گوہر علی گوہر
تیز ترین الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے ایک طرف اگر عوامی مسائل حل ہونے اور اس کی نشاندہی میں مدد مل رہی ہے تو دوسرے طرف اس کی وجہ سے امن وامان کی صورت حال کو برقرار رکھنے میں یہ آگ پر پانی جبکہ بدامنی پھیلانے میں آگ پر پیٹرول چھڑکنے کی کام بھی کرسکتی ہے جس کیلئے خبر دینے والے رپورٹر ، خبر نگار یا نامہ نگار یا اداروں میں بیٹھنے والے ایڈیٹرز صاحبان اور اینکرز پرسن پر منحصر ہے کہ وہ کسی واقعہ یا مسلہ کو کس رنگ میں پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہے اداروں میں بیٹھے ہوئے ایڈیٹرز اور دیگر افراد کا تو تجربہ ہوتا ہے مگر ضلعی سطح پر موجود نامہ نگاروں ، خبر نگاروں اور رپورٹرز کی اکثریت ایسے ہوتی ہے کہ ان کا خبر بنانے اور اس کے رد عمل کے بارے میں کوئی تجربہ یا سوچھ نہیں ہوتی اس وجہ سے وہ بعض خبر کو ناخبری یا جذباتی انداز میں اس طرح تیار کرکے متعلقہ اداروں کو جاری کردیتے ہیں
جس سے بعض اوقات بڑے بڑے ناخوشگوار واقعات بھی رونما ہوتے ہیں الیکٹرانک میڈیا میں مقابلہ اور بریکنگ نیوز کی چکر نے تو رپورٹرز کو تصدیق کرانے کی زحمت سے بھی دور کرانے کا سلسلہ شروع کیا ہے جو کہ ملک و قوم کی مفاد کے علاوہ خود ادارہ اور رپورٹر کی مفاد میں بھی نہیں ہے ، اسلامک انٹر نیشنل یونیورسٹی اسلام اباد کے ادارہ دعوۃ اکیڈمی اسلام اباد نے وطن عزیز کے جنگ زدہ یا بدامنی کے شکار تین صوبوں کے مخصوص اضلاع اور پاٹا کے صحافیوں کو اس سلسلے میں قران و حدیث اور اسلامی احکامات سے اگہی کیلئے پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ریجنل افس کے گیسٹ ہاؤس میں پانچ روزہ اسلامک تربیتی پروگرام کا انعقاد کیا جس میں ملک کے ممتاز جیدعلماء کرام،پروفیسرز، سکالرز، دانشوروں اورصحافیوں نے پروگرام میں شامل ضلعی صحافیوں کو قرآن و حدیث اور اسلامی احکامات کی روشنی میں ان کی ذمہ داریوں سے اگاہ کرنے کی غرض سے تفصیلی خطبے دئیے
ملاکنڈ ڈویژن کی نمائندگی شوکت بونیری، عیسیٰ خانخیل، خورشید علی خان ،لیاقت علی ، فضل ربی ، نوید عالم اور گوہر علی گوہر نے کی ۔ پانچ روزہ تروبیتی پروگرام کے پہلے روز ڈپٹی کوارڈنیٹر ناصر فرید نے تعارفی نشست اور رجسٹریشن کا مرحلہ مکمل کرنے کے بعد کوارڈنیٹر پروفیسر مصبا الحق یوسفی نے قرآن اور اس کی احکامات ، شیخ الحدیث ڈاکٹر حسن مدنی نے خبر اور اطلاع کے حوالے سے احادیث نبوی ﷺ ، دوسرے روز پروفیسر مصبا الحق ن سوال و جواب کے نشت کے بعد نامور سائنسدان ڈاکٹر انعام الرحمان نے ’’مقصد حیات ‘‘ کا سائنسی خاکہ پیش کیا اور زندگی کو ملک کی سالیمت اور انسانیت کے فلاح و بہبود اور خوشحالی کیلئے استعمال کرنے پر زور دیا ، ان کے لیکچر کا خلاصہ رہا کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیار و محبت اور چیزوں کو استعمال کرنے کیلئے پید اکئے ہیں مگر ہم نے چیزوں سے محبت اور لوگوں کو استعمال کرنا شروع کردیا ہے جس کی وجہ سے امن و سکون ختم ہوتا جارہا ہے اس لئے میڈیا کو قدرتی قوانین کی بحالی میں کردار ادا کرناچاہیئے ، ممتاز ماہر تعلیم و ابلاغیات ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے ’’میڈیا اور ہماری اخلاقی اقدار ‘‘ کے موضوع پر تفصیل ڈالی اور میڈیا پر زور دیا کہ وہ رپورٹنگ کے دوران اس میں معاشرتی اور اخلاقی اقدار کو ملحوظ خاطر رکھیں.
، پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے پروفیسر ڈاکٹر غلام علی خان نے ’’ہندو کلچر اور پاکستانی میڈیا‘‘ پر لیکچر دے کر پاکستانی میڈیا کو ہندو کلچر دکھانے سے اجتناب کرنے پر زور دیا۔مولانا زاہد الرشد ی نے حضور ﷺ کی زمانہ میں صحافت اور اس کے طریقہ کار پر روشنی ڈالی ان کا کہنا تھا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ کے زمانہ میں خبر پہنچانے کیلئے خطابت، مشاعرے اور میلوں کا انعقاد کیا جاتا جس کے ذریعے پیغام رسانی کا سلسلہ جاری رہا ۔ ان کا کہنا تھا کہ کفر کا چلینج قبول کرنا بھی سنت ہے اور ادب برائے ادب نہیں بلکہ ادب برائے زندگی ہونا چاہئے خبر کی صداقت اور خبر کے رد عمل پر غور کرنا چاہیئے اگر کسی خبر سے شر و فساد کا امکان ہو تو انہیں پھیلانے سے گریز کیا جائے ،چھوتھی روز ممتاز صحافی اور اردو دائجسٹ کے ایڈیٹراختر عباس نے ’’استحکام پاکستان میں میڈیا کا کردار ‘‘ پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔روزنامہ پاکستان کے چیف ایڈیٹر اور نامور کالم نگار وصحافی مجیب الرحمان شامی نے اپنے خطاب میں کہا کہ خبر نویس کو ’’ باعلم، باخبر اور باکردار ‘‘ ہونا چاہیئے صحافت میں مقصد سے روگردانی نہیں کرنی چاہیئے باخبر اور باعلم صحافی ہی عوام کو درست معلومات فراہم کرسکتے ہیں ۔ ڈاکٹر محمد حماد لکھنوی نے ’’رسول اللہ ﷺ کی اسوہ حسنہ اور حیات طیبہ میڈ یا کی لئے رول ماڈل ‘‘ کے موضوع پر خطاب کیا ان کا کہنا تھا کہ ایک زمانہ تھا کہ جب علم اور حوالہ کیلئے مسلمان علماء کا حوالہ دیا جاتا مگر اب مسلمانوں نے علم کو محدود کرکے غیروں کے حوالے دینے لگے ہیں اس لئے ہمیں دینی علوم کے ساتھ دنیاوی علوم پر بھی توجہ دینا ہوگا ، پروگرام کے پانچویں اور اخری روز دعوۃ اکیڈمی کے منتظم اعلیٰ ڈاکٹر امتیاز ظفر نے ’’ سیکولرازم اور پاکستان ‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ سیکولرازم میں انسانی زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے مگر اسلام ہمیں ہر چیز میں مذہبی احکامات پر عمل کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ جامع پنجاب کے پروفیسر تاثیر مصطفیٰ نے قومی یکجہتی میں میڈیا کے کردار کے حوالے سے تفصیلی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی یکتجہتی کیلئے محب الوطنی سب سے لازمی جُز ہے جس میں مذہب، قومی زبان، تہذیب و ثقافت، مشترکہ ترجیھات، مشترکہ دشمن، مشترکہ مفادات کوملحوظ خاطر رکھنا چاہیئے ان کا کہنا تھا کہ2001 تک جب کنٹرول میڈیا رہی تو اس وقت تک امن وامان کی صورت حال اتنی خراب نہیں تھی مگر پرائیوٹ چینلز قائم ہونے کے بعد زیادہ تر ادارے قوم و ملک کی مفادات کی بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے حالات خراب ہوتے جارہے ہیں
اس لئے ازادی صحافت کو ذاتی مفدات کیلئے استعمال کرنے کے بجائے قومی مفادات کو مڈ نظر رکھنا چاہیئے دعوۃ اکیڈمی اسلام اباد کے پروفیسر اور اپیلنٹ بینچ کے جسٹس ڈاکٹرمحمد الغزالی نے ’’مسلم میڈیا کی ذمہ داری ‘‘ پر اظہار خیال کیا ان کا کہنا تھا کہ خبر کی انتخاب کا پیمانہ رکھنا چاہیے ہر خبر کی نتائج اور رد عمل کا ادراک ہونا ضروری ہے خبر کی مثبت اورمنفی اثرات کا جائیزہ لینا چاہیئے ریاست کے مقاصد اور قوانین سے اگاہی ضروری ہے لفظ لکھنے کے وقت لکھاری کے غلام ہوتے ہیں جبکہ لکھنے کے بعد لکھاری لفظ کے غلام بن جاتے ہیں انسانی فطرت ہے کہ برائی کی بار بار تذکرہ سے اس کی اثرات زائل ہوجاتے ہیں اس لئے برائی کو بار بار دہرانا معیوب ہے انہوں نے حدیث کا حوالہ دیا ’’کہ انسان کے جھوٹے ہونے کیلئے یہ کافی ہے وہ ہر سنی سنائی بات کو بتاتے ہیں ‘‘اس لئے انسانی رویوں پر مثبت اثرات ڈالنے کیلئے ہر کسی کو اچھائی کی طرف انا چاہیئے پروگرام کے اختتام پر پنجاب اسمبلی کے صوبائی وزیر برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور طاہر خلیل سندھو، جامعہ لاہورکے وائیس چانسلر محمد رحمان مدنی ، دعویٰ اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد امتیازظفر ، اور جسٹس ڈاکٹر محمد الغزالی نے شرکاء میں اسناد تقسیم کئے اکیڈمی کی طرف سے صحافیوں کو لاہور کے مختلف تاریخی ، ثقافتی اور سیاسی مقامات کی تفریحی او رمعلوماتی دوروں کا بھی اہتمام کیا گیا تھا اس وجہ سے پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے فراہم کردہ بس میں تینوں صوبوں کے صحافیوں نے واہگہ بارڈر پر پرچم کشائی کی تقریب ، پنجاب اسمبلی کے سپیکر رانا محمد اقبال ، وزیر قانون رانا ثناء اللہ، پاکستان فیڈرل یونین اف جرنلسٹس کے صدر سے رانا عظیم سے ملاقات سے ملاقتیں کرکے صوبوں اور صحافیوں کو درپیش مسائل پر تبادلہ خیال کیا ،صحافیوں نے بادشاہی مسجد، مینار پاکستان، مختلف ٹی وی چینلزاور اخبارات ، دنیا ، اوصاف اور ایکسپریس کے دوروں سمیت جماعت اسلامی کے مرکز ی دفتر منصورہ میں مرکزی امیر منور حسن سے ملاقاتیں کرکے ان سے ملک امن و امان کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا ۔
1,750 total views, 2 views today