سوات کے لوگ اگر ایک طرف دین اسلام کے سچے عاشق ہیں، تو دوسری طرف یہ باقی ماندہ دنیا سے کسی بھی میدان میں پیچھے نہیں ہیں۔ سوات کے نوجوان مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں، جن میں اسپورٹس، آرٹ اور ادب خصوصی طورپر قابل ذکر ہیں۔ سوات کے نوجوانوں میں شعر و ادب کا جذبہ بہ درجہ اتم موجود ہے مگر بدقسمتی سے یہ اب تک مختلف لوگوں کے مختلف مفادات اور خود پرستی کا شکار ہوا ہے، لیکن اللہ کے فضل سے گزشتہ تقریباً دو سالوں سے اس محرومی کا احساس کرتے ہوئے کئی ادیب ساتھیوں نے دوسروں پر انحصار کی بجائے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوکر شعر و ادب کی سرگرمیوں کے ذریعے معاشرے میں زندگی کی نئی انقلابی روح پھونکنے کا ارادہ کیا ہے۔
اسی سلسلے میں اکیس دسمبر 2012ء کو چند نوجوان ادیب سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور ادبی تنظیم ’’سوات ادبی الوت‘‘ کی داغ بیل ڈالی۔مذکورہ ادبی تنظیم کے بارنی اراکین میں امجد علی سورجؔ ، برہان الدین حسرتؔ ، فضل محمد سواتیؔ اور جاوید سواتیؔ خصوصی طور پر نمایاں کردار ادا کرچکے ہیں، جو اَب تک مختلف ادبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ امیر محمد سلطانؔ بھی مذکورہ تنظیم کے سرگرم رکن ہیں، جو کسی مجلس عاملہ کا چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ یہ ادباء روز اول سے ادبی دنیا کے محروم اور با صلاحیت نوجوان شعراء و ادباء کی حوصلہ افزائی کرتے چلے آرہے ہیں۔ اب تک ایسے باصلاحیت نوجوان شعراء و ادباء کی تعداد ستائیس کا ہندسہ عبور کر چکی ہے۔
’’سوات ادبی الوت‘‘ میں اٹھارہ سال کے نو عمر شعراء سے لے کر ستّر سال کی عمر تک کے شعراء بڑے جوش و خروش اور جذبے کے ساتھ مختلف سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں۔ ان کاشاعرانہ مزاج روز بروز پختہ تر ہوتا جا رہا ہے اور مختلف مواقع پر اپنی دھاک بٹھاتے رہتے ہیں ۔
’’سوات ادبی الوت‘‘ کا پہلا تنقیدی اجلاس چار جنوری 2013ء کو بلایا گیا۔ اسی ماہ مذکورہ تنظیم کا مذاکراتی اجلاس منعقد ہوا۔ پھر ہر ماہ ایک تنقیدی اور ایک مذاکراتی اجلاس منعقد کرنے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ مجموعی طور پر تادم تحریر سوات ادبی الوت نے بائیس اجلاس منعقد کیے ہیں۔
سوات ادبی الوت کے ساتھی اللہ کے فضل و کرم سے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہیں اور موقع محل کے مطابق مختلف قسم کے پروگراموں سے اپنی تنظیم اور اپنے علاقے سوات کی خوب صورتی کو چار چاند لگانے میں دیر نہیں کرتے۔ وہ صرف گفتار کے نہیں کردار کے بھی غازی ہیں۔ انھوں نے ادبی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور تعلیمی سرگرمیوں میں اپنے ساتھیوں سمیت معاشرے کے دوسرے افراد، فلاحی کارکن اور سرکاری اہل کاروں کو بھی شامل کرکے یہ پیغام دیا کہ معاشرہ صرف شعراء و ادباء کا نہیں ہے، جس کا احساس صرف یہی لوگ کریں گے، بلکہ معاشرہ ہمارا اجتماعی سرمایہ ہے اور اس کی بہتری کی فکر ہمارا اولین فریضہ۔
اس حوالے سے ’’سوات ادبی الوت‘‘ نے چودہ اگست 2013ء کو وقت کا سب سے اہم پروگرام ’’کتاب میلہ‘‘ کا انعقاد کیا، جس میں مختلف مکتب فکر کے لوگوں کے ساتھ ساتھ سوات کے ثقافتی علاقہ مٹہ میں عورتوں کی شرکت نے تماشائیوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ کتاب میلہ میں شعراء و ادباء کے علاوہ ڈاکٹروں، وکیلوں، انجینئروں اور سیاسی شخصیات نے شرکت کرکے میلے کی رونق دوبالا کی، جس سے ’’سوات ادبی الوت‘‘کا ادبی دنیا میں ڈنکا بجا۔ کتاب میلہ میں افضل خان لالا کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی دعوت دی گئی تھی، لیکن ان کی مصروفیات کی وجہ سے ان کے بیٹے حبیب اللہ (باچا خان) نے خان لالا کی نمائندگی کرکے مہمان خصوصی کی حیثیت سے پروگرام کو رونق بخشی۔ اس کے علاوہ سوات ادبی الوت نے خریڑئ سوات میں یوم مزدور منا کر معاشرہ کے بے بس اور اہم طبقہ ’’مزدور‘‘ کو یہ تسلی دی کہ شعراء و ادباء صرف اہل قلم کے نہیں بلکہ اپنا خون پسینہ ایک کرکے وطن عزیز کو جنت زار بنانے والے مزدوروں کے بھی قدرداں ہیں۔
اس طرح ’’سوات ادبی الوت‘‘ نے اکیس فروری کو مادری زبان کے عالمی دن کے موقع پر مٹہ چوک سے پریس کلب تک واک کا اہتمام بھی کیا، جس کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا کہ پشتو ہماری مادری زبان کی حیثیت سے ہمارے لیے بہت قدر اور اہمیت کی حامل ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم دوسروں کی مادری زبانوں کو بھی یکساں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس پروگرام میں مٹہ اسپتال کے انچارج ڈاکٹر سلیم نے معہ اسٹاف شرکت کی تھی۔ اس طرح مٹہ بازار یونین کے صدر نے بھی اپنے ساتھیوں سمیت ’’سوات ادبی الوت‘‘ کے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی اور اپنا بھر پور تعاون پیش کرنے کے لیے اپنی شرکت یقینی بنائی تھی۔اس کے علاوہ شعراء، ادباء اور اساتذہ کی شمولیت نے پروگرام کی رہی سہی کسر بھی پورا کردی۔
’’سوات ادبی الوت‘‘ صرف سوات میں ہی نہیں، باہر دنیا میں بھی اپنے سفیر بھیج کر دنیا کو اپنا پیغام پہنچا رہے ہیں، جن میں سعودی ریاض کے سفیر جاوید سواتےؔ اور جدہ میں نائب سفیر ابراہیم بیدروالؔ اپنے فرائض بہ طور احسن انجام دے رہے ہیں۔
’’سوات ادبی الوت‘‘ کے ساتھی ایک دوسرے سے محبت اور قدر کا رشتہ استوار کرنے کے قائل ہیں اور اس سلسلے میں اپنے بزرگ شعراء کے اعزاز میں محافل منعقد کرکے ان کی عزت افزائی کرتے ہیں، ان کو عملی طور پر بھائی چارے کی پیشکش کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ’’کراچی اتفاق ادبی جرگہ‘‘ کے صدر فضل خالد غمگینؔ کے اعزاز میں ایک شان دار محفل نعمت کدہ ہوٹل مٹہ میں منعقد کی گئی۔ ابراہیم بیدروالؔ کی رخصتی کے موقع پر ان کے اعزاز میں پرل پبلک اسکول مٹہ خریڑئ میں ایک شان دار محفل کا انعقاد کیا گیا۔
ان محافل میں دوسرے شعراء ساتھیوں نے اعزازی مہمان کی شان میں نظمیں پڑھیں اور ان کی خوب حوصلہ افزائی اور عزت افزائی کی۔
’’سوات ادبی الوت‘‘ کے اجلاسوں میں جن عنوانات پر سیر حاصل گفت گو ہوئی ہے، ان میں رحمان بابا، خوشحال خان خٹک، غزل، نظم اور علم البیان شامل ہیں۔ خوازہ خیلہ ہائیر سیکنڈری اسکول میں قافیہ، ردیف اور استعارہ پر بحث کے لیے پروگرام منعقد کیا گیا۔ آخری اجلاس میں ’’2013ء کے چھاپ شدہ آداب‘‘ مذاکراتی اجلاس کا موضوع تھا۔ ان اجلاسوں کی روداد، کتاب کی شکل میں عن قریب منظر عام پر آنے والی ہے۔
آئندہ پروگرام برہان الدین حسرتؔ کے اعزاز میں کوزہ درش خیلہ میں، کوزہ درشخیلہ کے ساتھیوں کے زیر نگرانی منعقد ہوگا۔ مذکورہ پروگرام میں برہان الدین حسرتؔ کے حال و ماضی اور اخلاق و کردار پر نظموں کی صورت میں روشنی ڈالی جائے گی۔
قارئین کرام! اس ساری تفصیل کا مقصد ’’سوات ادبی الوت‘‘ کے ساتھیوں کے عملی کردار کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ان لکھاریوں کو احساس دلانا بھی ہے، جو اپنی ادبی حیثیت منوانے کے لیے نرگسیت کا شکار ہونے اور اپنے لیے دوڑ دھوپ کی بجائے ہمارے قافلے میں شامل ہوکر نوجوانوں کی ادبی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ فلاحی کاموں میں شرکت کرکے معاشرے کی عملی خدمت کرتے ہیں اور صرف گفتار کے غازی بن کر سادہ لوح عوام کو اپنے مصنوعی اخلاق اور پر فریب ادب سے اپنے مداح بنانے کے ادبی جرم سے توبہ کیا ہے۔ کیوں کہ اس ملک و قوم اور اس معاشرے کو فریب کی نہیں اخلاص کی ضرورت ہے اور اس طرح صرف شعر و شاعری کی نہیں بلکہ عملی کردار کی تو انتہائی زیادہ ضرورت ہے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
سوات کے لوگ اگر ایک طرف دین اسلام کے سچے عاشق ہیں، تو دوسری طرف یہ باقی ماندہ دنیا سے کسی بھی میدان میں پیچھے نہیں ہیں۔ سوات کے نوجوان مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں، جن میں اسپورٹس، آرٹ اور ادب خصوصی طورپر قابل ذکر ہیں۔ سوات کے نوجوانوں میں شعر و ادب کا جذبہ بہ درجہ اتم موجود ہے مگر بدقسمتی سے یہ اب تک مختلف لوگوں کے مختلف مفادات اور خود پرستی کا شکار ہوا ہے، لیکن اللہ کے فضل سے گزشتہ تقریباً دو سالوں سے اس محرومی کا احساس کرتے ہوئے کئی ادیب ساتھیوں نے دوسروں پر انحصار کی بجائے اپنے پاؤں پر کھڑے ہوکر شعر و ادب کی سرگرمیوں کے ذریعے معاشرے میں زندگی کی نئی انقلابی روح پھونکنے کا ارادہ کیا ہے۔
اسی سلسلے میں اکیس دسمبر 2012ء کو چند نوجوان ادیب سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور ادبی تنظیم ’’سوات ادبی الوت‘‘ کی داغ بیل ڈالی۔مذکورہ ادبی تنظیم کے بارنی اراکین میں امجد علی سورجؔ ، برہان الدین حسرتؔ ، فضل محمد سواتیؔ اور جاوید سواتیؔ خصوصی طور پر نمایاں کردار ادا کرچکے ہیں، جو اَب تک مختلف ادبی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ امیر محمد سلطانؔ بھی مذکورہ تنظیم کے سرگرم رکن ہیں، جو کسی مجلس عاملہ کا چیئرمین بھی رہ چکے ہیں۔ یہ ادباء روز اول سے ادبی دنیا کے محروم اور با صلاحیت نوجوان شعراء و ادباء کی حوصلہ افزائی کرتے چلے آرہے ہیں۔ اب تک ایسے باصلاحیت نوجوان شعراء و ادباء کی تعداد ستائیس کا ہندسہ عبور کر چکی ہے۔
’’سوات ادبی الوت‘‘ میں اٹھارہ سال کے نو عمر شعراء سے لے کر ستّر سال کی عمر تک کے شعراء بڑے جوش و خروش اور جذبے کے ساتھ مختلف سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں۔ ان کاشاعرانہ مزاج روز بروز پختہ تر ہوتا جا رہا ہے اور مختلف مواقع پر اپنی دھاک بٹھاتے رہتے ہیں ۔
’’سوات ادبی الوت‘‘ کا پہلا تنقیدی اجلاس چار جنوری 2013ء کو بلایا گیا۔ اسی ماہ مذکورہ تنظیم کا مذاکراتی اجلاس منعقد ہوا۔ پھر ہر ماہ ایک تنقیدی اور ایک مذاکراتی اجلاس منعقد کرنے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ مجموعی طور پر تادم تحریر سوات ادبی الوت نے بائیس اجلاس منعقد کیے ہیں۔
سوات ادبی الوت کے ساتھی اللہ کے فضل و کرم سے حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہیں اور موقع محل کے مطابق مختلف قسم کے پروگراموں سے اپنی تنظیم اور اپنے علاقے سوات کی خوب صورتی کو چار چاند لگانے میں دیر نہیں کرتے۔ وہ صرف گفتار کے نہیں کردار کے بھی غازی ہیں۔ انھوں نے ادبی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ معاشرتی اور تعلیمی سرگرمیوں میں اپنے ساتھیوں سمیت معاشرے کے دوسرے افراد، فلاحی کارکن اور سرکاری اہل کاروں کو بھی شامل کرکے یہ پیغام دیا کہ معاشرہ صرف شعراء و ادباء کا نہیں ہے، جس کا احساس صرف یہی لوگ کریں گے، بلکہ معاشرہ ہمارا اجتماعی سرمایہ ہے اور اس کی بہتری کی فکر ہمارا اولین فریضہ۔
اس حوالے سے ’’سوات ادبی الوت‘‘ نے چودہ اگست 2013ء کو وقت کا سب سے اہم پروگرام ’’کتاب میلہ‘‘ کا انعقاد کیا، جس میں مختلف مکتب فکر کے لوگوں کے ساتھ ساتھ سوات کے ثقافتی علاقہ مٹہ میں عورتوں کی شرکت نے تماشائیوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ کتاب میلہ میں شعراء و ادباء کے علاوہ ڈاکٹروں، وکیلوں، انجینئروں اور سیاسی شخصیات نے شرکت کرکے میلے کی رونق دوبالا کی، جس سے ’’سوات ادبی الوت‘‘کا ادبی دنیا میں ڈنکا بجا۔ کتاب میلہ میں افضل خان لالا کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی دعوت دی گئی تھی، لیکن ان کی مصروفیات کی وجہ سے ان کے بیٹے حبیب اللہ (باچا خان) نے خان لالا کی نمائندگی کرکے مہمان خصوصی کی حیثیت سے پروگرام کو رونق بخشی۔ اس کے علاوہ سوات ادبی الوت نے خریڑئ سوات میں یوم مزدور منا کر معاشرہ کے بے بس اور اہم طبقہ ’’مزدور‘‘ کو یہ تسلی دی کہ شعراء و ادباء صرف اہل قلم کے نہیں بلکہ اپنا خون پسینہ ایک کرکے وطن عزیز کو جنت زار بنانے والے مزدوروں کے بھی قدرداں ہیں۔
اس طرح ’’سوات ادبی الوت‘‘ نے اکیس فروری کو مادری زبان کے عالمی دن کے موقع پر مٹہ چوک سے پریس کلب تک واک کا اہتمام بھی کیا، جس کے ذریعے یہ پیغام دیا گیا کہ پشتو ہماری مادری زبان کی حیثیت سے ہمارے لیے بہت قدر اور اہمیت کی حامل ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم دوسروں کی مادری زبانوں کو بھی یکساں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس پروگرام میں مٹہ اسپتال کے انچارج ڈاکٹر سلیم نے معہ اسٹاف شرکت کی تھی۔ اس طرح مٹہ بازار یونین کے صدر نے بھی اپنے ساتھیوں سمیت ’’سوات ادبی الوت‘‘ کے ساتھیوں کی حوصلہ افزائی اور اپنا بھر پور تعاون پیش کرنے کے لیے اپنی شرکت یقینی بنائی تھی۔اس کے علاوہ شعراء، ادباء اور اساتذہ کی شمولیت نے پروگرام کی رہی سہی کسر بھی پورا کردی۔
’’سوات ادبی الوت‘‘ صرف سوات میں ہی نہیں، باہر دنیا میں بھی اپنے سفیر بھیج کر دنیا کو اپنا پیغام پہنچا رہے ہیں، جن میں سعودی ریاض کے سفیر جاوید سواتےؔ اور جدہ میں نائب سفیر ابراہیم بیدروالؔ اپنے فرائض بہ طور احسن انجام دے رہے ہیں۔
’’سوات ادبی الوت‘‘ کے ساتھی ایک دوسرے سے محبت اور قدر کا رشتہ استوار کرنے کے قائل ہیں اور اس سلسلے میں اپنے بزرگ شعراء کے اعزاز میں محافل منعقد کرکے ان کی عزت افزائی کرتے ہیں، ان کو عملی طور پر بھائی چارے کی پیشکش کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ’’کراچی اتفاق ادبی جرگہ‘‘ کے صدر فضل خالد غمگینؔ کے اعزاز میں ایک شان دار محفل نعمت کدہ ہوٹل مٹہ میں منعقد کی گئی۔ ابراہیم بیدروالؔ کی رخصتی کے موقع پر ان کے اعزاز میں پرل پبلک اسکول مٹہ خریڑئ میں ایک شان دار محفل کا انعقاد کیا گیا۔
ان محافل میں دوسرے شعراء ساتھیوں نے اعزازی مہمان کی شان میں نظمیں پڑھیں اور ان کی خوب حوصلہ افزائی اور عزت افزائی کی۔
’’سوات ادبی الوت‘‘ کے اجلاسوں میں جن عنوانات پر سیر حاصل گفت گو ہوئی ہے، ان میں رحمان بابا، خوشحال خان خٹک، غزل، نظم اور علم البیان شامل ہیں۔ خوازہ خیلہ ہائیر سیکنڈری اسکول میں قافیہ، ردیف اور استعارہ پر بحث کے لیے پروگرام منعقد کیا گیا۔ آخری اجلاس میں ’’2013ء کے چھاپ شدہ آداب‘‘ مذاکراتی اجلاس کا موضوع تھا۔ ان اجلاسوں کی روداد، کتاب کی شکل میں عن قریب منظر عام پر آنے والی ہے۔
آئندہ پروگرام برہان الدین حسرتؔ کے اعزاز میں کوزہ درش خیلہ میں، کوزہ درشخیلہ کے ساتھیوں کے زیر نگرانی منعقد ہوگا۔ مذکورہ پروگرام میں برہان الدین حسرتؔ کے حال و ماضی اور اخلاق و کردار پر نظموں کی صورت میں روشنی ڈالی جائے گی۔
قارئین کرام! اس ساری تفصیل کا مقصد ’’سوات ادبی الوت‘‘ کے ساتھیوں کے عملی کردار کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ان لکھاریوں کو احساس دلانا بھی ہے، جو اپنی ادبی حیثیت منوانے کے لیے نرگسیت کا شکار ہونے اور اپنے لیے دوڑ دھوپ کی بجائے ہمارے قافلے میں شامل ہوکر نوجوانوں کی ادبی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ فلاحی کاموں میں شرکت کرکے معاشرے کی عملی خدمت کرتے ہیں اور صرف گفتار کے غازی بن کر سادہ لوح عوام کو اپنے مصنوعی اخلاق اور پر فریب ادب سے اپنے مداح بنانے کے ادبی جرم سے توبہ کیا ہے۔ کیوں کہ اس ملک و قوم اور اس معاشرے کو فریب کی نہیں اخلاص کی ضرورت ہے اور اس طرح صرف شعر و شاعری کی نہیں بلکہ عملی کردار کی تو انتہائی زیادہ ضرورت ہے۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔
1,868 total views, 2 views today