ویسے تو ان کے سارے بیٹے حسن خلق، کسر نفسی اور مروت میں اپنی مثال آپ ہیں۔ لیکن ولی اللہ جسے انھوں نے بچپن سے ہی حکمت سیکھنے پر لگادیا تھا، ان کا سچا جانشین ثابت ہوا ہے۔ بلکہ بیٹا باپ سے بھی ’’کورا‘‘ کے مصداق لگتا ہے۔ کئی پہلوؤں سے ان پر بھی بازی لے گیا ہے۔ اس وجہ سے اس کی شہرت ملکی حدود سے آگے نکل کر دوسرے ممالک تک پہنچ گئی ہے۔ چین اور امریکہ تک سے مریض آنے لگے ہیں۔ بالخصوص بلڈ پریشر، بلڈ کینسرکے مریضوں کے لیے تو وہ کسی فرشتہ رحمت سے کم نہیں۔ بے شمار ایسے لوگ جو ہر قسم کے علاج کے بعد مایوسی کے اندھے کنویں میں پیر لٹکائے موت کا انتظار کررہے تھے، اس کی دوا سے مکمل طور پر شفایاب ہوکر از سر نو زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
قدرت کی کیا عجب ستم ظریفی ہے کہ جس جگہ کے نام سے لوگ وہاں کے باشندوں کو چڑاتے تھے اور بہت تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے پوچھتے تھے: ’’مارتونگ مرنے سے بہتر ہے یا مرنے کے لیے بہتر ہے۔‘‘ اور وہاں کے باشندے اپنے ہونے پر شرمندہ شرمندہ کوئی مناسب جواب ڈھونڈنے کے مشکل مرحلہ کو طے کرنے کے لیے خود کو تیار کرتے تھے۔ آج کوئی دیر نام سن کر بہت سے گم رسیدہ لوگوں کے دلوں پر شفا شعار ہاتھ رکھ دیتا ہے۔ مایوسی کے تھپیڑوں سے بجھی آنکھیں یہ نام سن کر امیدوں کے کئی ہزار دیئے جلانے بجھانے لگتی ہیں۔ اور مریضوں کے رشتہ دار نئی خوشیوں کے خواب قافلے ساتھ لیے ایک انجان دنیا کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ ایک ایسی سڑک پر جو شائد موت کے کنویں پر موٹر سائیکل چلانے والوں کی ٹریننگ کی غرض سے بنائی گئی تھی۔ لیکن شہروں سے دور ہونے کی وجہ سے استعمال میں لائے جانے سے محروم رہی۔ کئی با اختیار اقتدار بستی کے رہائشی بھی اس روڈ پر سفر کے امتحان سے گزرے، ہر بار دوا لیتے وقت ان میں سے ہر ایک نے ببانگ بلند دعویٰ کیا کہ واپس جاتے ہی وہ پہلا کام یہی کرے گا کہ اس سڑک کو سڑک بنادے۔ لیکن اقتدار اور دولت کے ایوانوں میں رہنے والے بلند و بانگ دعوے بالعموم اپنی عادت سے مجبور ہوکر کرتے ہیں۔ جس طرح بہت سے مرغ دن دیہاڑے بھی بانگ دینے سے باز نہیں آتے۔
میرے سامنے بھی جب کوئی اس جگہ کا نام لیتا ہے، تو بے اختیار جی چاہتا ہے کہ کہنے والے کو گلے لگالوں۔ ایک عجیب سی خوشی رگ و پے میں دوڑنے لگتی ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ میں نے اپنی زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ یہاں سے دور گزارا ہے بلکہ اب بھی دور رہنے پر مجبور ہوں۔ جب سال سال کا حساب کرتا ہوں، تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پینتالیس سال میں سے صرف دس سال ایسے ہیں جو میں نے اپنے اس چھوٹے سے گاؤں ’’شگہ‘‘ میں گزارے ہیں۔ جو بہت ہی چھوٹا سا ہونے کے باوجود اس علاقہ کی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ دوبار T20Yکی طرح اس کا محاصرہ کیا گیا۔ اس نے جل کر راکھ ہوجانا قبول کیا، لیکن سرنڈر ہونے کی ذلت کبھی قبول نہیں کی۔
میں اس بات پر حیران ہوں کہ میں نے جو اتنے بہت سے علاقوں میں وقت گزارا ہے، خوب صورت سے خوب صورت، سر سبز سے سر سبز علاقے دیکھے ہیں۔ اتنے شہروں میں گیا ہوں، اتنی بستیوں نے میرے لیے اپنے دروازے کھولے ہیں۔ میری جسمانی و ذہنی تربیت و تہذیب میں کتنے خطوں نے حصہ لیا ہے، یہ قدم جو ڈگر ڈگر گھومے ہیں، یہ آنکھیں جنھوں نے نگر نگر کا حسن چنا ہے۔ یہ ذہن جو قدیم و جدید علوم کے سرچشموں سے سیراب ہوا ہے۔ یہ دل جس پر کئی وادیوں نے اپنا آپ نچھاور کیا ہے، نہ جانے کیوں چھپ چھپ کر اندر ہی اندر اس چھوٹے سے پہاڑوں میں گھرے ہوئے گاؤں کے لیے تڑپتا رہا ہے۔ تعلیم کہیں اور سے حاصل کی۔ شاعری کے سفر کا یہاں سے بہت دور غریب الوطنی میں آغاز کیا۔ شادی کے لیے کسی اور خطہ نے خود کو پیش کیا۔ دوست احباب ملک کے کئی دیگر حصوں سے انتخاب کیے۔ لیکن ہمیشہ خوابوں کی محفل اسی نام سے روشن ہوتی رہی۔ وہ جو کسی نے کہا ہے:
ناموں کا اک ہجوم سہی دل کے آس پاس
دل سن کے ایک نام دھڑکتا ضرور ہے
میں حیرت سے سوچتا ہوں کہ آخر ایسا کیوں ہے۔ اس کا ایک جواب تو شاید انگریزی کا یہ مقولہ ہے: ’’فرسٹ امپریشن از دی لاسٹ امپریشن۔‘‘ یعنی پہلا تاثر ہمیشہ بر قرار رہتا ہے۔ یا چوں کہ جنم بھومی وہ جگہ ہے، جہاں آدمی کا دنیا سے پہلا پہلا تعارف ہوتا ہے۔ آسمان سے پہلی ملاقات ہوتی ہے۔ درختوں اور پرندوں سے پہلی پہلی دوستی ہوتی ہے۔ پتھروں سے، مٹی سے، بارش سے، پہاڑوں سے، ندیوں سے، بادلوں سے، چاند تاروں سے اس کا پہلا آمنا سامنا ہوتا ہے۔ پھر وہ دنیا کے ہر پہاڑ کا اس پہاڑ سے مقابلہ کرتا ہے۔ جسے آنکھ کھولنے کے فوراً بعد اس نے دیکھا ہو، اگر خوش قسمتی سے اس کے گھر کے قریب کوئی دریا بہتا ہو، تو پھر وہ دنیا کے ہر دریا میں اس کا عکس دیکھ کر بے چین ہوجاتا ہے۔ میں اس لحاظ سے بے حد خوش نصیب ہوں کہ میرے گاؤں سے آدھ گھنٹہ کے فاصلہ پر میں دنیا کے انتہائی خوب صورت دریا کو اپنے طویل سفر پر جاتے ہوئے دیکھ سکتا تھا۔ لاشعور کی گیلری کی کئی دیواریں اس دریا (اباسین) کی مختلف تصویروں سے بھری ہوئی ہیں۔ میری شاعری میں یہ دریا نہ جانے کتنے راستوں سے داخل ہوا ہے۔
1,254 total views, 2 views today