عقل و خرد، محبت و ہم دردی اور احساس ہی انسان کو حیوان سے افضل بناتا ہے۔ اگر یہ عناصر غیر موجود ہوں، تو پھر بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ عقل و شعور ہی کی بنا پر انسان خود کو پہچان لیتا ہے، دوسرے انسانوں کو پہچان لیتا ہے۔ خود کو اور دوسروں کو پہچان لینا ہی انسانیت کی معراج ہوا کرتی ہے، کیوں کہ خود آگہی، عرفان الہٰی کا سبب بنتی ہے۔ اگر کسی شخص کو اپنی پہچان ہی نہ ہو، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ظاہری طور پہ جاگتے رہنے کے باوجود سو رہا ہوتا ہے۔ نہ تو اسے کوئی احساس ہوتا ہے اور نہ ہی وہ کسی کو کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ احساس بہت بڑی نعمت ہے، کیوں کہ انسانیت اور احساس کا ایک دوسرے سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔
بہ ظاہر تو یہ صرف ایک دنیا یا ایک ہی کائنات ہے، جس میں ہم رہ رہے ہیں، مگر اس دنیا میں بے شمار دنیائیں آباد ہیں، ہر گھر ایک الگ دنیا ہی ہے، ہر دل ایک دنیا کی طرح ہی ہوتا ہے۔ ہر شخص کے وجود سے اس سے متعلقہ دنیا آباد رہتی ہے۔ ہر کوئی کسی نہ کسی کو عزیز ہوتا ہے۔ ہر کسی کے کچھ نہ کچھ ارمان ہوتے ہیں۔ وہ دن رات اپنے ارمانوں، اپنی خواہشات کے حصول کے لیے تگ ودو میں مصروفِ عمل رہتا ہے۔ ہر کوئی حسب توفیق اپنی دنیا کو شاد و آباد رکھنے اور اپنے ارمانوں کی تسکین کے لیے سرگرداں رہتا ہے۔ بہ قول شاعر
بازیچۂ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے
کوئی اپنے بچوں کے لیے روزگار کی تلاش میں پھرتا ہے۔ کوئی اپنے بوڑھے والدین کا واحد سہارا بن کر در بہ در خاک بہ سر رہتا ہے۔ کوئی اپنی تعلیم کی تکمیل اور گھر آباد کرنے کے چکر میں چکرا رہا ہوتا ہے۔ ایک تماشا ہے جو ہر لمحہ برپا رہتا ہے۔ ایسے حالات میں انسان ہی انسان کے کام آتا ہے۔ بہ شر ط یہ کہ مفادات یکساں ہوں۔ اگر یہ سوچ بنی کہ مجھے کتنا فائدہ ہوگا، کسی کے کام آنا، یہی دراصل ہم دردی ہوا کرتی ہے (یعنی بے غرضی کے ساتھ کسی کے کام آنا اگر توفیق ہو تو)۔ بھلائی کرکے بھول جانا ہی اعلیٰ ظرفی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ تم نے جس سے بھلائی کی ہو، وہ بھی تم سے بھلائی کرے گا بلکہ تمھاری مدد اللہ کرے گا اور وہ کسی اور شخص کو معبوث فرمادے گا۔ صلہ کی توقع رکھے بغیر لوگوں کے کام آنا بے لوث ہم دردی ہے۔
دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی دراصل اپنے ساتھ نیکی اور بھلائی کرنے کے مترادف ہے۔ کسی کو رُلا کر خوشی حاصل کرلینا بھی کیا خوشی ہے۔ یہ تو دراصل اُس وقت حاصل ہوتی ہے کہ کسی روتے ہوئے فرد کو غموں سے نجات دلانے کا سبب پیدا کیا جائے۔ کسی کے آنسو پونچھ کر اُس کے چہرے پہ خوشی کے پھول کھلانے کے بعد جو خوشی دل کو ملتی ہو وہی دراصل سچی خوشی کہلاتی ہے۔ معاشرتی زندگی کا تقاضا ہی یہی ہے کہ حتیٰ الامکان یہ کوشش کی جائے کہ خوشی اور غم دونوں صورتوں میں ایک دوسرے کے کام آنا چاہیے۔ کیوں کہ انسان کو معاشرتی وجود کہا جاتا ہے۔ معاشرہ انسانی وجود سے عبارت ہے۔ انسان کی عادات و اطوار، روایات رسم و رواج اور تہذیب و تمدن کے مجموعے کو معاشرہ ہی کہا جاتا ہے۔ لہٰذا عادات و اطوار اور رسم و رواج کو تہذیب کے دائرے میں رہ کر معاشرہ ترتیب دینا ضروری ہے۔
خوشیاں بانٹنا اور غموں میں ساتھ نبھانا ایک مشکل کام ہے، بعض اوقات چاہنے کے باوجود انسان خود کو بے بس سمجھتا ہے مگر بھلائی کرنے کی کوشش ترک نہیں کرنا چاہیے۔ کیوں کہ اچھی نیت کی اللہ تعالیٰ اچھی جزا عطا فرماتا ہے اور معاشرے میں عزت بھی بڑھتی ہے۔ ہر عام انسان کسی نہ کسی صورت کسی نہ کسی کا محتاج ضرور ہوتا ہے۔ اس لیے بڑی بڑی توقعات رکھنا عبث ہے، خود دوسروں کے کام آنے میں غفلت سے کام نہیں لینا چاہیے، جہاں تک ممکن ہو۔ دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی سے گریز ضروری ہے مگر جب محسوس ہو کہ یہاں ضرورت ہے، تو وہاں مدد کرنا انتہائی نیک دلی اور ہم دردی ہوگی۔ احساس ہی کی بہ دولت محبت پروان چڑھتی ہے۔ یہ تمام کے تمام جذبات، احساسات کے مرہون منت ہی ہیں۔ دوسروں کو اپنے جیسا اور اپنا سمجھا جائے، تو ہم دردی محبت اور اُن کے دُکھ درد پہ درد محوس ہوتا ہے۔ یہ ایک مکمل حقیقت ہوگی اور یہی تقاضائے انسانیت و آدمیت ہے۔
اگر کسی وجہ یا مجبوری کے تحت کسی مجبور و بے سہارا شخص کی مدد کی توفیق نہ بھی ہو، تو کوئی بات نہیں۔ کم از کم تہہ دل سے اُسے دعائیں دے دینا بھی مؤجب اجر و ثواب ہے۔ دعائیں دینے سے بھی محبت و ہم دردی بڑھتی ہے۔ اور یاد رہے کہ دنیا میں جتنے بھی مشکل کام ہیں، کسی کو دل سے دعا دینا اُنھیں میں سے ایک ہے، جب تک دل میں ہم دردی اور محبت کا احساس نہ ہو کسی کو دعا دینا انتہائی مشکل ہے۔
1,322 total views, 2 views today