چند روز قبل اطلاع ملی کہ پی ٹی وی کے مکالمہ پروگرام میں رات گیارہ سے بارہ بجے کے دوران میں اے آر وائی کے بیورو چیف پشاور خیبر پختون خوا ضیاء الحق صاحب اس صوبے میں تخریب کاری کے حوالے سے گفت گو کریں گے۔ پروگرام کو دیکھنے کے لیے میں جب دفتری امور سے فارغ ہوا اور گھر پہنچا، تو ’’مسائلستان‘‘ میں حسب معمول گیارہ بجے لائٹ چلی گئی۔ خدا کا نام لے کر جنریٹر آن کیا، تو مکالمہ شروع ہوچکا تھا۔ پروگرام کے میزبان اسرار صاحب نے سب سے پہلے تعلیم کے حوالے سے ہماری ’’محسن‘‘ ملالہ یوسف زئی کو ٹیلی فونک لیا تھا۔ اس کا خطاب شروع ہوا۔ آٹھ منٹ پر محیط خطاب میں موصوفہ نے پاکستان میں خواتین کی تعلیم کے فروغ کو اپنا کارنامہ قرار دیتے ہوئے اسے اپنے سر کا تاج بنا لیا اور کہا کہ میرے شدت پسندی کے خلاف بولنے اور مجھ پر حملے کے بعد سوات سمیت ملک بھر میں خواتین کی شرح تعلیم میں اضافہ ہوا ہے۔ اب بچیاں زیادہ تعداد میں اسکول جارہی ہیں، و علیٰ ہذا القیاس۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ٓاپ کا تعلق اس صوبے کی پس ماندہ ضلع شانگلہ کے ایک پس ماندہ ترین علاقے شاہ پور سے ہے۔ ہاں، اگر آپ کی وجہ سے وہاں کی بچیوں نے اسکول جانا شروع کیا ہو، تو میں مان لوں گا۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ آپ کی وجہ سے سو بچے جو ملالہ ایجوکیشن فاؤنڈیشن میں آپ کے اپنے اسکول کو ملے ہیں، یقیناًوہ بچے آپ کی وجہ سے پڑھ رہے ہیں اور آپ اور آپ کے والد ’’بزرگوار‘‘ اس عمل پر کروڑوں روپے کما رہے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے سو بچوں کی تعلیم کا ٹھیکہ ملا بھی تو اپنے ہی اسکول یعنی چت بھی میری اور پٹ بھی میری۔اسے کہتے ہیں پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔ یعنی اب ضیاء صاحب خاصے کمانے لگے ہیں۔
برسبیل تذکرہ، ایک دوست نے کہا کہ پچھلے دنوں اسلام آباد کے مارگلہ ہوٹل میں اکسفورڈ یونی ورسٹی کی طرف سے منعقدہ ایک تقریب میں فریال گوہر نے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ ’’میری آرزو تھی کہ ملالہ یوسف زئی سے ملوں، مگر سوات میں مجھے چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر یہ موقع نہیں دیا گیا۔ مگر جب وہ انگلستان میں مقیم ہوئی، تو میں نے اس کے والد ضیاء الدین یوسف زئی سے اپنی خواہش کا اظہار کر دیا۔ مجھے امید ہی نہیں تھی کہ وہ اس حد تک گر سکتے ہیں۔ ضیاء الدین نے مجھے ملالہ سے ملنے کے لیے پانچ ہزار ڈالر ادا کرنے کا کہا۔‘‘
یوسف زوؤں میں شائد ہی ایسی کوئی مثال ہو جو اپنی بیٹی کی کمائی کھاتا ہو اور اسے زینہ بنا کر شہرت حاصل کرتا ہو۔
ملالئی، آپ تو ایک بچی ہیں۔ ضیا ء ’’صاحب‘‘ کو یاد ہوگا کہ اسی پس ماندہ ضلع کے علاقے چکیسر میں تعلیم کی شرح پہلے سے زیادہ ہے۔ وہاں کی بچیاں طالبانائزیشن سے پہلے بھی پشاور اور دیگر شہروں میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے جاتی تھیں۔ یہ سلسلہ اب بھی پورے شد و مد سے جاری ہے۔ میں یاد دلاتا چلوں کہ پورے صوبے میں سوات اور تھانہ میں خواتین کی شرح تعلیم نہایت ہی زیادہ ہے۔ والئی سوات نے ریاست سوات کے دور میں 1942ء میں یہاں پر لڑکیوں کے لیے تعلیمی ادارے قائم کیے تھے اور اس وقت سے لے کر آج تک یہاں کی لڑکیاں پشاور، ایبٹ آباد، اسلام آباد اور دیگر بڑے بڑے شہروں میںیونی وسٹیوں اور میڈیکل کالجوں میں پڑھ رہی ہیں۔ سوات یونی ورسٹی کا تو آپ کو پتہ تک نہیں ہوگا کہ اب وہاں ہماری بچیوں نے جنرل ازم میں بھی داخلے لے لیے ہیں۔ یہاں وہ بغیر آپ اور آپ کے والد ’’محترم‘‘ کی شعبدہ بازی کے مخلوط نظام تعلیم میں اپنی اعلیٰ تعلیم جا ری رکھے ہوئی ہیں۔ کیا آپ کے والد ’’محترم‘‘ کو سنگوٹہ جیسا معیاری ادارہ یاد نہیں، جس میں اس وقت بچے اور بچیاں ایک ساتھ پڑھتی تھیں جب یہاں پر ضیاء کا منحوس سایہ تک نہیں پڑا تھا۔ اب سوات کے نام پر آپ لوگوں کو جو عزت ملی ہے یا دلائی گئی ہے، خدارا!اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آپ پورے سوات اور یوسف زئی پختونوں کی مٹی پلید کرتے پھریں۔
تاریخ گواہ ہیں کہ جو لوگ کامیاب ہوئے ہیں اور انھوں نے اپنی مٹی اپنے دیس اور اپنی ثقافت کو بھلایا ہے، وہ چاہے کتنا ہی اونچائی پر کیوں نہ پہنچے ہوں۔ ایک نہ ایک دن وہ نیچے گرے ہیں اور شیشے کی طرح کرچیوں میں تبدیل ہوئے ہیں۔ اور پھر انہیں منہ چھپانے کی جگہ تک نہیں ملتی
نائجیریا اور دیگر ممالک کی بچیوں کی باتیں کرنے والی یوسف زئی صاحبہ، آپ کو اپنے علاقہ کے وہ بھوکے ننگے معصوم بچے دکھائی نہیں دے رہے، جو جسم و جاں کا رشتہ بحال رکھنے کی خاطر در در کی خاک چھاننے پر مجبور ہیں۔ آپ کے والد تو آج کل کھربوں میں کھیل رہے ہیں، انھیں چاہیے کہ وہ ہی اک نظر کرم ان پر کریں، ایسا نہ ہو کہ وہ خوش حال پبلک اسکول کو ایک اور ٹھیکہ دیں۔
ملالہ صاحبہ، کیا آپ کے والد ’’محترم‘‘ کو دو ہزار تین والی سات سالہ معصوم بچی ’’خوش بو‘‘ یاد ہے، جس کو والدین نے غربت سے تنگ آکر پچاس ہزار روپے میں فروخت کیا تھا۔ اسے خریدنے والے اسے جسم فروشی پر مجبور کرتے تھے۔ بعد میں میری اور فیاض ظفر کی کوششوں سے اس گروپ کے تمام افراد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ تمھارے ہی الفاظ ہیں کہ میں ان بے سہارا بچیوں کے لیے کام کرنا چاہتی ہوں جو دوسروں کے گھروں میں کام کرتی ہیں، برتن مانجھتیے ہیں جن کے ہاتھ میں کتاب نہیں۔یہ اور اس قبیل کے دیگر بلند بانگ دعوے کرنا کوئی مشکل بات نہیں لیکن عملی اقدام اٹھا نا واقعی ایک مشکل کام ہے۔ آپ کے لیے کیا مشکل ہے، گولڈن براؤن کے بنائے ہوئے ملالہ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے اکاونٹ میں کروڑوں ڈالرز پڑے ہوئے ہیں۔ اس سے کوئی بھی بڑا کام کرنا کچھ بھی مشکل کام نہیں۔لیکن اگر کوئی سچے دل سے قدم اٹھائے تو۔سیاست دانوں کی طرح بلند و بانگ دعوے نہ کریں۔ اب تو خیر سے سوات کی ہواؤں میں ایک نئی افواہ گردش کر رہی ہے کہ آپ کے والد بزرگوار سوات کے معززین کو ورغلا کر اپنے ساتھ ملا گئے تھے۔ ہر کوئی اپنے علاقے کا بھلا چاہتا ہے اور یہی بھلا سوات کے وہ معززین بھی چاہتے تھے۔ میری اطلاعات کے مطابق آپ کے ’’محترم‘‘ والد انھیں باور کرا گئے تھے کہ وہ سوات کے لیے ایک اچھا سا تعلیمی منصوبہ شروع کرنے جا رہے ہیں۔ اس کے لیے جب فنڈز وغیرہ اکھٹا ہوئے، تو ضیاء نے آنکھیں پھیر لیں، یعنی وہ اب مذکورہ منصوبہ شانگلہ منتقل کر رہے ہیں۔ اگر میری اطلاعات غلط نہیں ہیں، تو ان لوگوں کے منہ بند ہونے چاہیں، جو ہر فورم پر یہ کہتے تھکتے نہیں کہ ضیاء اور ملالہ نے سب کچھ سوات کے لیے کیا اور بدلے میں سوات کے لوگ انھیں معتوب ٹھہرا رہے ہیں۔
ضیاء صاحب کی پشت پر اب بھی یہاں سول سوسائٹی کے نام پر چند لوگ ویزوں اور ملالہ فنڈ میں حصہ کی غرض سے دم ہلاتے نظر آتے ہیں جن کی تعداد اٹے میں نمک کے برابر ہیں ان سے گزارش ہے کہ آپ ضرور دم ہلائیں مگر بیچ میں مقصد کا راگ مت الاپیں اور یہ بھی مت کہیں کہ ضیاء اور اس کی بیٹی نے جو کچھ کیا ہے وہ پختونوں یا سوات کی بھلائی کے لیے کیا ہے۔ بہت جلد شانگلہ کے لیے شروع کیا جانے والا تعلیمی منصوبہ منظر عام پر آئے گا۔ پھر سب کی آنکھیں کھل جائیں گی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ شانگلہ ترقی نہ کرے، وہ بھی ہمارا ہی علاقہ ہے، لیکن جب نام سوات کا استعمال کیا جا رہا ہے، تو اسے بھی نظر انداز نہ کیا جائے۔
1,583 total views, 2 views today