پاکستان کی بری، بحری اور فضائی افواج کے ماہنامہ ھلال کے اپریل 2014ء کا شمارہ لیفٹیننٹ کرنل عقیل احمد کی طرف سے ملاکنڈ پریس کلب بٹ خیلہ کے پتا پر کورئیر کے ذریعے موصول ہوا، جسے پریس کلب کے دیگر ممبران کے علاوہ راقم نے بھی پڑھا اور اسے پسند کیا۔ اس وجہ سے میگزین کے منتظمین و مدیران کی کاوشوں کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔ میگزین میں شامل بعض مضامین کے اقتباسات مختصر تبصرہ کے ساتھ قارئین کرام کی نذر کرتا ہوں۔ تاکہ انھیں بھی میگزین میں شامل مواد کا تھوڑا بہت ادراک ہوسکے۔
ماہنامہ ’’ھلال‘‘ جو کہ عمدہ اور پائیدار کاغذ کے ساتھ 2014ء صفحات اردو اور انگریزی دونوں زبانوں پر مشتمل ہے، جس میں پاک آرمی کے آفیسرز کے علاوہ ملک کے ممتاز اور نام ور صحافیوں اور لکھاریوں کی تخلیقات، نظمیں، فوجی جوانوں کی شہادت، جذبوں، کارناموں، خدمات اور ذمے داریوں کے علاوہ معاشی، آئینی، قانونی، جمہوری، مذہبی، سائنس و ٹیکنالوجی، صحت، تاریخ، حالات حاضرہ، اسپورٹس اور دیگر موضوعات پر تبصرے، تجزئیے، باتصویر رپورٹیں اور انٹرویو ز شامل ہیں۔ اس مواد کو پڑھ کر نہ صرف قارئین میں جذبہ حب الوطنی مزید ابھرتا ہے، بلکہ وہ پاک فوج کی قربانیوں، خدمات اور احساسات سے بھی بہ خوبی آگاہ ہوسکتے ہیں۔ یہ میگزین جو کہ ایک کتاب کی طرح ضخیم اور تاریخی حیثیت کا حامل ہے، کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ تاہم میگزین کی جلد بندی یا بائنڈنگ پر ذرا توجہ دینے سے قارئین کرام اور لائبریرین اسے صدیوں تک محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ پاکستان کے اندر میگزین کی شرح خریداری ایک سو تیس روپے فی پرچہ جب کہ سالانہ خریداری کے لیے بارہ سو روپے ہے، جوکہ میگزین کی ضخامت اور معیار کے لحاظ سے انتہائی مناسب بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
میگزین میں پاکستان کے نام ور صحافی کالم نگار جناب ڈاکٹر اجمل نیازی نے ’’شہداء عظیم تر ہیں ‘‘ کے عنوان سے شہداء کے رتبہ ، مرتبہ اور اہمیت پر روشنی ڈال کر یہ وضاحت کی ہے کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے خاندان میں نشان حیدر پانے والے دو شہداء میجر شبیر شریف اور میجر عزیز بھٹی شہید کا اعزاز موجود ہے۔ الطاف حسین قریشی نے ’’وطن کے دفاع کا مقدس فریضہ ‘‘ کے عنوان سے تحریرکردہ مضمون میں مختلف معتبر حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ پاکستان کی مسلح افواج اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور شجاعت کے لحاظ سے دنیا کی بہترین افواج میں شمار کی جاتی ہیں۔ مضمون نگار نے اپنی تحریرمیں اندرونی سطح پر اسلام کے نام پر بدامنی، انتشار اوردہشت گردی پھیلانے والوں کی بھی مذمت کرکے انھیں پوری انسانت کا قاتل قرار دیا ہے۔ محمود شام نے ’’نیشنل انٹرنل سیکورٹی پالیسی ایک جائیزہ ‘‘ کے عنوان سے وطن عزیز میں امن وامان کی خرابی کا طائرانہ تجزیہ کیا ہے کہ کس عرصہ سے لے کر کب تک ملک میں امن وامان کی فضا برقرار رہی اور کب سے دہشت گردی اور بدامنی شروع ہوئی۔ موصوف نے اپنے جائیزہ میں یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ سیکورٹی پالیسی مرتب کرنے کے لیے یہ ذمے داری صرف وزارت داخلہ تک محدود کرنے کی بجائے اس میں یونی ورسٹیوں کے تحقیقی انسٹیٹیوٹ اور دینی اداروں کو بھی اگر شامل کیا جاتا، تو اس سے پالیسی سازی میں مزید آسانی اور مدد ملتی۔ انھوں نے بدامنی سے نمٹنے کے لیے مزید تاخیر سے اجتناب اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مصر، امریکہ اور ترکی کی عملی تجربات سے استفادہ کرنے سمیت اس سلسلے میں غیر ضروری بیانات، تقریروں اور ٹاک شوز سے اجتناب کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
21 مئی 2009ء کو ملاکنڈ ڈویژن میں آپریشن راہ راست کے دوران میں شہید ہونے والے کیپٹن عمر زیب کے والد لیفٹیننٹ کرنل (ر) محمد افضل بیگ کی خصوصی تحریر بعنوان ’’شہید بیٹے کی یادیں اور اس کی باتیں ‘‘ میں شہید کے بچپن سے شہادت تک ان کی آرزوؤں اور خواہشوں کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا ہے اور اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر کرتے ہوئے بہ قلم خود تحریر کیا ہے کہ ’’ شہادت تو نصیب والوں کو ملتی ہے۔‘‘ موصوف نے اپنی تحریر کی مناسبت سے ایسے اشعار کا نتخاب بھی کیا ہے، جو اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ شہید کیپٹن عمر زیب کا خاندان اپنے لخت جگر کی شہادت پرنہ صرف صابر و شاکر ہے بلکہ اس پر فخر بھی کرتا ہے جوکہ کچھ اس طرح ہیں:
شہادت تیری آفرین آفریں
پر جدائی تیری الاماں الاماں
ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدر وقیمت میں ہے خون جن کا حرم سے بڑھ کر
شہیدوں کے خون سے حُریت کے دیپ جلتے ہیں
انھیں کے فیض سے ہم سر اونچا کرکے چلتے ہیں
شاہین کوثر ڈار نے ’’یوم شہداء اور آزادئ کشمیر‘‘ کے عنوان سے تنازعہ کشمیر کا تاریخی پس منظر اور شہداء کی قربانیوں کی داستانیں رقم کی ہیں۔
طوالت مضمون سے بچنے کے لیے میگزین میں شامل موضوعات اور عنوانات پر اکتفاکروں گا کہ دیگر میں یاسر پیر زادہ نے The Aliens سکندر حمید لودھی نے پاکستانی معیشت کی بہ حالی، چار گائے کی کہانی، اعزاز احمد آذر نے شہیدان وطن کو سلام، ہلال ڈیسک کی طرف سے سابقہ وفاقی وزیر امور کشمیر و شمالی علاقہ جات محمد افضل خان لالا کی انٹرویو، عقیل یوسف زئی کی طرف سے طالبان سے مذاکرات اور سیز فائر کا اسٹیٹس، آسیہ آصف نے ایم ایم عالم۔۔۔ہیرو ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ، محمد امجد چوہدری نے شہیدوں کا لہو، لیفٹنٹ کرنل عارف محمووکا ’’چلا جاؤں گا‘‘ رابعہ رحمان روہی کا بیٹیوں کی جسم پر وردیاں سجتی رہیں گی، رانا ظفراقبال کا پولیس اہل کار۔۔۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے پر عزم، یوسف عالمگیرین کا امجد اسلام امجد سے ایک ملاقات، بریگیڈئیر ایس کے شاہ کا صحرا (تھر) کی طرف چل نکلا، عرفان صدیقی کا جاپان میں سائبر کرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتیں اور ان کا سدباب، ساجد اقبال کا حوالدار غلام اصغر شہید، میجر اسد محمودخان کا ’’بابا جانی آکر دیکھو ‘‘ میجر ارمغان نعیم خان کا سرخ گلابوں کے موسم میں ، میجر سید عمران حسین شاہ کا رسالدار محمد خان شہید، کیپٹن ایاز خان نے سپاہی شیراز یوسف زئی، سید شاہدہ شاہ نے دھرتی گواہ رہنا، نائک شاہد اقبال کی طرف سے حوال دار مظہر اقبال شہید، بلال الرشید نے اب مقابلہ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدانوں میں ہے، میجر عجاز کی طرف سے شہدائے پنجاب رینجرز، سید ناصر رضا کاظمی کا بھارت کا جنگی جنون، حبیب جالب کا نظم کشمیر کی وادی میں لہر اکے رہو پرچم، عذارا انتظار کی کنول نصیر سے ملاقات، میجر حسان جاوید کا لیفٹنٹ کرنل اکرام شہید، رضا سید کی طرف سے ’’اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدے‘‘ اے این خان کے پاک بحریہ کے شہداء ، میجر ڈاکٹر شمائلہ محسن کی طرف سے سوائن فلو، مسرت بھٹی کی زیابیطس کے ساتھ بہترین زندگی گزارئیے، کوکب خواجہ کا دیس بدیس کھانے اور تاریخ کے جھروکوں کے عنوانات سے تجزئیے اورمضامین شامل ہیں، جو کہ پڑھنے کے قابل ہیں۔ زیر نظر تبصرہ میں میگزین میں شامل اردو مواد کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک سو چھے صفحات پرانگریزی مواد اس کے علاوہ ہے۔
1,877 total views, 2 views today