صوبائی حکومت کی ترجیحات میں تعلیم و صحت اولین درجے پر ہے۔بجٹ میں تعلیم وصحت کے لئے زیادہ فنڈز بھی مختص کئے گئے ہیں مزید اصلاحات بھی کئے جارہے ہیں ۔دعوے کئے جارہے ہیں کہ تعلیم و صحت ماضی کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہوکر عوامی اعتماد پر کافی حد تک پورے ہوچکے ہیں ۔ خیبرپختون خوا کے پچیس اضلاع میں میں ایک سرکاری سطح پر ایک سروے رپورٹ کیا گیا ہے ۔رپورٹ کے مطابق اس وقت ایک ماہ سے لے کر سترہ ماہ تک عمرکے بچوں کی مجموعی تعداد ایک کروڑ اٹھارہ لاکھ ہے۔جن میں باسٹھ لاکھ لڑکے اور چھپن لاکھ لڑکیاں شامل ہیں ۔سکول جانے کی عمر کے ساٹھ لاکھ بچے مختلف سرکاری و پرائیویٹ سکولوں ،مدرسوں اور مکتبوں میں پڑھتے ہیں ۔اکتالیس لاکھ بچے سکول جانے کی عمر کو ابھی نہیں پہنچے جبکہ سکول جانے کی عمر کے پندرہ لاکھ بچے تعلیم کے زیور سے محروم ہیں جن میں دس لاکھ لڑکیاں اور پانچ لاکھ لڑکے شامل ہیں ۔تعلیم سے محروم بچوں میں سے نو لاکھ ایسے ہیں جو کھبی سکول نہیں گئے جبکہ چھ لاکھ بچوں کو سکولوں میں داخل تو کرایا گیا مگر مختلف وجوہات کے باعث انہوں نے تعلیم ادھوری چھوڑ دی۔صوبے میں لڑکوں میں خواندگی کی شرح 78فی ہے جبکہ لڑکیوں میں خواندگی کی شرح 68فی صد ہے ۔صوبے کے 65فی صد بچے سرکاری سکولوں میں داخل ہیں جبکہ 32فی صد بچے پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں علم حاصل کررہے ہیں ۔اس سروے کی تیاری پر 22کروڑ روپے خرچ ہوئے ہیں ۔
خیبر پختون خوا حکومت نے سرکاری تعلیمی اداروں پر عوامی اعتماد کے بحالی کے لئے کئی اصلاحات کئے ہیں جن میں اساتذہ کرام کی بھرتی،سکولوں میں طلباء کی سہولت کے لئے واش رومز،صاف پانی کی فراہمی ،کلاس رومزکے کمی کو بھی پورا کیا جارہاہے ۔اساتذہ کرام کے وقت پر حاضری کے لئے مانیٹرنگ سسٹم کا قیام وغیر سب شامل ہیں ۔سروے رپورٹ کو مدنظر رکھا جائے تو ٹھیک ہے کہ 65فی صد بچے سرکاری سکولوں کا رخ کرتے ہیں مگر ان بچوں میں ایک فی صد بھی وہ بچے شامل نہیں ہوں گے جو کہ مالدار یا متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہوں ۔سرکاری سکولوں میں وہ بچے پڑھتے ہیں جن کے گھروں میں غربت اور افلاس ہوتی ہے ۔پرائیویٹ سکولوں میں بھی ایسے طلباء کی تعداد زیادہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے اپنے پیٹ کاٹ کر بھاری بھر فیس ادا کرتے ہیں ۔خیبر پختون خوا حکومت کے اصلاحات کے باوجود سرکاری اداروں پر عوام کی عدم اعتماد اور روزانہ کی بنیاد پر پرائیویٹ سکولوں کی تعداد میں اضافہ ایک سوالیہ نشان ہے ۔خیبر پختون خواہ حکومت سرکاری تعلیمی اداروں پر عوامی اعتماد کی بحالی اور اپنے وعدوں کی تکمیل کے لئے چند ایک اصلاحات کرنی ہوں گی جس سے امید کی جاسکتی ہے کہ بہت جلد خیبر پختون خوا کے سرکاری تعلیمی ادارے ملک کے دیگر صوبوں کے لئے ایک بہترین ماڈل کے طور پر پیش ہوسکیں ۔
این ٹی ایس کے ذریعے پرائمری اساتذہ کرام کی بھرتی کیا جاتاہے جس سے ایک طرف تو میرٹ کا بول بالا ہوجاتاہے مگر ان میں زیادہ تر وہ اساتذہ کرام شامل ہوتے ہیں جو کہ بہت جلد اس شعبے کو خیر آباد کہہ جاتے ہیں کیونکہ پرائمری سطح پر تنخواہ کم ہونے کے ساتھ ساتھ ترقی کی رفتار بھی کم ہوتی ہے ۔اگر پرائمری سکول ٹیچر کو ترقی مل جائے تو وہ پرائمری لیول سے مڈل یا ہائی کو ٹرانسفر ہوجاتاہے جس سے پرائمری کے طلباء ان کی قابلیت سے محروم ہوجاتے ہیں ۔صوبائی حکومت پرائمری لیول پر گریڈ سات یا نو سے سولہ یا سترہ تک بڑھائے اور پرائمری سکول کے اساتذہ کی تنخواہیں دیگر مڈل ،ہائی،ہائیر سکنڈری سکولوں کے اساتذہ کرام کے برابر کردیں تو یہاں پر قابل اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ آکر تعلیم کے میدآن میں انقلاب بر پا کردیں گے اور وہ اس شعبے سے تامرگ جوڑے ہوں گے۔ تعلیم کے میدان میں پرائمری ہی بچے کی بنیاد ہے اگر یہ بنیاد مظبوط رہا تو عمارت بھی بے شک مظبو ط ہوگی ۔ دیگر لیول کے اساتذہ کرام پر کام کم اور معاوضہ زیادہ ملتاہے جبکہ پرائمر ی لیول پر معاوضہ کم اور کام کا بوجھ زیادہ ہوتاہے ۔دیگر اساتذہ کرام کی طرح پرائمری اساتذہ کرام سے بھی پڑھائی کے علاوہ دیگر کام لیا جاتاہے جوکہ بہت زیادہ نقصان دہ ہے ۔اسی دوران ان کے کلاسز خالی ہوتے ہیں اور طلباء کا قیمتی وقت ضائع ہوتاہے اگر ان سے یہ کام چھیٹوں کے دوران لیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔خیبر پختون خوا حکومت نے محکمہ تعلیم میں بطور استاد بھرتی ہونے کے لئے پی ٹی سی،سی ٹی،بی ایڈ اور ایم ایڈ کے شرائط ختم کردئیے ہیں جوکہ کسی حد تک درست بھی ہیں ۔کیونکہ کئی نام نہاد یونیوسٹیاں پیسوں کی خاطر ڈگریاں جاری کررہے ہیں عملی طور پر وہ مقاصد حاصل نہیں ہورہے ہیں جن مقاصد کے لئے مذکورہ ڈگریاں جاری ہوتی ہیں ۔حکومت کے اس اقدام سے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اس شعبے سے وابستہ ہوجائیں گے مگر دوسری طرف انہوں نے ان اساتذہ کو چھ ماہ ٹریننگ دینے کا بھی دعوی کیا ہے مگر ماہرین تعلیم کو ورطہ حیرت ڈال چکاہے کہ ہزاروں کی تعداد میں مختلف کیڈرز میں ہزاروں کی تعداد میں بھرتی کئے گئے اساتذہ کرام کو دوران ڈیوٹی کیسے ٹریننگ دی جائے گی ۔اس وقت صوبے کے بعض اضلاع میں ریجنل انسٹیٹیو ٹ فار ٹیچر ایجوکیشن جبکہ ایک صوبائی دارلحکومت پشاور میں صرف ایک ادارہ پرونشنل ا نسٹیٹیو ٹ فار ٹیچر ایجوکیشن موجودہے۔ کیا بیک وقت مختلف کیڈروں کے اساتذہ کرام کے ٹریننگ ان اداروں میں ممکن ہوپائے گا ؟ان ٹریننگ انسٹیٹیو ٹ میں اساتذہ کرام کی ہزاروں کی تعداد میں ٹریننگ کی گنجائش موجود نہیں ہے اور نہ انتی جلدی ان انسٹیٹیو ٹس کی تعداد میں اضافہ ہوسکتاہے ۔یہ حکومت کے لئے ایک چیلنچ ہے کہ وہ اس مسلئے سے کیسے نمٹے گا؟مانیٹرنگ میں اساتذہ کرام کی صرف حاضری نہیں بلکہ اس کی کارکردگی کی بھی جانچ پڑتال کی جائے کہ وہ طلباء کو کیسے پڑھا رہاہے کیا وہ سلیبس کے ساتھ چل رہاہے کیا طلباء کے کاپیوں کی چیکنگ صحیح طریقے سے ہورہی ہے ۔اساتذہ کرام کی سالانہ انکریمنٹ اور ترقی کارکردگی کی بنیاد پر کی جائے اور محکمہ تعلیم میں جزاء و سزا کا قانون مقرر کیا جائے ۔سرکاری سکولوں میں نصاب کے حوالے سے بات کی جائے تو ایم ایم اے کے دور میں عربی زبان پر،اے این پی نے پشتو زبان پر جبکہ موجودہ حکومت انگریزی زبان پر توجہ دے رہی ہے ۔ائندہ آنے والی حکومت کا نصاب کے بارے میں فیصلہ ہوگایہ وقت بتائے گا۔دنیا میں ترقی یافتہ ممالک نے اپنی مادری زبان کو نصاب میں شامل کیا ۔آج طلباء کا رٹے کا جو رجحان ہے اس کی وجہ سے انگریزی اور اردوزبانیں ہیں اگر پرائمری سطح پر نصاب مادری زبان میں تیار کی جائے انگریزی اور اردو کو بطور لینگویج رائج کیا جائے تو یہ پرائمری سطح پر مثبت ہوگا۔نصاب جدید تقاضوں کے ہم آہنگ ہواور یہ ماحول کے مطابق ہو اور مواد طلباء کے دلچسپی کے حامل ہوں۔اور سب سے اہم اور بنیادی بات یہ ہے صوبائی حکومت اسمبلی سے ایسا قانون منظور کرے جس میں محکمہ وزراء ،محکمہ تعلیم کے آفیسر سے لے کر کلاس فور ملازمین تک پابند کیا جائے کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں داخل کرنے کے پابند ہوں گے اور جس نے قانون کی پاسداری نہیں کی ان کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے ۔جب تک محکمہ تعلیم سے وابستہ لوگ اپنے بچوں کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑھاتے ہوں گے اس وقت تک سرکاری سکولوں کی معیار میں بہتری لانا اور عوامی اعتماد کو بحال کرنا دیوانے کے خواب کے مترادف ہے۔
2,154 total views, 2 views today