تحریر : حسن نبی صدیق اسلام آباد
آج میرے دوست نے مجھے کہا کہ ائیے آپ کو قبرستان لے چلتا ہوں ۔میں نے اسے مذاق میں کہا کہ یار “تھوڑی سی زندگی “ہے باقی تو ہم نے ویسے بھی قبرستان میں گزارنی ہے ،ادھر کیا کرنا ہے لیکن اس نے بتایا کہ فرمان رسول ؐ ہے کہ مردوں کو کبھی کبھی قبرستان جانا چاہئے ۔میں نے ایک سنت تو زندہ ہوجائے کہا ٹھیک ہے چلتے ہیں ۔ساتھ ہی دل میں خیال آیا کہ ہم کو ن سے زندہ لوگوں سے خوش ہیں ۔چلو قبروں کو دیکھ لیتے ہیں ہم اسی طرح اسلام آبادکے ایچ ایٹ سیکٹر کے قبرستان میں داخل ہوگئے ۔ہم اندر چلے گئے واقعی بڑا پرسکون ماحول تھا ۔ہر طرف خاموشی چھائی گئی تھی ۔ہم نے فاتحہ پڑھی اور دعا کی ۔ایک وقت میں ایسا لگا کہ ہم دونوں کے علاوہ اس دنیامیں کوئی زندہ نہیں ہے سارے یہاں دفن ہیں ۔مجھے حیرانی سی لوگ اس قبرستان ہونے لگی کہ “ادھر تضاد کیوں ہے “کچھ قبریں بہت اراستہ کی گئی تھیں اور اس پر بڑی بڑی قیمتی پتھروں جس میں بڑے بڑے کتبے نصب تھے اور کچھ ہماری طرح کے لوگوں کے کچے اور مجھے اس وقت بغیر ناموں کی قبریں بھی نظر آئیں ۔
مجھے اپنا ایک شعر یاد آیا
لوگ نام اور شہرت چڑھ جاتے ہیں
ہم رہ گئے نام تو گنہگار ہوئے
میں ایک ایک قبر کے کتبے کو دیکھ رہاتھا اور پڑھ رہا تھا ۔دل میں خیال آیا کہ واقعی زمین پردہ پوش ہے ۔بڑے سے بڑے لوگ آج سپردخاک ہیں ۔کئی کتبوں پر فلاں صاحب اور فلاح انگریزی میں لکھا گیا تھا کہیہ عہدے کا مالک جیسا کہ وہ ابھی تک اپنے عہدے پر ہے اور تاحال ریٹائرڈ نہیں ہوا ،قبروں پر فاتحہ خوانی کے لئے انگریز آتے ہونگے ورنہ کتبے پر حروف تہجی کا استعمال بھی کیا جاسکتا تھا جو اردو کے ساتھ ساتھ عربی زبان کے بھی حروف ہوتے ہیں
ایک بات میرے ذہن میں اٹک رہی تھی کہ قبروں پر شاہانہ طریقے سے اور لاکھوں کے حساب سے خرچے کئے گئے تھے ۔میں سوچ رہا تھا کہ ہم ایک انتہائی غریب ملک کے انتہائی غریب اور بے بس لوگ ہیں ہمارے پاس پہنے کے لئے کپڑا ،کھانے کے لئے روٹی اور سر چھپانے کیلئے چھت میسر نہیں ہے یہ قبریں یقیناًاس ملک کے بڑے لوگوں کی ہونگی ۔جنہوں نے اپنے معیار کو قائم رکھنے کے لئے قبرستان میں بھی اپنے اسٹیٹس کا خیال رکھا ہے ۔اللہ ان کو دوزخ کی آگ سے بچائے ۔مگر ان کے لواحقین کو تو اتنا خیال رکھنا چاہئے کہ ان کی ایک قبر کے بے جا خرچے پر دو ،تین زندہ دیہاتوں میں کچے گھر بن سکتے تھے ۔بندوں کے لئے کسی غریب اور نادار کے بچے بارش ،سردی اور طوفان سے ان کے گھروں میں سر چھپا سکتے تھے ۔سینکڑوں ناداروں کو ایک وقت کی روٹی میسر ہوسکتی تھی ۔کئی یتیم بچوں اور بچیوں کے سر اور بدن ڈھانپے جا سکتے تھے ۔بس صرف احسا س کی ضرورت ہے ۔
قبر تو ویسے بھی جنت کا باغیچہ ہے اگر اعمال اچھے ہوں تو ۔
آج میرے دوست نے مجھے کہا کہ ائیے آپ کو قبرستان لے چلتا ہوں ۔میں نے اسے مذاق میں کہا کہ یار “تھوڑی سی زندگی “ہے باقی تو ہم نے ویسے بھی قبرستان میں گزارنی ہے ،ادھر کیا کرنا ہے لیکن اس نے بتایا کہ فرمان رسول ؐ ہے کہ مردوں کو کبھی کبھی قبرستان جانا چاہئے ۔میں نے ایک سنت تو زندہ ہوجائے کہا ٹھیک ہے چلتے ہیں ۔ساتھ ہی دل میں خیال آیا کہ ہم کو ن سے زندہ لوگوں سے خوش ہیں ۔چلو قبروں کو دیکھ لیتے ہیں ہم اسی طرح اسلام آبادکے ایچ ایٹ سیکٹر کے قبرستان میں داخل ہوگئے ۔ہم اندر چلے گئے واقعی بڑا پرسکون ماحول تھا ۔ہر طرف خاموشی چھائی گئی تھی ۔ہم نے فاتحہ پڑھی اور دعا کی ۔ایک وقت میں ایسا لگا کہ ہم دونوں کے علاوہ اس دنیامیں کوئی زندہ نہیں ہے سارے یہاں دفن ہیں ۔مجھے حیرانی سی لوگ اس قبرستان ہونے لگی کہ “ادھر تضاد کیوں ہے “کچھ قبریں بہت اراستہ کی گئی تھیں اور اس پر بڑی بڑی قیمتی پتھروں جس میں بڑے بڑے کتبے نصب تھے اور کچھ ہماری طرح کے لوگوں کے کچے اور مجھے اس وقت بغیر ناموں کی قبریں بھی نظر آئیں ۔
مجھے اپنا ایک شعر یاد آیا
لوگ نام اور شہرت چڑھ جاتے ہیں
ہم رہ گئے نام تو گنہگار ہوئے
میں ایک ایک قبر کے کتبے کو دیکھ رہاتھا اور پڑھ رہا تھا ۔دل میں خیال آیا کہ واقعی زمین پردہ پوش ہے ۔بڑے سے بڑے لوگ آج سپردخاک ہیں ۔کئی کتبوں پر فلاں صاحب اور فلاح انگریزی میں لکھا گیا تھا کہیہ عہدے کا مالک جیسا کہ وہ ابھی تک اپنے عہدے پر ہے اور تاحال ریٹائرڈ نہیں ہوا ،قبروں پر فاتحہ خوانی کے لئے انگریز آتے ہونگے ورنہ کتبے پر حروف تہجی کا استعمال بھی کیا جاسکتا تھا جو اردو کے ساتھ ساتھ عربی زبان کے بھی حروف ہوتے ہیں
ایک بات میرے ذہن میں اٹک رہی تھی کہ قبروں پر شاہانہ طریقے سے اور لاکھوں کے حساب سے خرچے کئے گئے تھے ۔میں سوچ رہا تھا کہ ہم ایک انتہائی غریب ملک کے انتہائی غریب اور بے بس لوگ ہیں ہمارے پاس پہنے کے لئے کپڑا ،کھانے کے لئے روٹی اور سر چھپانے کیلئے چھت میسر نہیں ہے یہ قبریں یقیناًاس ملک کے بڑے لوگوں کی ہونگی ۔جنہوں نے اپنے معیار کو قائم رکھنے کے لئے قبرستان میں بھی اپنے اسٹیٹس کا خیال رکھا ہے ۔اللہ ان کو دوزخ کی آگ سے بچائے ۔مگر ان کے لواحقین کو تو اتنا خیال رکھنا چاہئے کہ ان کی ایک قبر کے بے جا خرچے پر دو ،تین زندہ دیہاتوں میں کچے گھر بن سکتے تھے ۔بندوں کے لئے کسی غریب اور نادار کے بچے بارش ،سردی اور طوفان سے ان کے گھروں میں سر چھپا سکتے تھے ۔سینکڑوں ناداروں کو ایک وقت کی روٹی میسر ہوسکتی تھی ۔کئی یتیم بچوں اور بچیوں کے سر اور بدن ڈھانپے جا سکتے تھے ۔بس صرف احسا س کی ضرورت ہے ۔
قبر تو ویسے بھی جنت کا باغیچہ ہے اگر اعمال اچھے ہوں تو ۔
3,174 total views, 2 views today
Comments