن پاکستان میں ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نام کی کوئی شئے یا ادارہ موجود نہیں ہیں اگر اس طرح کا کوئی ادارہ ہے بھی تووہ اپنا کام صحیح طریقے سے نہیں کرتے۔ لوگ اپنے صوابدید پر ممنوعہ ادویات گولیاں انجکشن و دیگر دوائیاں لیتے ہیں۔ ہسپتالوں کے نظام کا تو سب کو پتہ ہیں ۔ بعض صورتوں میں اگرپسماندہ علاقوں میں ہسپتال اور ڈسپنسری کی سہولت موجود نہیں تو اس صورت عوام الناس ایک دوسرے کے ڈاکٹر بنے نظر آتے ہیں اور عموماً ایک دوسرے کو بغیر ڈاکٹر ی رائے دوائیاں دیتے ہیں۔ڈاکٹر صاحبان وقت کی کمی اورلاتعداد مریضوں کیوجہ سے مریضوں سے جانوروں جیسا سلوک کرتے ہیں ۔ان حالات میں ڈاکٹر صاحبان بھی اکثر ہسپتالوں سے زیادہ اپنے پرائیویٹ کلینک پر زیادہ توجہ دیتے ہیں ۔ نئے ڈاکٹر اور ناتجربہ کار نرسز کے وجہ سے ہسپتال ایک برائے نام ادارہ بنتا جا رہاہے ۔ ان کی ایک ظاہری وجہ تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحبان کی اوقات کار اور انکی ذاتی کلینک و پرائیویٹ ہسپتال میں ڈیوٹیاں ہیں ،اور دوسری وجہ لا تعداد مریض ہیں اور تیسری بڑی وجہ اداروں کے ناگفتہ بہہ حالت اور بعض اوقات اوزار اور دوائیوں کی کی کمی ہیں ۔صورتحال یہ ہے کہ رلتے رینگتے عوام جسمانی ذہنی و نفسیاتی صحت سے محروم ہیں ۔
قصائی نما ڈاکٹر صاحبان جن کی غرض اپنی مریض سے زیادہ اس کی پیسوں اور ٹیسٹوں اور دیگر معمو لات سے ہوتی ہیں انہیں مریض کی قطعاً کوئی پراوہ نہیں ہوتی صرف مال اور کمیشن بنانے کا سوال ہوتا ہے ۔
یہی ڈاکٹر نمامیڈیکل کالجوں سے بھاری روپیوں سے ڈگری لیتے ہیں یعنی یہ لوگ پہلے انوسٹمنٹ کرتے ہیں اور بعدمیں اپنی اس انوسٹمنٹ سے کروڑوں اور اربوں کے مالک بن جاتے ہیں ۔
اسطرح میڈیکل ریپ حضرات جو نامی گرامی کمپنیوں کی آلہ کار نمائندے ہوتے ہیں اور وہ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی دوائیاں ڈاکٹر صاحب کی توسط سے بیچتے ہیں ۔یہ سب احوال دیکھنے کی قابل ہوتی ہیں۔ اپ کسی بھی ہسپتال یا پرائیویٹ ادارہ میں جائے وہاں اپ کو ان گماشتوں اور آلہ کاروں کی لائنیں کھڑی نظر آئیگی ۔ ہر ایک ڈاکٹر صاحب کی پاس یہ نمائندگان آئینگے اور اپنی کمپنی کی نت نئی دوائیوں کی پمپلٹ دکھا کرڈاکٹر صاحب کو لیکچر دے کر دوائی کی افادیت سمجھاکر حتی الاامکان کوشش سے اور اسے مختلف قسم کی لالچ دے کر اسے دوائیاں تجویز کرنے کیلئے کے مشورے دئیے جاتے ہیں اور ساتھ ساتھ دوائی کی سیمپل بھی ڈاکٹر صاحب کو مرحمت فرماتے ہیں محسوس اسطرح ہوتا ہے کہ مریضوں سے زیادہ میڈیکل ریپ حضرات زیادہ ہوتے ہیں ۔اسطرح مریض کو اگر ایک بیماری ہوگی!! تو ڈاکٹر صاحب سرکاری ڈیوٹی کے دوران بھی اس ملٹی نیشنل کمپنیز یامقامی پرائیویٹ نجی ادارے کی کم از کم ایک دوا ئی ساتھ لازمی تجویز کریگا!!! ۔حالات اس وقت قابل رحم دکھائی دینی لگتی ہیں جب مریض غریب ہو اور اس کی دوائی لینی کی سکت باقی نہیں ہو ۔ ڈاکٹر صاحب کی مریض کی لاچارگی سے کوئی غرض نہیں ہوتی لیکن وہ صاحب صرف دوائی لکھتا جائیگا ۔
اس پر مزید طرہ یہ کہ ڈاکٹر صاحبان عموماً تشخیص کی حوالے سے کافی حد تک کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں یعنی صرف دوائی لکھنے پر اکتفاء کرتے ہے ۔یہی حالات اپ کو اکثر ہسپتالوں میں بوجہ اوقات کار و ضروری میڈیکل سامان کی عدم دستیابی و ہپسپتال کی لیبارٹریوں کے ناقص نتیجوں سے پیش آتی ہیں تو بعض دفعہ پرائیویٹ لیبارٹریوں سے اگر ٹیسٹ وغیرہ کروالئے جائیں تو بھی اس میں سقم موجود ہوتے ہیں ۔دو لیبارٹریوں کا ٹیسٹ اور ریزلٹ ایک جیسے اکثر نہیں ہوتے اور مختلف ہوتے ہیں۔ اسطرح پرائیویٹ لیبارٹریوں اور ڈرگ ڈیلرکی دوکانوں میں بھی اکثر ڈاکٹر صاحبان کی کمیشن ہوتے ہیں ۔رہی سہی کسر مریض کی جیب سے پوری کی جاتی ہیں ۔ اور مرض ہے کہ جو جو مرض کی دوا کی مرض بڑھتا ہی گیا ۔علاج اور تشخیص دو ایسے امور ہیں جو ترقی یافتہ ممالک میں ڈاکٹرصاحب اورفارماسسٹ کرتے ہیں تشخیص ڈاکٹر کا کام ہوتا ہے جبکہ علا ج دوائی فارماسسٹ تجویز کرتا ہیں ۔لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہیں کوئی پر سان حال نہیں ۔اس پر مستزاد یہ کہ حکومت خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہیں اور متعلقہ محکمہ افسران صرف دفتری امورفائلیں نمٹانے کیلئے ہوتے ہے۔
اس کے علاوہ نیم حکیم گلی گلی کوچہ کوچہ اپنے چورن بیچتے ہیں ۔ اور عوام الناس ہیں جو کہ اکثر غریب پسماندہ ہوتے ہیں اس کو ورغلایا جاتا ہیں اور کسی انسپکٹرافسر اور اہلکار کو نظر نہیں آتا کہ جو یہ تریاقی نیم حکیم بیچتے ہیں اس سے غریب لاچار کو فائدہ کیا پہنچنا الٹا صحت کی بربادی بیچی جاتی ہیں ۔
میڈیکل سٹور ز جو کہ حکومت کی لائسنس سے دوکان کھولتی ہیں ۔اور قانون کیمطابق دوائی بیچنا ہوتا ہے لیکن یہ حضرات ڈاکٹری رسیدوں کے علاوہ اکثر طور بغیر پریسکریپش دوائی دیتے نظر آتے ہیں ،بلکہ یوں کہہ لیں کہ یہ حضرات بھی نیم حکیموں کی طرح علاج تجویز کرتے رہتے ہیں ۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی اگر ڈاکٹر صاحب بھی کوئی دوائی تجویز کرلیں تو دوکاندار حضرات جس کی ملٹی نیشنل او ر مقامی دوائی کمپنیوں کیساتھ رابطے ہوتے ہیں اور یہ کمپنیاں اس کو کمیشن پر دوائیاں بیچتے ہیں جو اکثر اوقات ادھے منافع پر مشتمل ہوتی ہیں۔ اکثر ڈاکٹر کی تجویز کردہ دائیوں سے ہٹ کر دوسرے کمپنی کی اسی فارمولہ میں مریض کودوائی دینے کا جھانسا دیتے ہوئے یا بغیر بتائے مریض کو بوجہ ناخواندگی دوسرا فارمولا دے دیتے ہیں ۔
ان لوگوں کی مارکیٹ میں اجاراں داریاں ہوتی ہیں اور ہر جگہ یہ مذکورہ کمپنیوں کی مال بیچ دیتی ہیں ۔ اس پر بھی بس نہیں ہوتا ایکسپائر دوائی بھی کام میں آجاتی ہیں ۔
مریضوں کو درد اور بخار کیصورت میں عام دوکانوں سے بھی دوائی مل جاتی ہیں ۔ڈسپرین ،پیناڈول ،نیلی اور سرخ کاغذ والی گولیاں اس کی واضح ثبوت ہیں ۔کیا کہا جائیں مریض کو تکلیف ہیں اس کو تو کچھ چاہئیے کہ اس کا درد اوبخار جاتا رہیں اور اسے تسلی محسوس ہو ۔
یہ مریض درد اور نفسیات کی دوائیوں اوگولیوں کے نشئی بن گئے ہیں اور ہونگے بھی کیوں نہ اگر ہر جگہ یہ کھلے عام نہ بکتے ہوں اور اس پر ایک واضح قانون ہو اور چیک اینڈ بیلنس کا بہترین نظام ہو تو کسی کی کیا مجال کہ نشہ اور گولیاں او خواب اور انجکشن کی نشے لیں سکیں ۔
ہم کس کس چیز کا رونا روئیں گے کیا ہماری قسمت میں رونا ہی لکھا گیا ہیں!! ہر طرف نظر دوڑائیں ہر طرف وحشت زدہ چہرے پریشانیاں اداسی ہی اداسی لئے ہوئے ہیں!! بازاروں میں متوازن غذا ناپید ہیں ملاوٹ شدہ اشیاء بازاروں میں بیچی جاتی ہیں۔ پانی آلودہ ہیں ۔سبزیاں اور گوشت اکثر باسی اورناکارہ ملتی نظر ائینگی ۔مارکیٹیں غلاظتوں کے ڈھیر ہیں ۔ بازاروں اور کوچوں میں ہر طرف دھول اور غبار کے سائے ہیں۔ دریا اور ندیاں گندگی کی ڈھیر ہیں ۔گلی کوچے ناقص منصوبہ بندی کیوجہ سے غلاضتوں اور گندگی اورمتعفن چیزوں کی بدبو کی سلوٹیں بلند ہوتی رہتی ہیں۔گاڑیوں کے انجنوں سے نکلتی آلودگی ایک درد سر بن چکا ہیں ۔ماحولیاتی آلودگی کے علاوہ انجنوں اور جنریٹروں کے شور کے الودگی نفسیات سے ہر وقت چھیڑ خانی کرتے ہیں ۔ہر ایک نفس کی بیماری میں مبتلا ہیں۔شرح اموات کی روز افزوں ترقی کی بنیادی وجوہ میں ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مریضوں کو بر وقت علاج معالجہ کی سہولیات بہم نہیں پہنچائی جاتی۔حکومتی نا اہلی کیوجہ سے صحت کی آئینی حقوق سے کھلواڑ کیا جاتا ہے ۔ اور حکومت خاموش تماشائی بن کر کھلے عام اموات بانٹنے کے ذمہ دار ان ہیں۔
ًًً یہ منڈی ہیں یہاں اپ کو ہر جنس ملتا ہوا ملے گا ہرسو موت کے سوداگر انسانوں کے جسمانی اور نفسیات صحت سے کھیلتے رہتے ہیں اس مقدس پیشے میں بھی انسانوں میں بھی امتیازات روا رکھے گئے ہیں ۔ کوئی غریب ہیں تو کوئی مالدار اور کوئی غریب سے بھی بدتر نادارمسکین۔
ڈاکٹر ی ایک مقدس پیشہ ہے اور ڈاکٹرمعاشرے اور انسانیت کا مسیحا ہوتا ہیں اور اس کا نصب العین بے چارے عوام الناس کی خدمت کرنا ہوتا ہے ۔عبادت سے جنت مل جاتی ہیں لیکن خدمت کرنے والے کو اللہ تعالیٰ ملتا ہیں۔اب کس کو کیا چاہیئے اس کا فیصلہ وہ خود کریگا ۔البتہ اگربغیر کسی امتیاز کے مخلوق انسانیت کی خدمت کیجائی تو دونوں جہانوں میں سرخروئی حاصل ہوسکتی ہیں ۔ہماری معاشرے کے دیگر طبقو ں کے مناسبت سے اس مقدس پیشے میں بھی اچھے اور برے لوگ موجود ہیں جو وقتاًفوقتاً لوگوں کی خدمت سر انجام دیتے ہیں بلکہ یوں کہہ لیں کہ اسمیں ایسے بھی ڈاکٹرصاحبان ملتے ہیں جو صبح و شام نادار مریضوں کی مالی معاونت کے علاوہ علاج دوائی اور فیسیں بھرتے ہیں ۔ اور جہاں تک ہوسکتا ہے اسے اپنے قیمتی رائے دیتے رہتے ہیں ۔
صوبائی حکومت خیبر پختونخوا جو ہسپتالوں میں اصلاحات کی دعویدار ہیں اور کئی ایک اصلاحات ہوئی بھی ہے ۔ ہسپتالیں اور ڈاکٹر حضرات کچھ دنوں کیلئے گرما گرمی دکھاتی ہیں لیکن وہ بوجوہ وہ نافذ العمل نہیں ہے اوراسطرح پھر کچھ دنوں بعد سرد مہر ہوجاتی ہیں۔
صوبائی حکومت وقت اگر درج ذیل تجاویز پر عمل کرے تو اس سے مریضوں اور ہسپتالوں اوراس سے متعلقہ دیگر امور میں خاطر خوا ہ انقلابی تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔
۱۔ ڈاکٹروں کے اوقات کار میں تبدیلی لائی جاکر متعلقہ امور سے نمٹنے کی ضروری ایمرجنسی ٹریننگ اور دستیاب وسائل سے اس کی تنخواہ اور الاوئنسز میں ایزادگی کیجائی ۔
۲۔ ڈاکٹر صاحبان کی پرائیویٹ پریکٹس پر فی الفورپابندی عائد کیجاکر ہسپتالوں میں اضافی وقت دینے کی حساب سے تنخواہ اور مراعات دئیے جائیں ۔
۳۔ایمرجنسی وارڈ اور او پی ڈی میں بارہ سے سولہ گھنٹے کی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہوئے اس طرح میکانزم بنایا جائیں کہ مریضوں کی آسانی سے چیک اپ کیا جاسکیں۔
۴۔حکومتی سطح پر نادار اور غریب شہریوں کیلئے فری ایمبولنس ،دوائی اور ٹیسٹ کے فوری انتظامات کئے جائیں۔
۵۔حکومت ڈرگ ریگولیٹری انسپکٹر،افسران کی ڈیوٹیاں لگا کر میڈیکل سٹوروں ، ٹیسٹ لیبارٹریوں ، پر چھاپے لگا کر ایکسپائر دوائیوں کی سد باب کرتے ہوئے بغیر لائسنس اور بغیر حکومتی اجراء شدہ سرٹیفیکیٹوں والے اوروفاق کے تجویز کردہ قانونی دوائی بیچنے کے علاوہ دیگر دوائی بیچنے پر میڈیکل سٹور دوکانداروں کیخلاف کارروائی کرتے ہوئے اس کے لائسنس ضبط کریں اس پر بھاری جرمانے عائد کردئیے جائے۔
۶۔پین کلر ڈرگ ٹیبلیٹ ،نشہ آور گولیوں پر علاوہ ڈاکٹر کے تجویز کردہ ایک خاص قانونی حد تک مقرر کئے ہوئے قانونی حد تک ممانعت عا ئد کردی جائی ۔ اور اینٹی بائیوٹک دوائیوں کیلئے قانون سازی کی جائی ۔
۷۔ پرائیو یٹ ڈاکٹران او رپرایؤیٹ پلیس آف پریکٹس پر قانونی پابندیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی فیسوں اور ٹیسٹ لیبارٹریوں پر حکومتی ٹیکس کے علاوہ مریض کے فیسوں کے شرح مقرر کئے جائے ۔
اور کم سے کم شرح فیس مقرر کئے جائیں۔
۸۔سرکاری و نجی لیبارٹری ٹیسٹوں کے انتظام کی غرض سے ہسپتال اور پرائیویٹ مریضوں کے مالی استطاعت کے مطابق فیسوں کی شرح اجرا کی جائی۔اور حکومتی سرکاری نرخ مقر ر کئے جاکر لائیسنسوں کا اجراء کیا جاکر بغیر سرٹیفیکیٹ والے لیبارٹریاں بند کی جائیں۔
۹۔ہسپتال ڈاکٹر صاحبان کے علاوہ دیگر عملہ کی اوقات کار میں تبدیلیاں لایا جاکر ،اضافی وقت کیمطابق تنخواہ او ر الاونسز دئے جائیں۔
۱۰۔ میڈیکل ریپ حضرات کو قانونی اور سرکاری دوائیوں کے علاوہ دیگر دوائیوں کے بیچنے سے روکے جاکر ان حضرات کو سرکار ی دائرہ کار میں لایا جاکر اسکوتعلیم اور قانون کیمطابق نوکریاں دلوائی جائیں اور پرائیویٹ میڈیکل ڈرگ بزنس پریکٹس پر پابندی عائد کیجائی تاکہ غیر قانونی دوائی کی ترسیل روکی جاسکیں۔
۱۱۔ سرکاری سطح پر مختلف قسم کی بیماریوں کی سد باب کیلئے ڈرگ فارمولے وضع کئے جائیں اور اسے سرکاری طور پر جاری کرنے کے لائسنس سرکاری اداروں بشمول قانونی پابندیوں کے تابع پرائیویٹ نجی اداروں کو جاری کردیا جائے۔
۱۲۔ نئے ڈاکٹر صاحبان اور نرسز کو ڈاکٹر اِن ڈیوٹی کے سرکردگی میں پریکٹس کی اجازت دیں اور اسے پیشہ وارانہ لوازات ہاؤس جاب کے دنوں سے سکھائے جائے ۔ اور نئے داکٹر صاحبان کی معالی معاونت سرکاری سطح پر کیجائی ۔
772 total views, 2 views today