آج جب میں صبح آرہا تھا، تو گل شن چوک مینگورہ کے اُس مین ہول پر کسی نے پتھر کی سیل رکھ کر موت کے اس کنویں کا منھ بند کردیا تھا جو عرصۂ دراز سے کھلا پڑا ہوا تھا۔ تین چار ٹریفک پولیس عین چوک کے وسط میں ڈیوٹی پر مامور تھے۔ ایک اور اچھے کام کو دیکھ کر دل خوش ہوا کہ تحصیل میونسپل کمیٹی مینگورہ کے اہل کار بازار کی گندی نالیوں سے گند نکال رہے تھے۔ہر دوسری تیسری دکان کے سامنے منوں کے حساب سے گند پڑا ہوا تھا جس کا رنگ کالا سیاہ تھا۔ دکان آکر روزنامہ چاند کے ادارتی صفحہ پر نظر ڈالی۔ پہلی فرصت میں شہزاد عالم کا عوامی عدالت کے سلسلے سے تحریر پڑھی۔ جس میں ’’ضیاء الدین یوسف زئ ‘‘ کی خوب خبر لی گئی تھی۔ پھر اُس کے بعد سمندر پار سے جاوید احمد خان (برطانیہ) کا ’’بے حسی کی انتہاء‘‘ پڑھی، جس میں اُس مین ہول کا ذکر تھا، جس پر اتفاق سے آج کسی اللہ کے بندے نے ایک بھاری پتھر کا سیل رکھ کر بند کردیا تھا۔ مجھے روزنامہ چاند کے سب کالم نگار پسند ہیں، اورمیں ان تمام لکھاریوں کا دل سے قدر کرتا ہوں، جو سوات کے مسائل پر قلم اٹھاتے ہیں۔ جن کی تحاریر سے مجھے عوامی اور اپنائیت کی خوش بو پھیلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔یہ اہل قلم عوام کے لیے لکھتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سوات کے لیے لکھتے ہیں۔ یہ بھلے مانس عوامی شعور کو اُجاگر کرتے ہیں۔ سوات کی انتظامیہ کے کانوں کو مروڑ تے ہیں۔ بے حس عوامی نمائندوں کو جھنجھوڑتے ہیں۔ انھیں خواب غفلت سے بیدار کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں، جو کہ اقتدار کے نشے میں مست ہوکر ایک حقیقی عوامی نمائندے کا رول ادا کرنے سے یکسر قاصرہیں۔ اگرچہ عوام نے اُن کے سر پر عوامی نمائندے کا تاج سجایا ہوا ہے، لیکن یہ بڑے ناشکرے ہیں۔ لیکن آفرین، کہ سوات کے عوام بھی اب اپنے نمائندوں کو گھاس تک نہیں ڈالتے، عزت و تکریم تو بڑے دور کی بات ہے۔ اب اہل سوات انھیں دیکھ کر دوسری طرف منھ موڑ لیتے ہیں۔ وہ اپنی غلطی پر نادم ہیں اور وہ بڑی بے چینی سے آئندہ عام انتخابات کا انتظار کررہے ہیں کہ کب وہ دن آئے گا کہ ان منتخب نمائندوں کے سر سے عوامی نمائندگی کا تاج چھین کر انھیں دن کے وقت تارے دکھائیں اور یوں اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کریں۔ سوات کے عوام نے گزشتہ عام انتخابات میں منتخب عوامی نمائندوں کو اپنی ووٹ کی طاقت سے اوندھے منھ گرایا تھا۔ ان میں وزیروں اور نمائندوں کا فرق نہیں رکھا تھا۔ سب کو یک قلم صفر میں ضرب دیا تھا۔ اب آنے والے عام انتخابات میں موجودہ منتخب عوامی نمائندوں کا حشر بھی وہی ہوگا جو ان سے پہلے نمائندوں کا ہوا ہے۔ تحریک انصاف کے تمام ایم پی ایز اور ایم این ایز کو عوام اپنے ووٹ کی طاقت سے زمین پر دے ماریں گے۔ پھر یہ ایم پی اے فضل حکیم صاحب اور یہ ایم این اے مراد سعید صاحب اپنے موجودہ دور اقتدار کو ایک خواب تصور کریں گے۔
قارئین کرام! جب میں سوات کے مسائل پر نظر ڈالتا ہوں۔ اسپتالوں میں جاکر مریضوں کو دیکھتا ہوں۔ سوات کے اسکولوں کے طالب علموں کی حالات زار کو دیکھتا ہوں۔ مینگورہ شہر کے گندے گلی کوچوں کو دیکھتا ہوں۔ بجلی کے زیادہ بلوں کو دیکھتا ہوں۔ گھنٹوں پر محیط بجلی لوڈشیڈنگ کو دیکھتا ہوں۔ سوئی گیس کی لوڈشیڈنگ اور بھاری بھر کم بلوں کو دیکھتا ہوں۔ سوات کی سڑکوں کی حالات زار کو دیکھتا ہوں۔ گندے خوڑ کو دیکھتا ہوں۔ کمر توڑ مہنگائی سے عاجز آئے ہوئے عوام کو دیکھتا ہوں، تو بخدا میرا خون کھول اٹھتا ہے، لیکن کچھ کرنے سے قاصر ہوں کہ صبح سے شام تک بچوں کے لیے رزق حلال کمانے کے چکر میں بہت بے دردی سے پھنسا ہوا ہوں۔ ورنہ خدا کی قسم مجھ سے سوات کے لوگوں کی یہ حالت زار اور سوات کی تباہی دیکھی نہیں جاسکتی۔ دوسری جانب جب میں سوات کے متمول لوگوں کو دیکھتا ہوں، جو روزی کمانے کے چکر سے یک سر آزاد ہیں، جو سوات کے بڑے بڑے سیٹھ ہیں، خان خوانین ہیں۔ سوات کے شہزادے ہیں۔ ان سب کو دیکھ کر سوچتا ہوں کہ یہ لوگ سوات کے لیے کیوں کوئی مثبت قدم اٹھانے سے قاصر ہیں؟ آخر ان کی کیا مشکلات ہیں کہ یہ سوات کی تعمیر میں اپنا حصہ نہیں ڈال رہے؟ یہ عوامی نمائندے کیوں نہیں بنتے؟ (سرکاری نہیں غیر سرکاری، کسی سیاسی پارٹی کے نمائندے نہیں بلکہ صرف سوات کے نمائندے) عوام کے لیے، اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے سوات کو امن، خوش حالی اور ترقی کی شاہ راہ پر کیوں ڈالنے سے کتراتے ہیں؟ آخر وہ اپنی یہ بے حسی کی چادر کب اُتاریں گے؟
1,114 total views, 2 views today