تحریر : مراد علی
پچھلے دنوں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلامآباد کی ایک طلبہ تنظیم نے ’’سلسلہ دروس‘‘ کے نام سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا تھا جس میں نظم و ضبط کا لحاظ رکھے بغیر اس طرح نہیں ہوسکا جس طرح توقع تھی ۔
خیر ۔۔۔۔اس پروگرام میں ملک کے معروف مذہبی اسکالر مولانا زاہد راشدی کو بھی مدعو کیا گیا تھا ۔ مولانا کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ وہ ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مفسر قران ، شیخ الحدیث، ممتاز دانشور نامور کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ عصر حاظر کے سیاسی صورتحال اور مسائل پر کافی دسترس رکھتے ہیں ۔ آپ کے والد گرامی ٓل دیوبند میں ایک امتیازی حیثیت کے ساتھ امام اہل سنت کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ وہ ایک خاص فکر کے حامل شخصیت ہیں۔ لیکن مولانا کی وسعت قلبی وسعت ظرفی قدرے زیادہ ہے۔ ہر مکتب فکر کے حامل افراد سے مختلف مسائل پر باہمی مشاورت بغیر کسی تعصب کے بنا پر نبھاناآپ کے اوصاف میں شامل ہے۔ ٓپ نے اپنے ماہانہ رسالہ الشریعہ میں ہر فکر کے حامل افراد کو اپنی رائے کا اظہار کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ٓپ ایک وسیع النظر فکر کے مالک ہیں۔ لیکن اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ اب آپکے صاحبزاد محمد عمار خان ناصر جو گفٹ یونورسٹی میں اسسٹنت پروفسر کی حیثیت سے اپنے فرایض انجام دے رہے ہیں۔ ملک کے مختلف مسائل پر ہونے والے مباحثے اور پروگرامات کے انعقاد میں انکی نمائندگی اپنے والد گرامی سے زیادہ ہوتی ہے۔ وسیع النظری میں بھی اپنے والد گرامی سے بہت ٓآگے ہیں۔ اور اسکی ایک خاص وجہ ہے۔ بحر کیف ہم مولانا سے ملنے کے لیے کافی عرصے سے دل میں تمنا لیے بیٹھے تھے۔ مغرب کی نماز کی ادائیگی سے پہلے موصوف یوینورسٹی تشریف لے آیے۔۔ نماز کے فورا بعد درس کے لیے اعلان کیا گیا ۔۔ نماز کے بعد مولان سے مصافحہ کے لیے بہت سارے حضراتآگے بڑھے جن میں ایک خوش نصیب میں بھی تھا ۔۔پروگرام چونکہ حضرت امیر معاویہ کے دور حکومت کے بارے میں تھا اس لیے مولانا صاحب کا موضوع بھی اس لحاظ سے رکھا گیا ۔مولانا کی تقریر کے آغا ز سے پہلے ایک زمہ دارآدمی نے آکر مولانا سے سرگوشی کر کے عرض کیا’’ مودودی پر بھی رد کریں‘‘۔ میں چونکہ مولانا کے قریب ہی بیٹھا تھا تو میں نے انکی سرگوشی سن لی، مولانا نے جواب میں فرمایا جہاں ذکر آئے ضرور کرونگا ۔ مجھے اس لیے اتنی لمبی چوڑی تمہید باندھنا پڑی تاکہ یہ بات سمجھ آسکے کہ ہم سب کچھ ظاہری طور پر اور کسی کو خوش کرنے کے لیے کرتے ہیں، اللہ کی رضا کوئی نہیں۔ جیساکہ پہلے عرض کرچکا ہوں کہ مولانا صاحب بہت ہی سلیم اطبع مزاج کے حامل شخصیت ہیں۔ میرا ہر گز یہ دعویٰ نہیں کہ مولانا مودودی سے اختلاف نہیں ہونا چاہیے یا ان پر رد نہی ں کیا جا سکتا ۔ لیکن ایک طرف ہم ظاہری طور پر ہم اتحاد کے داعی اور علمبردار ہیں جب کوئی موقع ہاتھ آئے ہم اپنی روایتی خو کا مظاہرہ کر نا شروع کردیتے ہیں، اور یہ خو اتحاد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ بات انتہایی قابل غور ہے اور اس پر سوچنا چاہیے۔ بحر حال پروگرام کا باقاعدہ آغاز طویل کلام پاک سے ہوا۔ مولانا صاحب نے بہت سلیس عام فہم فصیح النسان اور بلیغ انداز سے اپنی گفتگو کاآغاز فرمایا ۔ درمیان میں دو تین ادبی لطیفے بھی سماعت فرمائے ۔ جس سے محفل اور بھی خوشگوار ہوی۔ تقریر کے اختتام پر موضوع کے مناسبت سے سوالات بھی پو چھے گیے جسکے انتہایی خوش اسلوبی کے ساتھ جوابات بھی دئے گئے۔ مولانا صاحب کو اپنی مصروفیت کی بنا پر تھوڑی عجلت تھی۔ ہم بھی انکے ہمراہ کار پار کنگ تک گئے۔ روانگی سے پہلے کچھ احباب پھر سے سوالات پوچھنے کے لیے آگے بڑھے ایک ساتھی نے انتہایی حسرت کے ساتھ استفسار کیا کہ پاکستان میں شریعت کیسے نافذ ہوگی۔۔ سوال بھی پرانا ہے لیکن ساتھی کا انداز کچھ نرالا تھا ۔ مولانا صاحب نے بھی دوٹوک الفاظ میں جواب دیا ہم تیار نہیں ہیں۔۔ سائل نے جوابا کہا یہ بھلا کیسے ممکن ہے اگر ماضی کی قربانیوں کو دیکھا جائے، تو اسکے جواب میں مولانا نے ار شاد فرمایا کہ یہ تو صرف زبان سے کہتے ہیں، یہ بات صرف ہماری گفتار تک محدود ہے، جبکہ دل و دماغ سے ہم بلکل بھی اسکے لیے تیار نہیں۔ اور امر واقعہ بھی یہی ہے، کہ ہمارا دین اور شریعت کے ساتھ صرف ہمدردیاں شامل ہیں۔ اس سلسلے میں مولانا نے ایک واقع کا زکر کیا، جو مجھے لفظ بہ لفظ تو یاد نہی، لیکن واقع مولانا کی زبانی کچھ یوں تھا کہ ہم ایک وفد کی شکل میں ایران گیے تھے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ملک میں دو مذہبی رہنما انتہایی متحرک تھے۔ مولانا نے فرمایا کہ ہمارے وفد میں شامل ایک رفیق سے ایران کی ایک شخصیت نے پوچھا کہ آپ کے ہاں کویی مولوی خمینی نہیں بن سکتا ؟۔۔ تو ہمارے دوست نے جوابا کہا کہ ہمارے یہاں دو ہیں۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ مسلہ بھی یہی ہے کہ دو ہیں۔
ٓآ گے آپ خود تلا ش کریں مولانا زاہدالراشدی کی گفتگوں میں حکمت و دانش کے موتی۔۔۔۔۔۔
2,652 total views, 2 views today