ہمت افزائی سے مراد کسی معاملے میں کسی کا حوصلہ بڑھانا، اسے حوصلہ افزائی بھی کہتے ہیں۔ اس طرح حوصلہ شکنی، حوصلہ افزائی کی ضد ہے۔
کسی کارکردگی کے دوران میں یا اختتام پر کارکن کو داد دینا بہتر کام کرنے پر انعام دینا، انعام خواہ تحریری ہو یا مادی۔ اس سے کار گزار کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ حوصلہ افزائی کی ہر عمر میں ضرورت اور اہمیت ہوتی ہے۔ حوصلہ افزائی کام پہ اکساتی ہے، یہ توانائی بخش ہوتی ہے، اس سے دل میں لگن پیدا ہوتی ہے۔ حوصلہ افزائی، زبانی الفاظ اور ایوارڈز کے ذریعے بھی کی جاتی ہے۔ اگر کسی اہل کار کی کارکردگی کم زور بھی ہو، تو اپنے علم کے مطابق اُس کو تسلی و تشفی دینا ضروری ہے۔ اُسے نا اہل کہہ کر میدان سے ہٹا دینا ٹھیک نہیں ہوتا اور یہ مسئلے کا حل بھی نہیں ہے۔ کارکن کی محنت اور لگن کو ضرور مد نظر رکھنا چاہیے، کامیابی اور ناکامی ایک الگ بات ہے۔ قابلیت تجربات سے آہی جاتی ہے۔
خواہ کوئی بھی متعلقہ یا غیر متعلقہ شخص تمھیں کسی معاملے میں مشورے کے قابل سمجھ کر کوئی مشورہ طلب کرے، تو دل شکنی کیے بغیر اسے مفید مشورہ دو۔
کسی تحریر پہ اصلاح کرانا چاہے، اُسے اصلاح دو اُس کی تحریری اغلاط یا اصولوں کی درستگی کرو۔ اُس کی خوبئی تحریر کی حوصلہ افزائی کرو اور خامئی تحریر کی تہہ دل سے اصلاح کردو، تاکہ تو اس کی نظر میں مزید معتبر ہوجاؤ۔ عزت مانگنے سے کبھی نہیں ملتی۔ یہ خدا کی طرف سے عطا ہوا کرتی ہے۔ اگر کوئی تمھاری عزت کرتا ہے، تو اُسے اپنی عزت کرنے دو، اُسے بے عزت کرکے دھتکار مت دینا۔
کسی کی حوصلہ شکنی، اُس کی اُبھرنے والی صلاحیتوں کو قتل کرنے دینے کے برابر ہے۔ کوئی شخص اگر کوئی مثبت قدم اُٹھائے، تواسے اپنے خداداد علم کے مطابق چلنے میں مدد دو۔ اُسے دیوار سے لگانے کی کوشش تمھیں اُس کی نظروں سے گرادے گی۔ وہ تمھیں نا اہل سمجھ کر نظر انداز کردے گا، اگر تم سے علم اور مرتبے میں کم شخص تمھیں نظر انداز کردے، تو اس سے بڑھ کر کوئی اور تذلیل کیا ہوگی۔
لڑ کھڑاتے ہوئے قدم اُٹھانے والے کے لیے بیساکھی بن کر مددگار بن جانا چاہیے، اگر طاقت ور توفیق رکھتے ہوں تو۔
تمھارا ایک حوصلہ افزا جملہ اُسے زیرو سے ہیرو بناسکتا ہے۔ باالفرض اگر تم اس کی مدد نہیں بھی کرسکتے ہو، تو کم از کم اُس کی حوصلہ شکنی کرکے مایوس ہر گز مت کرنا کہ اُس کی مثبت صلاحیتوں کو زنگ لگنے کا اندیشہ بڑھ سکتا ہے اور یہ خود متعلقہ فرد اور ملک و ملت کا نقصان ہوگا۔
کسی کی حوصلہ افزائی تب ممکن ہے کہ جب صلاح کار کے دل میں خلوص موجود ہو۔ ہم دردی کی رمق ابھی سانس لے رہی ہو۔ انسان کے لیے دل میں تڑپ ہمک رہی ہو۔
’’شاباش تم کرسکتے ہو‘‘، ’’تم میں صلاحیت موجود ہے‘‘، ’’تم کسی سے کم نہیں‘‘، ’’تمھارے لیے کچھ مشکل نہیں‘‘، ’’کوشش جاری رکھو‘‘، ’’جدوجہد ترک مت کرو‘‘، ’’تم ہر رکاوٹ کا مقابلہ کرسکتے ہو‘‘، ’’ڈٹ جاؤ‘‘، ’’تمھاری محنت رائیگاں نہیں جائے گی‘‘، ’’اللہ پر بھروسہ رکھو، سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘‘ ’’بڑھتے چلے جاؤ۔‘‘ اس قسم کے جملے متعلقہ اور مذکورہ شخص کے لیے نوید سحر ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس طرح کے جملے کارکردگی، کوشش اور لگن کی رفتار کو حیرت انگیز طور پر بڑھادیتے ہیں۔ جہاں تک ہوسکے ’’کار گزار‘‘ کی حوصلہ افزائی ہوتی رہنی چاہیے۔ تاکہ کارکردگی میں اضافہ ہوتا رہے، خواہ وہ محنت مزدوری ہو یا تحریر و تقریر ہو، اُس کا متعلقہ امور میں اپنے علم کے مطابق حوصلہ بڑھانا چاہیے۔
اگر آپ کسی ادارے کے مالک ہیں، تو کسی اہل کار کی حوصلہ شکنی یا اُس کی خامیوں کی تاک میں ہر گز نہ رہیں بلکہ اُس میں خوبیاں تلاش کریں۔ اُس کی غلطیوں پر خلوت میں تنقید برائے اصلاح ضرور کریں، تاکہ اُسے مہارت حاصل ہوتی رہے۔ اُس کی خامیوں کو کام کے مطابق خوبیوں میں بدلنے کی کوشش کریں، کیوں کہ کوئی گھر سے سب کچھ سیکھ کر نہیں آیا ہوتا۔
کسی اہل کار کی خامی کو اُس کا لیبل مت بننے دیجیے۔ کارکردگی کا جائز معاوضہ دیتے رہیں اور معاوضے میں وقتاً فوقتاً اضافہ بھی کرتے رہیں۔ کیوں کہ خوب سے خوب ترکی تلاش ہر فرد کا بنیادی حق ہے۔ کہیں خوب ترکی تلاش میں ایک محنتی اور ایمان دار اہل کار سے ہاتھ نہ دھونے پڑیں کہ وہ ضروریات زندگی پوری کرنے کسی اور ادارے میں چلا جائے، اس لیے کہ وہاں تن خواہ زیادہ ملنے کی توقع ہے۔ محض معاوضے کی وجہ سے اگر کوئی اہل کار ادارہ چھوڑ کر چلا جائے، تو یہ ادارے کے مالک کی ناکامی ہوگی۔
اپنے اہل کار کے معاوضے کا موازنہ کسی اور ادارے کے اہل کار کے معاوضے سے ہرگز نہیں کرنا چاہیے کہ فلاں تو یومیہ تین سو روپے دیتا ہے، میں کیوں اہل کار کو پانچ سو روپے دوں۔ یہ غلط نظریہ اس لیے بھی ہے کہ اگر اپنے اہل کار اور دوسرے ادارے کے اہل کار کی قابلیت اور کار گزاری کا موازنہ کیا جائے، تو آپ کے اہل کار کی کار گزاری ہوسکتا ہے کہ اُس سے بہتر ہو۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ قابلیت سے کم معاوضے میں کوئی فرد اپنے فرائض ادا کرتا رہتا ہے، تو یہ اُس کی کوئی مجبوری ہوسکتی ہے۔ شائد اُسے کسی قدر دان ادارے میں جانے کا موقع نہ ملا ہو۔
بنیادی ضروریات کا پورا ہونا ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ اداروں کو چاہیے کہ وہ وقت پر اپنے اہل کاروں کو اُن کی کارگزاری کا معاوضہ ادا کریں، تاکہ وہ دل جمعی اور پر جوش انداز سے اپنی ذمے داریاں نبھاسکیں۔
اگر کسی کار گزار کو وقت پر ماہانہ طے شدہ معاوضہ ادا نہ کیا جائے، تو وہ اپنے کام سے بد دل ہوکر متبادل رستے کی جستجو میں لگ جاتا ہے۔ سیکڑوں لوگوں میں سے چند ایسے لوگ ہوتے ہیں جوکہ ہر حال میں گزارا کرتے ہیں۔ وہ معاوضے سے زیادہ کام کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں کہ اُسے اس قابل سمجھا گیا ہے۔ مگر یہ ادارے کی طرف سے نا انصافی ہوگی کہ ایک صابر و شاکر شخص کی صداقت اور ایمان داری سے ناجائز فائدہ اُٹھائے۔ ایسے لوگ تو بہت ان مول اور نایاب ہوتے ہیں۔ ان مخلص لوگوں کی دل سے قدر کرنی چاہیے۔ یہی لوگ اداروں کے لیے باعث برکت اور قابل احترام ہوا کرتے ہیں۔
بہ ہر حال حوصلہ افزائی، سراہے جانا اور انعامات اہل کار کی کارکردگی پہ خاطر خواہ، مثبت اور ان مٹ اثرات مرتب کرتے ہیں۔ حوصلہ شکنی فطری صلاحیتوں کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں ہوتی۔ لہٰذا کسی کی لڑ کھڑاتی ہوئی کوشش کی راہ میں رعونت اور شکست کے بند نہیں باندھنے چاہئیں۔
2,762 total views, 6 views today