چار جنوری 2014ء کے اخبارات کی شہ سرخیوں کے مطابق الطاف بھائی نے نہ صرف بھارتی مہاجروں (بھارتی لفظ اس لیے استعمال کیا کہ ہمارے یہاں افغانی مہاجرین جو اَب یہاں قابض ہوچکے ہیں، بھی لاکھوں میں ہیں۔ دوسری اقوام سے مہاجرین بھی ہوں گے) کے لیے الگ صوبے کا مطالبہ کیا بلکہ ایک علاحدہ ملک برائے مہاجرین کے حصول کی اپنی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ الطاف بھائی بھارتی مہاجرین کے ایک پُر وسائل لیڈر ہیں۔ عام یا درمیانے درجے کے کسی شہری کا لندن میں سالوں پر محیط رہائش رکھنا شائد ممکن نہیں اور پُروسائل افراد کے ہاتھ کافی لمبے ہوتے ہیں۔ عام لوگوں کی نسبت وہ ذہین بھی زیادہ ہوتے ہیں۔
کراچی اور چند اور شہروں میں مہاجرین کی ایک علاحدہ سیاسی شناخت میں الطاف بھائی کا بڑا ہاتھ ہے۔ پھر اس جماعت کو فاشزم کے اصولوں اور طریقہ ہائے کار پر چلانے کا سہرہ بھی الطاف اور اُس کے ہم خیالوں کے سر ہے۔ بھارتی مہاجرین، افغان مہاجرین کے بالکل الٹ کردار کے مالک ہیں۔ نرم مزاجی، صلح پسندی، تعلیم یافتہ ہونا جیسے اعلیٰ انسانی خواص ان میں دوسری اقوام کی نسبت زیادہ ہیں، لیکن جب سے ان کو پاکستانی قومیت سے مہاجر قومیت کے دائرے میں لایا گیا ہے۔ تب سے ان شریف النفس لوگوں میں خوف ناک قاتلوں، رہزنوں، لٹیروں، بھتہ خوروں، اغواء کاروں اور بلیک میلروں نے بھی جگہ پالی ہے اور انھوں نے ایسے ایسے کارنامے کیے کہ کراچی انسانوں کا مقتل بن گیا۔ جس طرح ہم پٹھانوں میں افغانی مہاجر آسانی کے ساتھ چھپ سکتے ہیں، اسی طرح کراچی کی اردو بولنے والی آبادیوں میں بھارت کے لوگ محفوظ رہ سکتے ہیں۔ سنا ہے کہ جنرل ضیاء کے دور میں بھارت سے دلہنیں لانے کی اجازت دی گئی تھی۔ محب وطن اور دانش مند پاکستانیوں نے اُس وقت کہنا شروع کیا تھا کہ یہ رعایت وطن عزیز کے خلاف مؤثر سازش میں کام آئے گی۔
ہم ذاتی طور پر چھوٹے صوبوں کے قیام کے حامی ہیں۔ صرف اس بنیاد پر کہ انتظامی معاملات آسان ہوجائیں۔ الطاف بھائی نے ’’مہاجر صوبے‘‘ کی بات کی ہے۔ ہم بھی پاٹا اور فاٹا سے ایک یا دو مکمل صوبے بنوانے کے خواہش مند ہیں۔ تاکہ وطن عزیز کے اندازاً ایک کروڑ شہری ملک کے آئین اور قوانین سے مزید محروم نہ ہوں۔ سرائیکی اور ہزارہ صوبے کے بھی ہم مخالفت نہیں کرتے۔ چوں کہ وقت کے تقاضے اب وہ نہیں رہے ہیں، جو سو سال قبل تھے، اس لیے سو سال یا اُس سے زیادہ پہلے جو بڑے بڑے صوبے اُس وقت کے حالات اور ضروریات کے تحت بنائے گئے تھے، وہ حالات اور ضروریات اب تبدیل ہوگئی ہیں۔ اس لیے خالصتاً انتظامی سہولیات کے لیے ان بڑے بڑے صوبوں کو توڑ کر صوبوں کی تعداد بڑھادی جائے۔ فاٹا، پاٹا، ہزارہ اور سرائیکی علاقوں سے صوبے بنانے کی تجاویز اور مطالبے وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے ہیں، لیکن اردو زبان کی بنیاد پر صوبے کی بات، ورنہ الگ ملک کی بات ہم نے پہلے پہلی بار پڑھی ہے۔ اس طرح بلوچستان کی اقوام کا بڑے بلوچستان سے چھوٹے صوبے بنانے کی بات بھی ہم نے نہیں سنی ہے۔ بلوچستان کی طرف اس زاویہ سے توجہ بہتر بات ہوگی۔
جب مہاجر قومی موومنٹ ایک سیاسی جماعت کی شکل میں اقتدار میں آئی، تو ہمیں اُمید ہوچلی تھی کہ سنجیدہ بردبار تعلیم یافتہ اور کم مال دار لوگوں کی ایک ایسی جماعت سامنے آگئی ہے، جو شیعہ ہے نہ سنی۔ دیوبندی ہے نہ بریلوی۔ پٹھان ہے نہ پنجابی۔ جاگیر داروں کی ہے نہ سرمایہ داروں کی۔ پھر ان کے کرتا دھرتا ایسے خواتین و حضرات ہیں، جو علاقائی اور قومی عصبیت سے پاک ہیں۔ اس پارٹی کے کئی فاشسٹ طریقوں کو ہم خالصتاً جدید سیاست کے ضوابط کے تحت ’’قابل قبول‘‘ سمجھ رہے تھے اور ہمیں اُمید تھی کہ یہ پارٹی پورے ملک کے کروڑوں عوام کی بہتری کے لیے پاکستان (جس پرمختلف مافیوں کا قبضہ ہوچکا ہے) کو ایک جدید فلاحی ریاست بنائے گی، لیکن اس حقیقت سے ہمیں یقیناًدکھ ہوا کہ ایم کیو ایم بھی اُن محدود دائروں میں مقید ایک جماعت ہے، جن میں ایک آدھ کو چھوڑ کر باقی سب جماعتیں قید ہیں۔ جماعت اسلامی کی طرف نظریں اُٹھتی ہیں، لیکن ہر مولوی اس جماعت کا مخالف ہے۔ اور ہر چھوٹا بڑا مولوی اس جماعت اور اس کے ارکان کو عوام کے درمیان غیر مؤثر اور غیر مقبول کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ سیاسی مخالفت ایک مسلمہ حق ہے لیکن مذہب کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا شائد درست نہیں۔ اس لیے اُس جماعت کی عمدہ تنظیم، عمدہ تربیت اور عمدہ افرادی قوت کے محاسن سے قوم مستفید نہیں ہوتی۔ خود مولوی حضرات کئی سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں منقسم رہتے ہیں۔ ایک جدید ریاست کے تقاضوں پر مولوی حضرات کچھ زیادہ نہیں بولتے۔
الطاف بھائی کو ایک موقع ملا ہے۔ اُن کے پاس مختلف قسم کے وسائل موجود ہیں مثلاً ایک جماعت، قربانی دینے والے کارکن، جن کی اکثریت جدید تعلیم یافتہ ہے۔ مالی استعداد اور بیوروکریسی میں موجود کافی سے زیادہ اردو بولنے والے مہاجرہیں۔ اس لیے اگر مہاجرین ایک وسیع تر قومی سطح کی سیاست شروع کریں، تو ان کے بے شمار محاسن سے ملک و قوم کو فوائد پہنچیں گے۔ خود ان مہاجرین کا فائدہ اور بقاپاکستانیت میں ہے۔ فاشزم کے اصول سے فوری نتائج تو حاصل ہوتے ہیں، لیکن اُن میں استقلال نہیں ہوتا۔ الطاف صاحب، مہاجر قومی موومنٹ میں فاشزم کے اصولوں پر نظر ثانی کروائیں۔
سن اُنیس سو اکہتر کے حالات اب موجود نہیں۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا۔ سوائے دین اسلام کے (وہ بھی کئی فقہوں اور کئی فرقوں اور کئی مسلکوں میں منقسم) مغربی اور مشرقی پاکستان میں کوئی چیز مشترک نہیں تھی۔ بنگالیوں کے پاس اپنی زبان، اپنی زمین تھی۔ الطاف بھائی کے پاس ایسی چیزیں نہیں بلکہ اُن کے پاس کچھ بھی نہیں۔ اردو بھی اُن کی زبان نہیں ہے۔ یہ بھی برصغیر کے تمام اقوام کی زبان ہے۔
پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی اُس وقت کے (اور بعد کے) سیاست کاروں نے اس ملک و قوم کو بے شمار مشکلات سے دوچار کروایا۔ الطاف صاحب اُن کے راستوں پر نہ چلیں۔ مہاجروں کے لیے الگ ملک کا خیال اگر جذباتی نعرہ نہ ہو، تو یہ بہت خطرناک سوچ ہوگی۔ پاکستان کے مقامی باشندے اپنے کسی بھی حصے کو اپنے سے الگ نہیں کریں گے۔ بے شک مغربی اقوام نے خاکم بدہن ایک ٹوٹے ہوئے پاکستان کے نقشے جاری کیے ہیں، لیکن اُن میں بھی کوئی الگ مہاجر مملکت کا وجود نہیں ہے۔ بھارت سے آنے والی اقوام اب مہاجر نہیں پاکستانی ہیں۔ اُن کو اپنی اہلیتوں سے پورے ملک و قوم کے مفادات کا کام لینا چاہیے۔ مہاجر جیسی محدود سوچ کو دفن کرنا اچھا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن ایک مستحکم اور مضبوط پاکستان ہی اس علاقے کے ممالک اور عوام کے فائدے میں ہے۔ پاکستان کی کم زوری (خدانخواستہ) سے بھارت غیر مستحکم ہوجائے گا جو اچھی بات نہ ہوگی۔
1,172 total views, 2 views today