پانچ مئی کو یہاں کے ایک لوکل اخبار میں پانچ مئی 2009ء سواتی عوام کے دردناک ہجرت کے بارے میں فیاض ظفر کا حساس اور ارمانی کالم پڑھا، جس طرح لکھتے ہوئے اُس کے گرم آنسو لیپ ٹاپ پر گر رہے تھے، ٹھیک اسی طرح اس کالم کو پڑھتے ہوئے میرے بھی بے بسی کے آنسو میرے لپ ٹاپ پر گررہے تھے۔ کوئی بھی حساس دل اپنی قوم کی بے بسی، لاچارگی اور دردناک حالات پر تڑپ اٹھتا ہے۔ خاص کر جب اُس مخصوص، حساس اور حسرت ناک حالات کا خود چشم دید گواہ بھی ہو۔ رونا، تڑپنا تو حالات پر بھی ہے لیکن زیادہ تر اپنی بے بسی اور لاچارگی پر بھی انسان کو رونا آتا ہے۔ جب وہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نہ کرسکتا ہو۔
یہ سوالات تو فیاض ظفر جیسے حساس لوگوں کو عمر بھر تڑپاتے رہیں گے کہ
* آخر یہ سب کچھ کیوں ہوا؟
* حالات کی ذمے داری کسی پر ڈالی جانی چاہیے؟
* کس سے اس شورش کے حوالے سے پوچھا جائے؟
* مزید یہ کہ اس تمام تر صورت حال کا اب مداوا کیسے ہو؟
کیوں کہ افسوس تو یہ ہے کہ اتنی لاتعداد اور بے مثال قربانیاں دینے کے باوجود سوات کے عوام آج ایک بار پھر سکون کے ایک لمحے کو ترس رہے ہیں۔ آج بھی دھماکوں کے زد میں ہیں۔ آج بھی دھمکیوں میں جی رہے ہیں۔ آج بھی چیک پوسٹوں نے ناک میں دم کیا ہوا ہے۔ آج بھی گھروں کی تلاشیاں لی جارہی ہیں۔
دوسری جانب اتنی سیکورٹی کے باوجود ملزمان کو نہیں پکڑا جاتا۔ دہشت گرد اپنی من مانیاں کررہے ہیں۔ عوام خوف میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
فیاض صاحب! آپ جتنا بھی رولیں سوات کے عوام جاگنے والے نہیں۔ آپ جیسے چند حساس صحافیوں کے رونے سے کیا ہوگا؟ سواتی عوام بے حسی کی زندگی گزارنے پر خوش ہیں۔ یہ اپنے ساتھ زیادتیوں کو بھول جانے والے لوگ ہیں۔ ان کی یادداشت بہت کم زور ہے۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ سوات کے عوام کو پانچ مئی 2009ء کا دن ہر سال منانا چاہیے تھا۔ جلسے، جلوس کرنے چاہیے تھے۔ مظاہروں کا اہتمام کرنا چاہیے تھا۔ اُن دردناک اور حسرت ناک حالات پر بولنا چاہیے تھا۔ تجزئیے کرنا چاہیے تھا۔ ماضی کو کرید کر حال کو مد نظر رکھ کر مستقبل کالائحہ عمل طے کرنا چاہیے تھا۔ اُس وقت کی بے بسی اور لاچارگی کو آنکھوں میں سمو کر دوست اور دشمن کی پہچان کرنا چاہیے تھی۔
فیاض ظفر صاحب! آپ کا رونا سر آنکھوں پر۔ آپ کے آنسو بہت قیمتی ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ سوات کے عوام آپ کے آنسوؤں کی قدر و قیمت پہچان لیں یا اُس بے بس ماں کے دکھوں اور آنسوؤں کا احساس ہی کرلیں جس کا بیٹا بھوکا، پیاسا خاموشی سے اس ظالم دنیا سے چلا گیا۔ بہ قول شاعر
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
کس کا در کھٹکھٹائیں؟ اور اس پر بس نہیں۔ نجانے کب تک یہ غموں، دکھوں، آنسوؤں کے سلسلے چلتے رہیں گے؟ کب تک سوات کے دریا بے شور، لہلہاتے کھیت مغموم اور بل کھاتی ندیاں اداس رہیں گی؟ کب تک موت ہمارا پیچھا کرتی رہے گی؟ کب تک علم و قلم کا خون ہوتا رہے گا؟
آخر کب تک؟
1,128 total views, 2 views today