بائیس اپریل 2014ء کو ہمارے کراچی کے کولیگ اور بھائیوں جیسے فیض اللہ خان اپنے صحافتی فرائض کی انجام دہی کے لیے کراچی سے پشاور کے علاقے خیبر ایجنسی گئے، جہاں پر وہ غلطی سے پاک افغان بارڈر کراس کرگئے۔ وہاں پر افغان خفیہ ایجنسی کے ہاتھ لگ گئے اور نتیجتاً انھیں نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ آج فیض اللہ خان کے ٹھیک پچیس دن پورے ہوگئے۔ حراست میں لینے کی خبر موصول ہوتے ہی اے آر وائی نیوز کی انتظامیہ نے بیک ڈور کوششوں کا آغاز کردیا۔ چینل کے نائب صدر عماد یوسف،کراچی کے بیورو چیف ایس ایم شکیل، اسلام آباد کے بیوروچیف صابر شاکر اورپشاور کے بیورو ضیاء الحق نے اس سلسلے میں خصوصی طور پر روابط کیے اور اس مسئلہ کو بیک ڈور چینلز سے حل کرنے کو ترجیح دی۔ کیوں کہ ہمارے لیے چینلز کی ریٹنگ اور مشہوری سے زیادہ فیض اللہ خان کی زندگی پیاری تھی اور ترجیح بھی یہی تھی کہ ان کو بہ حفاظت بازیاب کیا جائے، اس لیے اس سلسلے میں حکومت پاکستان اور افغان حکومت سے رابطے کیے گئے، لیکن بالآخر ایک ایسا وقت آیا کہ ادارہ مجبور ہوا اور اس خبر کو ہائی لائٹ کیا گیا۔ اس کی بہ دولت آخر کار فیض اللہ خان کو نامعلوم مقام سے معلوم مقام پر لایا گیا۔ ان کا گھر سے بھی رابطہ کرایا گیا۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس وقت فیض اللہ خان کی بیوی بچوں اور ان کے والدین پر کیا گزررہی ہوگی اور ان کی حالت کیا ہو رہی ہوگی،میں تو ان کی بیگم کا سامنا تک نہیں کرسکتا۔ اس سے فون پر بھی بات نہیں کرسکتا۔ کیوں کہ ان کا رونا مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔ ان کے اپنے شوہر کے ساتھ بیتے خوش گوار لمحات بیان کرتے ان پر رقت طاری ہوجاتی ہے۔ کوئی بھی درد دل رکھنے والا بھابھی کو سننے کی تاب نہیں رکھے گا۔
فیض کی حراست میں لینے کے چند روز بعد میرا کراچی جانا ہوا۔ وہاں بھابھی کے ساتھ کراچی بیورو میں ایک گھنٹے پر محیط ملاقات نے مجھے بے حد مغموم کیا۔ ان کا معصوم بچہ دیکھ کر مجھے اپنے بچے یاد آگئے۔ ماں ہے کہ روئی جا رہی ہے اور بچہ دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنی دنیا میں مگن۔ بچہ جب بھی میری طرف معصوم نگاہیں اٹھاتا مجھے بے حد عجیب سا لگتا۔ خدا لگتی کہوں تو مجھے اپنا آپ قصور وار دکھائی دیا۔ اس کی سوالیہ نگاہیں گویا مجھے چھب رہی تھیں۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا، جیسے وہ پوچھ رہا ہو کہ انکل، کیا میرے ابو واپس آسکیں گے؟ کیا میں ایک بار پھر اس کی انگلی تھام کر سیر کے لیے جا سکوں گا؟ مجھ میں اس کے ساتھ نظریں ملانے کی تاب نہیں تھی۔
جلتی پر تیل کا کام شکیل احمد خان کے آنے نے کیا۔ اس نے سوکھے لبوں پر تر زبان پھیرتے ہوئے مجھ سے پوچھا: ’’فیض کا کیا ہوا؟ وہ میرا بھائی ہے۔ آج میں جس مقام پر ہوں، اس کی بہ دولت ہوں۔ خدا کے لیے مجھے جلدی بتا دیں۔‘‘ ایک سانس میں اتنا کچھ اس نے کہا اور پھر میرا منھ تکنے لگا۔ اور میں تھا کہ وہاں سے بھاگنا چاہتا تھا، دور بہت دور۔اس وقت میں اسی سوچ میں بھی تھا کہ شکر ہے خدا کا کہ بھابھی کے ساتھ اس کی ڈیڑھ سالہ بچی پیمہ نہیں تھی۔یہاں پر ہمارے ساتھ چیف رپورٹر کاشف حسین ،کرائم رپورٹر کامل عارف ،انجم وہاب اور صلاح الدین نے بھی اس بات پر گھنٹوں گفتگو کی اور سنیہ بھابھی کو بھی دلاسے دیتے رہے۔
قارئین کرام! فیض سے میرے گہرے مراسم ہیں۔ پانچ سال قبل جب اس کی شادی ہوئی تو وہ ہنی مون منانے جنت نظیر وادی سوات آیا تھا۔ میرے گھر اور ثمر ہاؤس ملم جبہ سمیت مرغزار اور دیگر جگہوں پر ہم ایک ہفتے تک ایک ساتھ رہے تھے۔ اس وقت مجھے اندازہ نہیں تھا کہ لو میرج کی ہونے والی شادی میں دونوں میاں بیوی کے درمیان اتنی محبت ہوگی جس کا اندازہ فیض کی حراست میں چلے جانے کے بعد ہوا۔ کیوں کہ بھابھی کے مطابق اگر فیض نہیں، تو وہ بھی نہیں۔ اب مجھے ایک ہی فکر کھائی جا رہی ہے کہ خدا خیر کرے کہیں بھابھی اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچا دے۔ مگر دن میں کئی بار ان کے آنے والے موبائل پیغامات مجھے ایک نوید دے جاتے ہیں کہ الحمد اللہ بھابھی ابھی سلامت ہیں۔خدا نہ کرے کہ فیض کو کچھ ہوجائے، ورنہ میں، ضیاء الحق اور ہمارا ادارہ کس طرح پھر بھابھی کا سامنا کریں گے؟ یہاں میں شکر ادا کروں پروردگار کا کہ ہم سب ایک ایسے ادارے کے ساتھ منسلک ہیں، جس نے فیض کا نہیں بلکہ ہمارے جس بھی کارکن ،رپورٹر یا ورکر کا کوئی مسئلہ ہو، تو ہمارے بڑے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے ہیں۔ کسی بھی کارکن کی عزت نفس اور اس کے وقار پر کوئی سودا بازی آج تک نہیں کی اور آج وہی روایت ایک بار پھر دہرائی جا رہی ہے۔ فیض کو مشکل کی اس گھڑی میں تنہائی کا احساس بھی نہیں دلایا جا رہا ہے۔ آج بھی پشاور کے بیوروچیف نے دو افراد کو افغانستان میں موجود ہے اور وہ اس کوشش میں ہیں کہ فیض کو بہ حفاظت واپس لایا جا سکے۔یہاں میں اس سوچ میں ہوں کہ گزشتہ چندسالوں میں پاکستان میں سو سے زائد صحافیوں کو ڈیوٹی کے دوران میں قتل کیا گیا، جس میں سوات کے چار صحافی بھی شامل ہیں۔ اس وجہ سے پوری دنیا میں پاکستان کو صحافت کے لیے خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں ہر طرف سے دھمکیاں ملتی ہیں، کسی کے خلاف آواز اٹھاؤ تو وہ جان کا دشمن بن جاتا ہے۔ کسی کا کرپشن سامنے لاؤ، تو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں اور اس کی پاداش میں آج بھی راقم اٹھارہ کیسوں میں متعدد میں پیشیاں بھگت رہا ہے۔پاکستان کا تو یہ حال ہے، لیکن افغان حکومت یا کوئی اور مجھے یہ بتا سکتا ہے کہ افغانستان محفوظ ہے صحافت کے لیے؟ غلطی سے افغانستان میں داخل ہونے والے صحافی کو اس قدر سخت سزا کیوں دی جا رہی ہے؟ کیا فیض اتنے بڑے دہشت گرد ہیں کہ ان کو بیس بیس دنوں تک جیل میں مجرموں کی طرح رکھا جا رہا ہے۔ پوری دنیا کے بڑے بڑے ممالک کا یہ قانون ہے کہ بغیر ویزے سے داخل ہونے والے افراد کو فارن ایکٹ کے تحت ڈی پورٹ کیا جاتا ہے، لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک بچے کو اپنے والدین کی محبت سے، ایک بیوی کو اپنے شوہر کے پیار سے اور ایک بیٹے کو اپنے والدین سے دور رکھا جا رہا ہے۔گزشتہ دو عشروں سے ہم لاکھوں افغانیوں کا بوجھ اٹھائے پھر رہے ہیں۔ ان کی وجہ سے ہمارے صوبے میں دہشت گردی اور جرائم میں اضافہ ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود ہم نے ان کو مہمان کا درجہ دیا ہوا ہے۔ اس کے باوجود ہم ان کے ناز و نخرے اٹھا رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون اور مدد کر رہے ہیں، تو کیا افغان حکومت ہمارے ایک بھائی کو ہمارے حوالے نہیں کر سکتی۔
یہاں میں حکومت پاکستان، جو پہلے ہی سے اس معاملے میں لگی ہوئی ہے اورساتھ ساتھ افغان حکومت سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ ایک مسلمان اور پڑوس ملک ہونے کے ناطے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے فیض اللہ خان کو اپنے والدین، اپنے بیوی بچوں کی خاطر رہا کریں۔ تاکہ وہ یہاں آکر اپنے والدین کی خدمت کرسکیں۔ اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پاسکیں،یہ صرف فیض اللہ، ان کے بیوی بچوں پر نہیں پورے ملک کے صحافیوں پر آپ لوگوں کا احسان عظیم ہوگا۔ خدا لگتی کہتا ہوں کہ مجھے ایک ہی بات کا دھڑکا لگا رہتا ہے اور وہ یہ کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم ایک اور صحافی کو کھو دیں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے۔
878 total views, 2 views today