یہ ہے میرا پیارا پاکستان۔ وہ پاکستان جس کا خواب شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے دیکھا، جس کی تعبیر کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح اور ہمارے آبا و اجداد نے بے پناہ قربانیاں دیں۔ اور وہ بھی صرف اس بات کے لیے کہ اس خطے کے مسلمانوں کے لیے ایک ایسی جداگانہ اسلامی مملکت کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں پر عوام کو اپنی مذہبی روایات کے مطابق زندگی گزارنے میں کوئی مشکل نہ ہو، جہاں ان غریب اور نادار لوگوں کو امن میسر ہو،ان کو فوری اور سستا انصاف ملتا ہو، ان کی چادر اور چار دیواری محفوظ ہو اور جہاں تمام مسلمان ایک پر امن اسلامی اور فلاحی ریاست میں سانس لیں۔لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یہ ملک 67 سال کا ہوگیا ہے، مگر سب کچھ بیان شدہ باتوں کے برعکس ہو رہا ہے۔ اب اس پیارے پاکستان کو صرف اور صرف اپنے بینک بیلنس بڑھانے کا ذریعہ بنا یا گیا ہے۔ عوام پر زندگی تنگ کر دی گئی ہے۔ پرائے جنگ کو ڈالروں کی خاطر اپنے اوپر مسلط کر رکھا ہے۔ ڈرون حملوں کی کھلی اجازت ہے۔ ملکی سلامتی کی کسی کو کوئی فکر نہیں۔ بس سب ڈالروں کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔کیا یہ ہے قائداعظم کا پاکستان ۔ نہیں جناب! یہ قائد اعظم کا پاکستان ہو ہی نہیں سکتا۔ بہ قول شاعر
عزت نفس کسی شخص کی محفوظ نہیں
اب تو اپنے ہی نگہبانوں سے ڈر لگتا ہیں
ڈنکے کی چھوٹ پہ ہر ظلم کو برا کہتا ہوں
مجھے سولی سے نہ زندان سے ڈر لگتا ہے
وطن عزیز کے بہادر اور غیرت مند حکمران ہاتھ میں کچکول لیے پھرتے ہیں اور اس ملک و قوم کا سر شرم سے جھکا رہے ہیں، لیکن کسی کے پاس بیرون ممالک خیرات اکھٹا کرنے کا حساب نہیں۔ کوئی ایسا نہیں جو یہ بتا سکے کہ ہمارے نام پر کتنا مال جمع ہوتا ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں ہمارے حکم رانوں نے صرف امریکہ سے ’’اٹھا رہ بلین ڈالرز‘‘ کی خیرات لی ہے۔ یہ رقم دہشت گردی مٹانے کے نام پر ملنے والی خیرات کے علاوہ ہے، لیکن کیا اس خیرات کی رقم سے حکم ران یہ دکھا سکتے ہیں کہ اٹھا رہ لاکھ پاکستانیوں میں سے درجن بھر غریبوں کی بھی زندگی میں کوئی تبدیلی آئی ہے؟ سوائے چند فی صد سیاست دانوں کے۔ باقی اس نادار اور مظلوم قوم کی حالت وہی کی وہی ہے۔ آج بھی معصوم بچوں کی بھوک ہمارے حکمرانوں کو دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ حکم رانوں کو بازاروں میں بکتی ہوئی حوا کی بیٹیوں کی کیا پروا؟ کیوں کہ ان کے وزیروں اور مشیروں اور ان کے صاحب زادوں کی بہ دولت تو کوٹھے آباد اور بازار حسن چلتے ہیں۔ ہرروز بچے برائے فروخت کی خبریں ہمارے حکمرانوں کی نظروں سے نہیں گزرتیں۔ کیا ہمارے حکم رانوں کو ہاتھوں میں ڈگریاں اٹھا ئے ایم اے اور ایم فل کے وہ طلبہ دکھا ئے نہیں دے رہے ہیں، جو آئے روز پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے بے روزگاری سے تنگ آکر احتجاج کر تے ہیں،قوم بے روزگاری سے خودکشیاں کر رہی ہے،بنت حوا عصمت فروشی پر مجبور ہے۔ہر روز کئی کئی لوگ اپنے گردے بیچنے پر مجبور ہیں، لیکن چند فی صد لوگوں کو نہ اس کی فکر ہے نہ کوئی پروا ۔ان کو تو اپنے اقتدار کی پڑی ہوئی ہے، ان کو کسی کی تکلیف سے کیا۔
سوات میں جو عسکریت پسندی ہوئی اس میں تین ہزار لوگوں، پانچ سو پچاس سیکورٹی اہل کاروں اور 102 پولیس اہل کاروں کی قربانیوں کی بدولت سوات کے عوام کی قربانیوں کے عوض جو اربوں ڈالربٹورے گئے، وہ کہاں گئے۔ آج بھی ہزاروں ننھے منے بچے اپنے شہید والدین کی راہ تکتے ہیں۔اور صوبیہ کے سہیلی کا پانچ سالہ بھائی آج بھی ہر شام اپنے ماں سے کہتا ہے کہ ماما ابو کب اینگے میری لئے ٹافیاں کب لاینگے اور ہر شام ان کے بھائی کے اس بات سے انکا خوشیوں بھرا گھر ماتم کدے میں تبدیل ہوجاتا ہے اب اس گھر میں خوشیاں کہاں لیکن پھر بھی وہی ماں اپنے بچوں کو خوشیاں دینے کی ناکام کوشش کرتی ہے کیونکہ اسکا والد جب شہید ڈی ایس پی جا وید اقبال کے نماز جنازہ میں جا رہا تھا تو وہ اپنے ننھے فرشتے کو ہی کہہ کر گیا تھا کہ میں تیرے لئے ٹافیاں لینے جا تا ہوں ۔کیا ہمارے حکمرانوں کو اس بیوہ اس ماں کی وہ اہ یاد ہے جب شہید جاوید اقبال کے نماز جنازہ میں خود کش ہوا اور انکا بیٹا میڈیکل کے فائنل ائیر کا سٹوڈنٹ جو اپنے والد کے جنازے کو گندھا دینے گیا تھا اور اس کے جنازے میں شریک تھا اور وہ بھی جان کی بازی ہار گیا ۔
کیا ان کو مکان باغ کے ان 40 شہدا کے ورثاء ان کے بال بچوں کے وہ آہیں سنائی نہیں دے رہی ہے جس پر پورا شہر اشکبار تھا اور آج تک وہی اہیں اور سسکیاں میرے کانوں میں گونج رہی ہے ۔
ظالموں تم تو بھول سکتے ہو ۔لیکن میں کیسے بھول سکتا ہوں وہ دن جب مٹہ میں فوج کی کانوائے پر دو خودکش ہوئے اور ہم وہاں پہنچے اور اپنے فرائض کے انجام دہی کے ساتھ امدادی سرگرمیوں بھی کررہا تھا کہ ایک بنجارن چیختے چلاتے وہاں ائی اور حواس باختہ حالت میں میرا گربیاں پکڑ کر اپنی ننھی بچی کا پوچھ رہی تھی اور جب ایک گیراج میں اسکی لاش ملی اور میں نے اسکو اٹھانے کی کوشش کی تو اس معصوم بچی کے ہاتھ میرے اور پاوں فیاض ظفر کے ہاتھوں میں ٹکڑے ٹکڑے اگئے ۔کیا یہ ہے ہمارا پیارا پاکستان ۔ جسمیں ایک مرغی کی تو قیمت ہے لیکن انسان کی کوئی قیمت نہیں ،
آج بھی سوات کے لاکھوں لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے صبح صادق گھروں سے نکل کر دیہاڑی کیلئے قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں اور کام نہ ملنے پر جب گھروں کو مایوس لوٹ جاتے ہیں، تو اپنے بیوی بچوں سے نظریں نہیں ملا سکتے۔یہ ہے میرا پیارا پاکستان ،جس کی دہشت گردی کی جنگ میں قربانیاں دینے والی خواتین آج بھی اپنے لاپتہ پیاروں کی تلاش میں بچوں سمیت سرگرداں ہر روز مظاہرے کر رہی ہیں اور ان کی کوئی شنوائی کرنے والا تک نہیں۔
اے قائد! شکر ہے کہ آج آپ زندہ نہیں ورنہ یہ سب کچھ دیکھ کر آپ کو پچھتاوا ہوتا کہ کیا میں نے اس پاکستان کو تعبیر دیا تھا۔ کیا اس پاکستان کیلئے ہم نے قربانیاں دی تھیں کہ آج اس میں غریب انصاف کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔ آج اس میں ہماری ماں، بہن اور بیٹی کی عزت تک محفوظ نہیں۔سوائے چند خاندانوں کے جو یہاں پر راج کر رہے ہیں۔ ان کے بچے راج کر رہے ہیں اور باقی ماندہ قوم کے بچے پھر ان کے بچوں کے غلام ہوں گے۔ اور شائد یہی نوشتۂ دیوار ہے۔
دیپ جس کا محلات میں ہی جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
1,608 total views, 2 views today