توروالی میں ایک ضرب المثل عام ہے “پونکیا سی پٲش کی گُورنال کی دیِڑتُو!” گورنال اسی طرح ہی بڑی سڑک سے پوشیدہ بہتر ہے۔ ہم اس کے حسن کو برباد ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔ یہاں کا اب و ہوا، رسم و رواج، دیسی حکمت اور دلکش نظارہ اپنی مثال اپ ہیں۔ جی تو چاہتا ہے کہ اس گاؤں کو سڑک بلکل نہ ہو کہ حضرت انسان کی مداخلت اس حسن فطرت میں کم سے کم ہو لیکن کیا کیا جائے انسانی ضروریات کا۔ کیا گورنال گاؤں کو دس سالوں میں شاہگرام کی طرح کوئی سڑک نہیں بن سکتی تھی یہ ایک معصومانہ سوال ذہین میں بار بار اتا ہے۔اس خوبصورت ترین گاؤں گُورنال کی سڑک تو کچھ کام کی وجہ سے پہلے سے بھی بد تر ہوگئی ہے۔ پہلے اس گاؤں میں عام گاڑی بھی جاسکتی تھی جبکہ اب تو اس سڑک پر اس “خاص ترقیاتی کام” کی وجہ سے فور ویل گئیر والی گاڑیوں کے علاوہ کوئی گاڑی نہیں جاسکتی۔
بلدیاتی نمائندوں کو حکومت نے گویا ہاتھوں میں کاغذ کی کشتیاں دے کر سمندر کے سفر پر روانہ کیا ہے۔ حکومتی ترقیاتی فنڈز میں سے صرف 30 فی صد ان کو ملتا ہے۔ کئی ایک جگہوں پر ان نمائندوں نے جو کام کئے ہیں ان کا معیار اس کام سے کئی گنّا بہتر ہے جسے کسی بڑے نمائندے نے کیا ہو۔ اس کی وجہ شائد یہ کہ یہ نمائندے ذیادہ عوام کے سامنے جوابدہ ہیں اور عوام کو ملاکر کام کرتے ہیں جبکہ بڑے نمائندوں نے ہر گاؤں میں چند مخصوص لوگوں کو رکھا ہے جن کے کام کا کیا کہئے۔
مگر کیا کیجئے۔
اب ایک اور الیکشن ارہا ہے۔ ہاتھوں اور ماتھوں پر چوما چاٹی کا وقت ان پہنچا ہے، ہر فاتحہ میں شرکت کا وقت اگیا ہے۔ وعدوں کا موسم ہے، نئے بندھنوں کا رواج عام ہوچکا ہے۔ نئے رشتوں کی تلاش جاری ہے۔
مگر شکاری وہی ہونگے اور شکار بھی وہی۔ ہماری انکھوں میں نئی امیدوں کی کرنین ڈالی جائیں گی کہ ان انکھوں میں اب روشنی بھی باقی نہ رہی۔ ہماری انکھیں ایک بار پھر سے روشن ہونگی۔ نئی سحر کی امید پیدا ہوگی مگر یہ سب فریب ہوگا۔ کہیں پیسے چلیں گے تو کہیں نصب و خاندان۔ کہیں عمل بکے گا تو کہیں ایمان۔ کوئی ایک شاطر چال چلے گا تو کوئی اگے کرے گا تقدیس کا پیمان۔
میرا بچّہ پھر کہیں بے خبر ایک تاریک مستقبل میں چلا جائے گا۔ میرا نوجوان ووٹ دے کر اور اپنی چادر جھاڑ کر کسی کوئلہ کان کا رخ کرے گا۔ میرا بزرگ پھر وہی اعمال کا رونا روئے گا۔ سکول بنے گا نہ کالج، اسپتال بنے گا نہ بنے گی کوئی سڑک۔ میری بہن پھر دوران زچگی سسک سسک کر جان دے گی۔
اس پوسٹ کی سیر کرنے والا تصویر کو دیکھ کر واہ کرے گا اور اگے بڑھے گا۔
ایسے میں اپنا سر ہی پھوڑنے کو باقی رہتا ہے جو کہ پہلے سے ہی بہت نازک کندھے پر لدا ہوا ہے اور درد کے مارے خود ہی پھوٹ رہا ہے!
1,314 total views, 2 views today