ہارون رشید
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سوات
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کی وادیِِ سوات میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن ’راہ حق‘ کو پانچ سال مکمل ہوگئے ہیں اور اس دوران جہاں حالات میں عمومی بہتری آئی ہے اور لوگوں کا اعتماد بحال ہوا ہے، وہیں ان پر طاری خوف ابھی ختم نہیں ہوا۔
سوات پچھلے پانچ برس میں بہت تبدیل ہو گیا ہے۔ یہاں شدت پسندی میں نمایاں کمی آئی ہے، وادی میں سکیورٹی فورسز کی تعداد بھی پہلے جتنی نہیں، کاروبار بحال ہوئے ہیں لیکن مقامی آبادی کو اب یہ یقین ہو چلا ہے کہ نہ تو اس علاقے سے ہمیشہ کے لیے فوج جانے والی ہے اور نہ ہی شدت پسند۔.
سوات کے لوگوں پر یہ بات عیاں ہے کہ شدت پسندی کی واپسی کے قدرے دائمی خطرے کی موجودگی میں وہ فوج کے بغیر بھی نہیں رہ سکتے جبکہ دوسری جانب وہ فوج کی غیر معینہ موجودگی بھی نہیں چاہتے۔
مینگورہ کی 19 سالہ طالبہ نیلم نے سوات کے بگڑتے سنبھلتے حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔
جب سات مئی 2009 کی شام اس وقت کے وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی نے قوم سے خطاب میں سوات میں فوجی کارروائی کا اعلان کیا تھا جس کے بعد نقل مکانی کا آغاز ہوا تھا اور تقریباً 20 لاکھ لوگ بے گھر ہو گئے تھے۔ لیکن اس دوران مینگورہ کی نیلم چٹان کے خاندان نے گھر ہی پر رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اب وہ کھلونا ہتھیاروں کے خلاف اپنی مدد آپ کے تحت گھر گھر جا کر مہم چلا رہی ہیں۔
“فوج کبھی نہیں جائے گی، کبھی نہیں۔۔۔ اور جب تک فوج ہے یہاں طالبان بھی ہوں گے۔”
نیلم چٹان
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’فوج کبھی نہیں جائے گی، کبھی نہیں۔۔۔ اور جب تک فوج ہے، یہاں طالبان بھی ہوں گے۔‘
سوات میں فوجی چھاؤنی کا اعلان ہو چکا ہے لیکن اس پر ابھی کام کا آغاز نہیں ہوا۔ تاہم پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمود خان اچکزئی کہتے ہیں کہ ’سوات کو چھاؤنیوں کی نہیں فیکٹریوں کی ضرورت ہے۔‘
فوجی آپریشن کے فوراً بعد قدم قدم پر فوجی چوکیاں قائم ہو گئی تھیں۔ اب ان تعداد کم ہو گئی ہے، لیکن مینگورہ شہر آنے جانے والوں کو اب بھی روزانہ ان باقی ماندہ چوکیوں پر بعض اوقات گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔
سوات قومی جرگے کے رکن زاہد خان کہتے ہیں کہ ’یہ چوکیاں اب صرف مالاکنڈ کی سرحد پر ہوں گی، شہر میں نہیں۔ امن کمیٹوں سے بھی زبردستی گشت کروایا جاتا ہے جس سے لوگوں کی نجی زندگیاں متاثر ہو رہی ہے۔ گاؤں اور آبادیوں میں فوج کی موجودگی ناپسندیدہ عمل ہے۔ لوگ فوج سے محبت کرتے ہیں لیکن چند لوگوں کی وجہ سے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں جو لڑکیوں کو چھیڑتے ہیں، تعلقات بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہٰذا فوج کو کیمپوں تک محدود ہونا چاہیے۔‘
“یہ چوکیاں اب صرف مالاکنڈ کی سرحد پر ہوں شہر میں نہیں۔ امن کمیٹوں سے بھی زبردستی گشت کروائی جاتی ہے۔ لوگوں کی نجی زندگی متاثر ہو رہی ہے۔ گاؤں اور آبادیوں میں فوج کی موجودگی ناپسندیدہ عمل ہے۔ فوج کو کیمپوں تک محدود ہونا چاہیے۔”
اس بابت پاکستان فوج کا ردعمل حاصل کرنے کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہوئیں۔
نقل و حرکت میں مشکلات کے علاوہ سوات کے لوگ خوف کی وجہ سے کھل کر بول بھی نہیں سکتے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ فوج نے مالاکنڈ پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے مخبروں کا ایک انتہائی وسیع جال بچھایا ہوا ہے۔ دوسری جانب طالبان کے بارے میں بھی خدشہ ہے کہ ان کا زیرِ زمین نیٹ ورک موجود ہے۔
نیلم کہتی ہیں: ’ایک طرف فوج ہے اور دوسری جانب طالبان۔ اگر آرمی کی تعریف کی جائے تو طالبان نہیں چھوڑتے اور اگر طالبان کی تعریف کی جائے تو فوج نہیں چھوڑتی۔ میڈیا والے آ جائیں تو پھر کوئی نہیں بولتا، سب ڈرتے ہیں۔ جب لوگ آپس میں بیٹھتے ہیں تو اب بھی ایک دوسرے کو کہتے ہیں کہ ایسی بات نہ کرو، کہیں ہم میں کوئی آئی ایس آئی والا نہ بیٹھا ہو۔‘
جنت نظیر وادیِ سوات میں سیاحت بڑا ذریعۂ معاش ہے۔ پاکستانی سیاح تو یہاں آنے لگے ہیں لیکن حکومت غیرملکیوں کو اجازت نہیں دے رہی۔ انھیں وزارت داخلہ سے این او سی لینا پڑتا ہے۔ زاہد خان کہتے ہیں کہ بہت سے ’ڈونرز‘ (عطیہ کنندگان) بھی آنا چاہتے ہیں جو یہاں فلاحی منصوبے شروع کرنا چاہتے ہیں لیکن حکومت اس پر تیار نہیں
جنگ و جدل کے سطحی آثار تو جلد مٹ جاتے ہیں لیکن لوگوں کے ذہنوں پر اس کا اثر جاتے جاتے ہی جاتا ہے۔ پائیدار امن سے متعلق یہی غیریقینی صورتحال لوگوں کی بول چال اور ذہنی کیفیت پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔
ذہنی امراض کے ماہر ڈاکٹر میاں نظام علی کا کہنا ہے کہ سنہ 2010 کے بعد سے ان کے پاس آنے والے مریضوں کی تعداد میں 25 سے 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان میں زیادہ تعداد بچوں اور عورتوں کی ہے: ’تشویش اور خوف بڑھا ہے کہ طالبان پھر تو نہیں آ جائیں گے، پھر فوجی آپریشن تو نہیں ہو گا، مذاکرات کا کیا نتیجہ ہوگا۔ بارش شروع ہو جائے تو کیا سیلاب پھر تو نہیں آئے گا؟‘
البتہ ان کے مشاہدے کے مطابق سب سے زیادہ اثر بچوں کے رویوں پر پڑا ہے: ’سکولوں کے بند ہونے سے ان پر منفی اثر ہوا۔ نقل مکانی کی منفی یادیں اب بھی بعض لوگوں کو تنگ کرتی ہیں۔ ان کا علاج دو سے پانچ سال، بلکہ زندگی بھر پر بھی محیط ہوسکتا ہے۔ تاہم ان کے اعتماد کی بحالی کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
796 total views, 1 views today