عبدالباسط مرزا
12 اکتوبر1999 ء پاکستان کی تاریح کا سیاہ ترین دن ہے ۔اس دن نے اگر کسی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے تو وہ میاں نواز شریف ہیں، یہ دن نہ صرف ہماری سیاسی تاریخ میں بہت سی پیچیدہ تبدیلیاں لے کر آیا بلکہ عسکری تاریخ کا دھارا بھی اس دن سے نئے رخ پر بہنے لگا ۔میں یہ یقین کیساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پرویز مشرف کے اُس غیر آئینی اقدام کو کسی نہ کسی سطح پر بیرونی طاقتوں کی آشیرباد بھی حاصل رہی کیونکہ مستقبل قریب میں وہ 9/11 کی پلاننگ کر چکے تھے جس کا صرف عملی نفاذ باقی تھا ۔ پاکستان چونکہ رچائے گئے اس تمام تر فرضی ڈرامے(9/11) کا مرکزی کردار تھا لہذایہاں سے ثمرات سمیٹنے کے لیے عنان اقتدار ایسے شخص کے ہاتھ میں دینا لازم ٹھہرا جو عالمی سازشیوں کے آگے’’فرضی مزاحمت ‘‘سے زیادہ کچھ نہ کرے ۔ پھر مستقبل قریب میں قوم نے دیکھا کہ ملکی سالمیت کو تار تار کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف نے ڈرون حملوں کی شکل میں امریکہ کو پاکستان کے طول و عرض تک رسائی دی۔ مشرف دورنے پاکستان کو مہنگائی،بدامنی،لاقانونیت،کرپشن،معاشی بدحالی اوردہشت گردی جیسے ان گنت مسائل سے دوچارکیا۔ خود کش حملے،ڈرون ،قبائلی علاقوں میں خانہ جنگی کی صورتحال، خارجہ امور کے محازپر ناکامیاں ، الغرض بے شمار ایسے مسائل کا پاکستان کو پہلی بار سامنا کرنا پڑا جن کا کبھی کسی نے تصور بھی نہ کیا تھا ۔پھر ذرا یہ بھی ملاحظہ کیجیے کہ آمریت کے 8 سالوں میں امریکہ کو یہاں اس قدر آزادی دی گئی کہ ہزاروں کی تعداد میں ویزے جاری ہوئے اور کئی جاسوس پاکستان میں داخل ہو کر روپوش ہو گئے جنہوں نے پاکستان میں بد امنی کا ایسا طوفان برپا کیا کہ ہمیں اس کے خمیازے کے طور پر 70 ہزار سے زاید انسانی جانوں کاناقابلِ تلافی نقصان برداشت کرنا پڑا ، ہمیں اپنے ہمسایوں سے صدیوں پرانے تاریخی و ثقافتی تعلقات کی قیمت پر لڑائی مول لینا پڑی۔ آج دونوں جانب بد اعتمادی کی یہ صورتحال ہے کہ پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کو ایک آنکھ نہیں بھاتے اور ہر طرح کے چھوٹے بڑے واقعات کا ذمہ دار ایک دوسرے کو قرار دیتے ہیں ۔سانحہ لال مسجد سے لیکر نواب اکبر بگٹی کی شہادت تک تمام تر واقعات کو 12 اکتوبر اور 9/11 کے پس منظر میں دیکھیں تو آپ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ بلوچستان میں جنگی ماحول پیدا کرنے، اسے لاشوں کے ڈھیر میں تبدیل کرنے اور خوف و ہراس کی فضا پیدا کرنے کے مقاصد قطعاً مقامی نہیں تھے بلکہ اس قبیح منظر سے مفادات عالمی طاقتوں نے سمیٹنے تھے جو بعد میں سمیٹے۔ جب نریند مودی بنگلہ دیش میں یہ کہتا ہے کہ بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کے پیچھے ہم تھے تو وہ اپنے کسی ’’آقا‘‘ کی ایما پر کہتا ہے اور مقصد پاکستان کو یہ پیغام دینا ہوتا ہے کہ ہم نے پاکستان کی سالمیت کے محافظوں کو نہ صرف للکارا بلکہ ہم نے داخلہ بھی حاصل کیا اور کامیاب کارروائیاں بھی کرتے آئے ہیں ۔جمہوری حکومت کوئی بھی ہوتی تو وہ بلوچستان کے مسئلے کا یہ حل کبھی نہ نکالتی جو آمریت دور میں نکلا بلکہ یوں کہوں نکلوایا گیا اور ’’نکلوانے ‘‘کے لیے ضروری تھا کہ ایک منتخب جمہوری حکومت کو چلتا کرکے اپنے بجھائے ہوئے جال میں آنے والی حائل رکاوٹیں دور کی جائیں ۔
اب بات یہ ہے کہ عسکری فیصلہ سازوں نے ماضی میں کی جانے والی غلطیوں سے نہ صرف سیکھا بلکہ تمام تر حکمت علمی بھی تبدیل کی اور عالمی دباؤ کے اثرات سے نکلنے کے لیے مشکل فیصلے بھی کیے، لیکن بد قسمتی سے منتخب جمہوری حکومتوں نے12 اکتوبر 1999ء سے لے کر 28 جولائی2017ء تک اپنی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیاا ور نہ ہی طرزِ حکمرانی میں ترمیم و تبدیلی کو لازم جانا۔ یہ آج بھی سپریم کو رٹ سے نااہلی کا فیصلہ آنے کے بعد کہتے ہیں’’ ہمارے خلاف نہ نظر آنے والی قوتوں نے سازش کی‘‘ ، یہ بار بار دہراتے ہیں’’ کٹھ پتلیوں کا کھیل نہیں کھیلنے دیں گے ‘‘ یہ آج بھی کہتے ہیں’’ سب کچھ سمجھ رہا ہوں اور کہنا بھی چاہتا ہوں‘‘ ۔ سوال یہ ہے کہ اگر سب کچھ پتا ہے توپھر طرزِ حکمرانی میں ترمیم کو نا گزیر کیوں نہیں جانا؟ آپ نے اپنے ’’مخلص ترین بھائی ‘‘اور ’’وفادار ترین ساتھی‘‘ کی ناراضی مول لے لی لیکن ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کے اعادے سے پیچھے نہ ہٹ سکے، 3 بار وزیر اعظم رہنے والے آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں کرسی پر قبضے کے دن کھڑے تھے ۔تاریخ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ 12 اکتوبر کے اقدام سے قبل میاں نواز شریف جنرل پرویز مشرف کو عہدے سے علیحدہ کرنے کا لیٹر تیار کروا چکے تھے لیکن اس سے قبل کہ وہ اس پر دستخط کرتے ان کی اپنی منتخب جمہوری حکومت کو انجام سے دوچار کر دیا گیا ۔ جب بھی 12اکتوبر کی تاریخ آئے گی اس کوسیاہ حروف میں لکھااوریادکیاجائیگاکہ ایک آمرنے نہ صرف منتخب وزیراعظم کوپابندسلاسل کیابلکہ پاکستان کوامریکی غلامی میں دیا اورتاریکی کی نہ ختم ہونے والی رات ہمارے سروں پر تان دی۔دکھ اس بات کا ہے کہ آمریت دورمیں پیدا ہونے والے مسائل آج بھی حل طلب ہیں،پاکستان میں بدامنی کا گراف نیچے ضرور آیا ہے لیکن ابھی بہت کام کرنا باقی ہے ۔ لاقانونیت،کرپشن،ناکام خارجہ پالیسی،معاشی بدحالی،امریکی جارحیت کے خطرات، یہ سب معاملات نہ صرف موجودہیں بلکہ ان میں اضافہ ہوگیاہے۔عدلیہ کے فیصلے نہیں مانے جارہے،ہمارے سیاست دان غیر جمہوری سازشی عناصر کی ریشہ دوانیوں کو متفقہ طور پر ناکام بنانے کی بجائے اداروں کے خلاف محاذ بنانے کے کوششوں میں مصروف ہیں۔یہ اداروں میں تناؤ کا تاثر کیوں دینا چاہتے ہیں ،اگر اس وقت سیاسی قیادت نے دانشمندانہ روش اختیار نہ کی تو پھر کوئی جنرل مشرف لازماً دوبارہ جلوہ گر ہوگا ایسے میں’’ٹائپڈنو ٹیفیکیشنز‘‘ خش و خاشاک کی طرح بہہ جاتے ہیں۔ کیا جنرل کیانی اور جنرل راحیل شریف نے بغیر آئین توڑے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں انجام نہیں دیں اور حکومت پر قبضہ کئے بغیر آئینی کردار ادا نہیں کیا؟ چیف جسٹس کی بحالی میں عسکری کردار کو کبھی فراموش نہیں جا سکتا۔ جنرل مرزا اسلم بیگ کوتمغہ جمہوریت عطا کیا گیا۔سیاستدان چاہیں تو کوئی جرنیل کبھی حکومت میں آنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ،لوگ منتخب حکومتوں کوبچانے کے لیے ترکی کی طرح سڑکوں پر آ جائیں ،اور اگرسارے سیاستدان اکٹھے ہو جائیں تو ہر طالع آزما کو منہ کی کھانی پڑے۔لیکن بد قسمتی سے ہمارے سیاست دان جو کچھ جمہوریت کے ساتھ کر رہے ہیں ایسا کبھی ہوا نہ کسی نے دیکھا۔
2,360 total views, 2 views today