تحریر نعیم اللہ خان
پتھر پر چترکاری کوئی نیا فن/مہارت نہیں ہے، یہ لاکھوں سال پرانا فن ہے جس کی تاریخ میں اولین شہادت آٹھ لاکھ سال پہلے ملتی ہے، (بحوالہ ویکیپیڈیا)۔ پتھر پر مختلف اشکال و تصاویر تراشنا کا فن زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ انسان نے اس میدان میں بہت مہارت حاصل کی اور باریک پیچیدہ کام سے لے کر پتھر کے پہاڑوں میں چترکاری کے ذریعے دیو ہیکل بت/مجسموں
سے لے کر بڑے بڑے محلات اور خوبصورت پھول بوٹے تخلیق کرڈالے۔ پرانے نوادرات میں اس فن کے بہت سارے شہہ پارے موجود ہیں جن پر پرانی تاریخ اشکال و عبارت کی صورت میں کندہ کی گئی ہے۔ انسان کی کمزوری نے جب اُس کو وحدانیت سےدور کرکے دنیاوی مادی اشیاء کو پوجنے کی طرف راغب کیا تو اُس نے اُن کو اشکال میں ڈالنا شروع کیا اور اس کے لئے پتھر کو تراش خراش کر مجسمے اور مورتیاں بنائی گئی۔ ظہور اسلام کے بعد جہاں بتوں کو پوجنے کو حرام قرار دیا گیا وہاں انسان و دیگر جانداروں کی اشکال کو بھی کندہ کرنا (یا فی زمانہ بلاضرورت تصویر کشی ) کو بھی
منع کیا گیا۔ چونکہ یہ ایک خوبصورت فن ہے
اس لئے اس فن کے ماہرکاریگروں نے بت تراشی کے بجائے خوبصورت پھول بوٹے، جومیٹریکل اشکال، شعر و شاعری اور آیات کریمہ کو پتھروں پر خوبصورتی سے نقش کرنا شروع کیا اور اس طرح سے یہ فن جاری و ساری رہا۔ آج بھی اسلامی عہد کی تاریخی تعمیرات میں اس خوبصورت کام کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ زمانے کی ترقی اور جدید سازو سامان اور سہولتوں نے اس فن کو بھی خطرےمیں ڈال دیاہے، جہاں ایک پتھر کی سلیٹ (سِل) پر کئی دنوں کی محنت، ہاتھ کی کاریگری سے ایک شاہکار تخلیق کیا جاتا تھا
اب وہی کام ماربل اور دیگر مصنوعی ٹائلز پر کمپیوٹر گرافکس اور دیگر مشینری سے بہت آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔ دور حاضر کی کئی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اس فن کو باقاعدہ بطور مضمون پڑھایا جارہا ہے اور باقاعدہ سنگ تراشی و چترکاری کی تربیت دی جاتی ہے۔ جدید دور کی ٹیکنیکل سہولیات نے “چترکاری” کے فن کو بھی معدومیت کی خطرات میں ڈالا ہے کیونکہ ان کی گزر بسر اسی روزگار سے وابستہ ہے۔
الیاس اُستاد کے فن پارے اپنی مثال آپ ہیں، جہاں اُنہوں نے پتھر کی سِلوں کو تراش خراش کر خوبصورت ڈیزائن اور پھول بوٹے بنائے ہیں وہاں پتھر کی اَنہی سِلوں (سلیٹ) پر اُن کی کندہ کی ہوئی آیات کریمہ اور خوبصورت اشعار وغیرہ بھی قابل دید ہیں۔ اُن کے تخلیق کردہ فن پارے نہ صرف گھروں، دفتروں وغیرہ میں بطور آرائشی اشیاء کے استعمال کیا رہاہے بلکہ کئی ایک ادارے/افراد اُن کو بطور سوینیئر بھی لے رہے ہیں، ان کے ساتھ ہی کئی ایک گھریلو استعمال کے خوبصورت سامان بھی بنائے ہیں جن میں سلیٹ پتھر کی سلوں سے بنائے گئے خوبصورت اور دیدہ زیب ٹرے ، پھول دان، مخروطی اور عمودی پردے
اور دیواروں پر سجانے کے لئے خوبصورت سلیٹ جن کو لکڑی کے نفیس فریمز میں بند کرکے بنایاگیا ہے۔ الیاس اُستاد نے حکومت سے درخواست کی کہ پانچ ، دس ہزار انعام دینے کے بجائے اگر اس فن کو زندہ رکھنے کے لئے باقاعدہ کوئی ادارہ بنائے اور سرکاری سرپرستی میں اس کو توسیع دی جائے تو یہ فن زندہ رہے گا اور نوجوان ہنر مند اس میدان میں بھی اپنے ہنر کے جلوے بکھیریں گےاور اُن کے کام کو بیرون ملک برآمد کرکے اچھا خاصہ زرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔ اُن کے تخلیق کئے ہوئے کچھ فن پاروں کی تصاویر پیش خدمت ہیں۔
1,588 total views, 1 views today