تحریر۔ محمد زبیر خان
محمد ہلال جب اٹھ سال کا تھا تو وہ اپنے باپ کے کندھوں پر بیٹھ کر دریائے سوات جاتا تھا، جہاں پر ان کے والد دریامیں مچھلیاں پکڑ تے تو کمسن ہونے کے باوجود اس میں ڈر وخوف کے نام سے نا اشنا تھا، کمسنی میں ہی ان کے والد گرمیوں اور سردیوں دونوں موسموں میں دریائے سوات میں ڈوبنے والے افراد کی لاشیں نکالتے تھے، توتو محمد ہلال اس کے ساتھ ہوتے تھے، وقت گزرتا گیا اور محمد ہلا ل بڑا ہوتا گیا، اپنے والد سے دریائے سوات میں کشتی چلانا سیکھیں، اور باپ کی جگہ لیکر اپنے گھر کا چولہا ٹھنڈا نہ ہونے دیا۔
محمد ہلال کی کہانی بڑی دلچسپ بھی ہے اور حیرت انگیز بھی ، جب بھی دریائے سوات میں کوئی ڈوب جاتا ہے اور تیز و تند لہروں کی نذر ہوجاتا ہے تو محمد ہلال کی جسم کی کیفیت عجیب ہوجاتی ہے، اس کے دل کو محسوس ہوتا ہے کہ ضرور دریائے سوات کے بے رحم موجوں نے کسی کو زندگی سے ازا د کردیا ہے ، اسی کشمکش میں اس کو فون اجاتا ہے ، کہ فلاں جگہ سے فلاں بندہ دریائے سوات کی تیز لہروں کی نذر ہوگیا ہے اوراس کی ڈیڈ باڈی دریائے سوات سے نکالنے ہے ، اطلاع اتے ہی محمد ہلال اپنے بادبانی کشتی نکال کر کبھی باغ ڈھیری، تو کبھی چھوٹا کالام سے اپنی کشتی ڈال دیتا ہے اور پھر اپنے طاقت ور ہاتھوں سے دریائے سوات کا چپہ چپہ ڈھونڈ نکالنے میں مصروف ہو جاتا ہے، محمد ہلال کہتے ہے کہ جب تک لاش نہیں ملتی تو مجھے قرار نہیں آتا۔
محمدہلال کی عمر اس وقت تقریبا 45 سال کے قریب ہے، اور تحصیل کبل کے گاؤں علیگرامہ میں ایک درمیانے درجے کے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے، اس نے 14 سال کی عمر سے ہی دریائے سوات میں اپنے والد کیساتھ ملکر مچھلیاں پکڑنا شروع کردیا ، جو تاحال جاری ہے، وہ کہتے ہیں کہ 32 سے 34 سال کی زندگی دریائے سوات میں گزر گئی ہے، اس عرصہ میں تین سو سے زائد لاشوں کو دریائے سوات سے نکال کر لواحقین کے حوالے کردیئے ہیں، جن میں بچے ، بوڑھے، جوان، خواتین، بزرگ افرا د شامل ہیں، اپنے بچپن کا واقعہ ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میری عمر بمشکل پندرہ سے سولہ سال ہوگی جب میری والد نے دریائے سوات سے لاش نکال لی لیکن اندھیرا ہونے کی وجہ سے دریائے سے لاش کو دوسرے کنارے تک لانا ممکن نہیں تھا، تو میرے والد گھر چلے گئے اور میں پوری راتٍ ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍلاش کے ساتھ بیٹھا رہا اسی اثناء میں سوبھی گیا تھا،انہوں نے کہا کہ حال ہی میں جو موٹر کار دریائے سوات میں گر گئی تھی اور جس میں چار افرادٍ ٍجاں بحق ہوگئے تھے، تو ان چاروں کو میں نے اپنے کشتی ہی کے ذریعے دریائے سے نکال کر لواحقین کے حوالے کردیئے ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ خدمت میں اللہ کی رضا کیلئے کرتا ہوں، جب سے میں نے ہوش سنبھالا ہے اور دریائے سے لوگوں کے پیاروں کو نکال رہا ہوں، کو ئی بھی ایک بندہ مجھ پر ثابت نہیں کرسکتا ہے کہ میں نے لاش نکالنے کیلئے اس سے دس روپے تک لئے ہوں ۔
محمد ہلال سے جب یہ سوا ل کیا گیا کہ لاش نکالتے ہوئے اپ کے جسم پر کوئی زخم ایا ہے یا اپ کو کوئی دشواری ہوئی ہے تو ان کا کہنا ہے کہ دریائے سوات انتہائی خطرناک ہے اس کی پانی کہیں ایک فٹ گہری ہے تو کہی دس فٹ سے زائد گہری بھی ہوتی ہے، جس میں کشتی چلانا اور اس کو کنٹرول کرنا بہت مشکل ہے ، انہوں نے کہاکہ دریائے سوات میں لوگوں کو تلاش کرتے کرتے میرے جسم پر کافی گہرے زخم بھی آئے ہیں، جب لاش مل جاتی ہے تو ا سکے کپڑے اکثر پھٹ گئے ہوتے ہیں، تواس غسل دینے کے بعد اکثر اوقات میں اپنے کپڑے پھاڑ دیتا ہوں تاکہ گھر والوں کو ذہنی سکون ملیں اور اس کو احساس نہ ہو ں کہ اس کا پیارا جب نکالا گیا تو اس کی حالت ٹھیک تھی۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ تین سو سال زائد لاشیں نکالنے کے باوجود ابھی تک کسی نے پوچھا تک بھی نہیں ہے، نہ کسی حکومتی ادارے، نہ غیر سرکاری ادارے اور نہ ہی ان لوگوں نے جن کے پیاروں کو میں نے تلا ش کیا ہے، جب کوئی گم ہو جاتا ہے، تو لواحقین بڑے بڑے اعلانات کرتے ہیں کہ جس نے ڈھونڈا اس کو یہ انعام دینگے لیکن جب پیدا ہوتا ہے تو پھر ہمیں اس کے خیرات میں بھی یاد نہیں کیا جا تا۔
جب محمد ہلال سے یہ پوچھا گیا کہ اپ کے گھر کے خرچے کہاں سے پورے ہوتے ہیں اور اپ کی کشتی جب خراب ہوجاتی تو اس کو کون ٹھیک کرتا ہے اس کے علاوہ کشتی لے جانے اور واپس انے کیلئے کرایہ کی مد میں اپ لوگوں سے پیسے لیتے ہیں توانہوں نے اس بات پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کوئی ایک بھی شخص یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ میں نے کوئی رقم لی ہے، میں دریائے سوات میں مچھلیاں پکڑ کر اور اس بھیج کر اپنے گھرکی اخراجات پورا کرتا ہوں، جبکہ میرے ساتھ واحد ایک شخص مدد کرتا ہے ، جو یونین کونسل ھزارہ کے ویلج ناظم عبدالسلام ہے، جب میری کشتی خراب ہوتی ہے یا مجھے کسی اور چیز کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ میرے کام سے بخوبی اگاہ ہے اس نے ہر مشکل وقت میں میری بھر پور مدد کی ہے، کیونکہ وہ ایک فلاحی ادارہ الہلال ٹرسٹ کے نام چلاتا ہے جس میں ہر ضرورت مند شخص کی مددکرتا ہے ۔عبدالسلام نے میرے کشتی کیلئے نئے ٹیوب ، جیکٹ ، اوردیگر چیزیں اکثر خریدتا رہتا ہے۔جس کیلئے میں اس کا شکرگزار ہوں ۔
محمد ہلال کے چار اور بھی بھائی ہیں، ان کو بھی محمد ہلال نے دریائے سوات میں کشتی چلانا سیکھا دیا ہے، جب بھی کوئی ایمرجنسی اتی ہے تو اپنے ساتھ ساتھ میں اپنے بھائیوں کو بھی مدد کیلئے بلاتا ہوں اور وہ بھی میرے ساتھ دریائے سوات میں تلاشی اپریشن شروع کردیتے ہیں،جب اس سے یہ پوچھا گیا کہ دریائے سوات میں رات کے وقت ریسکیو اپریشن ممکن ہے تو انہوں نے کہا کہ دریائے سوات کا بہاؤ بہت تیز ہے ،جبکہ وہ ایک جیسا بھی نہیں ہے ، اس لئے رات کی اپریشن بلکل ناممکن ہے۔
انکھوں میں روشنی اور مضبوط جسم کا مالک محمد ہلال نے حکومت سے یہ بھی گلا کیا اور مطالبہ بھی کیا کہ اگر دریائے سوات میں غیر قانونی بک لینڈ جو دریائے سے باجری نکالتے ہیں کا سلسلہ روکا نہیں گیا تو وہ دن دور نہیں جب سوات کے تمام کنویں خشک ہوجائین گے، اور جب خدانخواستہ اس دریائے میں کوئی ڈوب گیا تو اس کا ملنا بھی مشکل ہو گا، کیونکہ بک لینڈ جگہ جگہ گہری کھدائی کرکے باجری نکالتے ہیں اور اس جگہ کو دو بارہ پر نہیں کیا جاتا، جس سے دریائے سوات جگہ جگہ بڑے بڑے کھڈے پڑ گئے ہیں، جس سے نہ صرف گھروں میں موجود کنویں خشک ہورہے ہیں تو ساتھ ساتھ دریائے سے مچھلیوں کا خاتمہ بھی ہورہا ہے اگر حکومت نے فوری طور پر یہ سلسلہ نہ روکا اس پر پابندی نہ لگائی تو سوات کو اس سے شدید نقصان اٹھانا پڑے گا، اس کا مثال انہوں نے یہ دیتے ہوئے کہا کہ جب دریائے سوات میں اج سے پانچ چھ سال پہلے کوئی ڈوب جاتا تو اس کو چوبیس گھنٹوں میں ڈھونڈ نکالتے جبکہ اب اس میں ایک ہفتہ تک لگ جاتا ہے، اس کی وجہ ہے کہ جب لاش ان بڑے کھڈوں میں جاتا ہے تو پھر ا س میں پھنس جاتا ہے اور اس سے نہیں نکلتا، گزشتہ دنوں جب سعید اقبال کی لاش نہیں مل رہی تھی تو اس کی وجہ بھی یہی کھڈے تھے، اگر مالم جبہ سائیڈ پر بارش اور منگلو ر خوڑ میں سیلاب نہ اتا تو ممکن تھا کہ وہ لاش ہمیں نہ مل جاتی ، سیلابی پانی نے اس لاش کو کھڈے سے نکال لیا تھا، اس لئے ہماری ضلعی حکومت اور صوبائی حکومت سے اپیل ہے کہ وہ دریائے سوات میں جگہ جگہ باجری نکالنے والے بک لینڈ پر سخت پابندی لگائی ، تاکہ مچھلیوں کی نسل کا تحفظ ہوں اور جو بھی دریائے میں ڈوبے وہ اسانی سے باہر نکل سکیں ۔
1,415 total views, 2 views today