تحریر خورشیدعلی
محمد عمرکی عمر 55 سال ہے اور وہ روزانہ فجرکی نماز ادا کرنے کے بعد ریڑھی نکال کر سبزی منڈی جاتاہے اور دن بھر وہاں مزدوری کرنے کے بعد شام جب گھر لوٹتا ہے تو پانچ سو کے قریب رقم سے گھر کیلئے سودا سلف لے جاتا ہے، سفید داڑھی والے محمد عمر کے پانچ بچے ہیں جن میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں وہ مینگورہ سٹی میں تین کمروں پر مشتمل ایک کچے مکان میں رہائش پذیر ہیں ، محمد عمر کہتے ہیں کہ 2007 تک میں ایک سلک مل میں کام کرتا تھا اور وہاں پر بارہ گھنٹے ڈیوٹی کے دوران میں تین مشینوں پر کام کرتا تھا،انہوں نے کہا کہ اس کے علا وہ بھی روزانہ میں تین سے چار گھنٹے اوور ٹائم بھی لگا تا تھا، جس سے مجھے مہینے میں بارہ سے پندرہ ہزار روپے ملتے تھے،جس سے گھر کے اخراجات بھی پوری ہوتے اور کچھ رقم بھی بچ جاتا ، لیکن جب 2007 میں سوات کے حالات خراب ہوئے اور سوات میں وقفے وقفے سے 12 سے 72 گھنٹے کرفیو لگنے لگی تو اس مل میں کام ٹھپ ہو کر رہ گیا کیونکہ یہ مل مین سڑک پر واقع تھی،کرفیو کی وجہ سے مزدور اس مل کو نہیں جاسکتے تھے، انہوں نے کہا کہ 2008 کے بعد مل مکمل طور پربند ہوگیا جس سے مل میں کام کرنے والے تقریبا 67 مزدور بے روزگار ہوگئے ، کچھ کاریگروں نے دوسرے ملوں میں کام شروع کردیا جب کہ اکثریت مزدور دیہاڑی کرنے پر مجبور ہوگئے، جس میں میں بھی شامل تھا، انہوں نے کہا کہ کچھ دن دیہاڑی کرنے کے بعد میں نے اپنے لئے ریڑھی خرید لیں اور سبزی منڈی میں مزدوری کرنے لگا، انہوں نے کہا کہ مل بند ہونے کی وجہ سے ہمارے سکون کے دن ختم ہوگئے اور اب بڑی مشکل سے گھر کا گزارا ہو رہا ہے، انہوں نے کہا کہ کچے مکان کا کرایہ تین ہزار روپے ہیں بجلی کا بل ایک ہزار روپے سے زائد اتا ہے اسی طرح سبزی ، گھی ،اٹا اکثر ادھار لیتے ہیں کیونکہ مزدوری کبھی ہوتی ہے اور کبھی نہیں۔محمد عمر کی طرح شمس الرحمان نے بھی 1994 میں سلک مل میں کام شروع کیا تھا، دو سال کام کرنے کے بعد وہ ایک کامیاب کاریگر بن کر ایک وقت میں پانچ مشین چلایا کرتا تھا، اور خیبر سلک مل میں سب سے زیادہ پیسے کماتا تھا، شمس الرحمان کا کہناہے کہ 1994 سے 2001 تک سلک ملوں میں بہت زیادہ مزدوری ہوا کرتاتھی کیونکہ ان دنوں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی وجہ سے سوات کے سلک انڈسٹریز 24 گھنٹے کام چالو رہتا ،انہوں نے کہا کہ ایک ماہ میں مجھے مزدوری کے 25000 روپے ملے تھے، لیکن 2001 کے بعد اس انڈسٹری پر زوال شروع ہونے لگا اور 2008 کے بعد تو انڈسٹری بلکل تباہ ہوکر رہ گئی ، کیونکہ سوا ت میں حالات خراب ہونے لگے اور زیادہ مل بند ہوگئی ،انہوں نے کہا کہ میں نے کچھ پیسے بچا کر رکھے تھے جس پر میں نے ایک کریانہ سٹور کھول دیا ، آج بڑی مشکل سے گھر کا خرچہ پورا ہو رہا ہے، انہوں نے کہا کہ میرے چار بچے ہیں جب میں مل میں کام کرتا تھا تو میں نے اپنے دو بیٹوں کو پرائیویٹ سکول میں داخل کرایا تھا لیکن جب سے مل بند ہوا ہے تو اب سرکاری سکول کے اخراجات بھی پورے نہیں ہورہے۔
سوات میں سلک انڈسٹری ریاستی دور میں قائم ہونے لگی تھی ، اور 2000 تک سوات کے چھوٹے بڑے شہروں اور دیہاتوں میں تقریبا 500 کے قریب سلک مل بن گئی تھی ،جو دن رات کام کرتی تھی، ان سلک ملوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے متحدہ لیبر یونین کے صدر معراج نبی کا کہنا ہے کہ سوات میں 2000 تک 500 سلک ملیں تھی جن میں تقریبا 30 ہزا ر سے زائد مزدور اور کاریگر کام کرتے تھے،جس میں سوات کے علاوہ دوسرے اضلاع بونیر، شانگلہ ، دیر ، پشاور ، فیصل آباد کے مزدور اور کاریگر بھی شامل تھے۔انہوں نے کہا کہ یہ مزدور پندرہ دن میں 7 سے لیکر 10 ہزار تک روپے کماتے تھے،جس سے ان مزدور وں کے اخراجات پوری ہوتی تھے، لیکن جب 2006کے بعد سوات میں عسکریت پسندی شروع ہوگئی تھی تواس کا بہت بڑا اور گہرا اثر سلک انڈسٹری پر پڑا کیونکہ پورے سوات میں ہر جگہ سلک ملیں تھی ، اور یہ ملیں اکثر سڑک کے کنارے تھے ،2007 میں جب اپریشن شروع ہوا تو یہ سلک انڈسٹری تقریبا بند ہوگئی، کیونکہ سوات میں ہر ہفتہ 12 سے لیکر 72 گھنٹے کرفیو نافذ ہوتی ،جس کی وجہ سے مزدور ان ملوں میں کام نہیں کرسکتے تھے، انہوں نے کہا کہ اب حال یہ ہے ان انڈسٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد 5 ہزار تک رہ گئی ہے، اور اس مہنگائی کے دور میں ان کو پورے مہینے میں 5000 روپے بھی نہیں ملتے ۔ جو ملیں بند ہوگئیں ہیں ان کے مزدور اب کیا کرتے ہیں ان کے گھر کے اخراجات پورے ہوتے ہیں کہ نہیں تو اس سوات کے جواب میں متحدہ لیبر یونین سلک ملز کے ضلعی صدر معراج نبی نے کہا کہ جوسلک ملیں بند ہیں ان کہ مزدور ایک دن کے اجرت پر کام کرتے ہیں ،صبح سویرے گھر سے نکل کر چوکوں میں کھڑے ہوتے ہیں اوردیہاڑی کا انتظار کرتے ہیں ، معراج نبی نے کہا کہ ان مزدوروں میں بہت سے ایسے بھی ہیں جو بھیک مانگنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کی بینائی چلی گئی ہے، ان کے فلاح وبہبود کیلئے ابھی تک کسی صوبائی محکمہ یا ضلعی انتظامیہ نے کچھ نہیں کیا۔
سوات سلک مل کے مالک ممتازنے کہا کہ 2000 تک پاکستان اور افغانستان کے درمیان افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی وجہ سے سوات ایک انڈسٹری زون بن گیا تھا،ان سلک انڈسٹریوں میں کام کرنے والے غریب مزدور بھی خوشحال بن گئے تھے اور ان کو اچھی خاصی رقم ملتی تھی جس سے غریب مزدوروں کے گھروں کے اخراجات پوری ہوتے تھے ۔اور ان کو اچھی خاصی رقم بھی بچ جاتی ، لیکن جب 2000 کے بعد افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ختم ہوگیا تو اس وقت سے سوات میں سلک انڈسٹری کا زوال شروع ہوگیا تھا، کیونکہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی وجہ سے ان سلک ملوں کو جوسستا دھاگاملتا تھا ۔اس پر پابند ی لگ گئی ،جس سے یہ انڈسٹری مشکلات کا شکار ہوگئی ،اور اہستہ اہستہ سلک ملیں بند ہونے لگیں، انہوں نے کہا کہ 2007 تک انڈسٹری پھر بھی چل رہی تھی لیکن جب سوات میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں بڑھنے لگی تو سب سے زیادہ تباہی ان ملوں کی ہوئی ۔شیلنگ ، بم دھماکوں، خودکش حملوں اور مارٹرگولوں کی وجہ سے تحصیل کبل ، مٹہ اور مینگورہ میں بہت سے سلک ملوں کی مشینوں اور عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا ،انہوں نے کہا کہ سوات میں امن کی بحالی کے بعد ان ملوں کو کوئی مراعات نہ مل سکی اور مالکانان کو کوئی معاوضہ مل سکا۔انہوں نے کہا کہ سوات میں کشیدگی سے پہلے میرا مل 24 گھنٹے چلتا تھا اور اس میں 90 کے قریب مزدور اور کاریگر کام کرتے تھے، لیکن اب حالت یہ ہے کہ سوات میں تو حالات بحال ہوگئے ،لیکن بجلی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے اب میرا مل 5 گھنٹے بھی نہیں چلتا ۔انہوں نے کہا کہ اب اتنا منافع بھی نہیں ملتا کہ بجلی کا بل ادا کر سکیں۔
ضلع سوات میں اب صرف 60 ملیں چالو حالت میں ہیں، سوات میں سلک مل اونرزایسوسی ایشن کے صدرسرزمین لالاجی کا کہنا ہے کہ ریاستی دور میں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کیلئے سلک انڈسٹری کی حوصلہ افذائی کی گئی تھی 1964 میں ایک پرمٹ ہمیں دیا جاتا تھا جس کی وجہ سے دھاگے ٹیکس کی چھوٹ دی گئی تھی ،1996 میں اسے ختم کردیا گیا اور افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے سستا دھاگہ انڈسٹریز کو دیا گیا ، لیکن پھر 2000 میں وہ معاہدہ بھی ختم ہوگیا جس کی وجہ سے سلک انڈسٹریز مشکلات میں گر گئی ،اور اکثر انڈسٹریز بند ہونے لگے، لیکن حالات اس وقت سب سے زیادہ خراب ہوگئے جب سوات میں عسکریت پسندوں کی آمد شروع ہوگئی اور انہوں نے پورے سوات میں عمل داری قائم کی ، جس سے سوات میں قائم تمام سلک ملیں بند ہو کر رہ گئی ، انہوں نے کہا کہ 2007 سے لیکر 2009 تک چار سو سے زائد سلک ملز کے کروڑوں کی مشینری اونے پونے داموں فروخت ہوگئی ، جس سے سوات سمیت پورے ملک کے ہزاروں لوگ بے روزگار ہوگئے ، انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اور سیلاب کے بعد سوات میں صرف85 سلک انڈسٹریاں رہ گئی تھی،لیکن بدقسمتی سے سوات میں ملک بھر سے زیادہ بجلی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے جس سے مزید 6 ملیں بند ہوگئی ،انہوں نے کہا کہ ایک دور جب ملک کے تمام بڑے بڑے شہروں کراچی ،لاہور،فیصل آباد سمیت بیرون ملک سوات کا تیارہ کردہ کپڑا فروخت ہوتا تھا، جس سے ایک طرف بے روزگاری ختم ہوئی تھی تو دوسری طرف کثیر زرمبادلہ ملک کو حاصل ہوتا تھا۔انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اور سیلاب کی وجہ سے جن سلک ملوں کو نقصان پہنچا تھا،ان سلک ملوں کے ازالہ کیلئے ابھی تک نہ کسی سرکاری محکمے اور نہ ہی غیر سرکاری اداروں کی طرف سے کوئی معاوضہ مالکانان کو دیا جا چکا ہے۔اونرز ایسوسی ایشن کے صدر سرزمین نے کہا کہ اب تو یہ حال ہے کہ حکومت ان انڈسٹریوں پر ٹیکس لگانے بارے سوچ رہے ہیں ،اگر ان پر ٹیکس لگایا گیا تو باقی ماندہ 60 کے قریب انڈسٹریاں بھی بند ہو جائیں گی۔
سوات میں قائم لیبر ڈیپارٹمنٹ کے انسپکٹر غنی رازق کے مطابق سوات میں تمام انڈسٹری کے مزدوروں کی فلاح وبہبود کیلئے ادارہ کافی سرگرم ہے ، لیکن بدقسمتی سے مزدور ہی اپنے حقوق کیلئے اگے نہیں آرہے ، انہوں نے کہا کہ مزدور اور ان کے رہنما لیبر کی اندراج نہیں کرتے،انہوں نے کہا کہ جن مزدوروں کا ریکارڈ لیبر ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہے ان کو سوشل سیکورٹی کارڈ فراہم کئے گئے ہیں ، ان سوشل سیکورٹی کارڈکی وجہ سے فیکٹریوں ملوں اور دیگر انڈسٹریز میں کام کرنے والے مزدور اور ان کے بچوں کے علاج اور تعلیم کی فری سہولت دی جارہی ہے۔
سوات کے صوبائی وزیر جنگلات واجد علی سوات کے سلک انڈسٹری کے ذبوحالی اور دہشت گردی ،سیلاب سے متاثرہ اس انڈسٹری کے حوالے سے کہا کہ دہشت گردی کے دوران جن ابادیوں، فیکٹریوں، دوکانوں ، گھروں اور سلک ملوں کو نقصان پہنچا تھا ان تمام کا سروے پاک آرمی اور ضلعی انتظامیہ نے مشترکہ طورپر کیا تھا ، جس کے رپورٹ پر صوبائی حکومت نے جزوی نقصان شدہ ابادیوں ،ملوں، فیکٹریوں سمیت سلک ملوں کے مالکانان کو ایک لاکھ جبکہ مکمل طورپر تباہ ہونے والوں کو چار لاکھ روپے فراہم کئے تھے، انہوں نے کہا کہ سلک انڈسٹری ، ماربل انڈسٹری ، کاسمیٹکس فیکٹریوں کے بجلی بلوں کو بھی صوبائی حکومت نے معاف کئے ہیں ، جبکہ سلک انڈسٹری کو مراعات دینے کا معاملہ مرکزی سطح پر اٹھایا گیا ہے ،انہوں نے کہا کہ سوات کے کسی بھی انڈسٹری پر ٹیکس لگانے کاکوئی پروگرام نہیں ہے۔
سوات کے سلک ملوں میں کام کرنے والے مزدو ر اب بھی اس امید اور انتظار میں ہے کہ کب حکومت اس صنعت کو توجہ دیگی ،اور سوات میں بند کئے گئے ملیں دوبارہ چلنے لگیں گے جس سے ایک مرتبہ پھر ہزاروں مزدور برسرروزگار ہوجائیں گے اور ان کے گھروں کے چولہے جلنے لگیں گے۔
2,232 total views, 2 views today