خصوصی رپورٹ ۔ سلیم اطہر
ایک طرف اگر ملک کے معروضی حالات اور پانامہ کیس میں وزیر اعظم کے نااہلی کے بعد ملک میں آنے والے انتخابات کی جگہ تین سال کے لئے ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم ہونے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے اور کچھ مقتدر حلقے ملک میں جاری کرپشن کے مسئلے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کرکے جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے حامی ہیں اُن کے نزدیک کرپشن پر سابقہ وزیر اعظم نوازشریف کے خلاف جوحالیہ فیصلے سپریم کورٹ سے آئے ہیں اور اب نیب کے زریعے اس کہانی کو انجام تک پہنچانے کا جو سلسلہ شروع کیا گیا ہے اُس کا جاری رہنا موجودہ حالات میں ملکی سالیمیت کے لئے انتہائی ضروری ہے تاہم ٹیکنوکریٹس کے عبوری سیٹ اپ کے بارے تاحال کسی مصدقہ زرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی ہے تو دوسرے طر ف مملکت خداد میں سیاسی جماعتوں کے جانب سے آنے والے انتخابا ت کے لئے تیاریاں اور جوڑ توڑ کاسلسلہ علاقائی ،صوبائی اور وفاقی سطح پر عرو ج پر ہے حالانکہ عام انتخابات کے انعقاد میں ابھی مزید سات ماہ باقی ہے لیکن پھر بھی عام انتخابات میں حصہ لینے سے قبل سیاسی جماعتوں کے قائدین کے جانب سے تیاریوں اور اُمیدواروں کے نامزدگی کے لئے صلاح مشورے کئے جاری ہے جبکہ بعض سیاسی جماعتوں اور خصوصاً اے این پی نے سوات سے اپنے چندنامزد اُمیدواروں کے نام فائنل کرکے اس کا اعلان بھی کیا ہے سوات میں عام انتخابات سے قبل انتخابات میں بطورپارٹی اُمیدوار نامز دگی کے لئے خواہشمند کارکنو ں اور عیدیداروں سے نام طلب کرلئے ہیں جس میں اے این پی کے قائدین اور پارلیمانی بورڈ نے سوات کے ایک قومی اور تین صوبائی نشستوں جن میں پی کے 82,83,84اور این اے 30کے لئے اُمیدوار نامز د کردیئے ہیں اے این پی کے جانب سے پی کے 80,81,85,86پر عام انتخابات میں ایک سے زائد اُمیدواروں کے نام سامنے آنے پرٹکٹوں کے تقسیم پر مزید سوچ بیچار کے بعد پارلیمانی بورڈاعلان کرے گی یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ماضی میں سوات کے ان حلقوں میں عام انتخابات کے لئے مشکل سے ایک ہی اُمیدوار سامنے آتاتھا اور پارٹی کے باقی ماندہ کارکن اور عہدیدار عام انتخابات کے دوران پارٹی کے جانب سے نامزد کردہ اُمیدواروں کوہرطرح سے سپورٹ کرتے اُن کیلئے ڈور ٹو ڈور کمپین چلاتے جلسے جلوسوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور الیکشن والے دن اپنے پارٹی کے طرف سے نامزدکردہ اُمیداور کے جیت کے لئے تن من دھن ایک کرتے لیکن یہاں اگر بات پی کے 80کی جائے تو ماضی میں سابق وزیر واجد علی خان اسی حلقے سے انتخابات لڑتے چلے آرہے ہیں
لیکن اس دفعہ اس حلقے سے پہلی دفعہ خواجہ محمد خان اور رضا خان اور فضل معبود بابو بھی سامنے آئے ہیں تاہم اس حلقے سے واجد علی خان اور خواجہ محمد خان میں کسی ایک کو پارٹی ٹکٹ ملنے کا امکان ہے تاہم زرائع کے مطابق واجد علی خان کو فیورٹ قرار دیا جارہا ہے سوات کے این اے 29سے اے این پی نے ابھی تک کسی اُمیدوار کو نامزد نہیں کیا ہے اور یہاں سے پارٹی ٹکٹ کے حصول کے لئے سابق ایم این اے مظفرالملک عر ف کاکی خان ،معاذ خان ایڈوکیٹ او ر شیرشاہ خان کوزہ بانڈئی نے درخواستیں جمع کی ہیں تاہم اسی حلقے سے معاذ خان اور شیر شاہ خان میں پارٹی کے طرف سے ٹکٹ کے لئے نامزد کئے جانے کا امکان ہے تاہم زرائع کے مطابق معاذخان ایڈوکیٹ کو فیورٹ قراردیاجارہا ہے اسی طرح پی کے 81میں اسی حلقے سے ماضی میں پارٹی کے صدر شیر شاہ خان انتخابات لڑتے آرہے ہیں لیکن اس دفعہ اسی حلقے سے بھی عبداللہ یوسفزئی اور عبدالکریم او ر نے بھی انتخابات میں حصہ لینے کے لئے پارٹی ٹکٹ کے حصول کی خواہش ظاہر کردی ہے یہاں سے اے این پی کے سابقہ ایم پی اے اور صدر شیر شاہ خان کو پارٹی ٹکٹ کے لئے نامزدگی متوقع ہے اسی طرح پی کے 85سے ماضی میں سید جعفرشاہ ،راجہ ممتاز چموٹ ،غفارشاہ اور امیرسید کالام،کے نام سامنے آئے ہیں ماضی میں اس حلقے سے سید جعفر شاہ کو نامزد کیا جاتا رہاہے تاہم اس دفعہ سید جعفرشاہ کے لئے پارٹی ٹکٹ کا حصول آسان حدف نہیں رہے گا کیونکہ اس حلقے سے اب اُس کے مدمقابل تحصیل بحرین میں اے این پی کے بانی سخی ملک کا بیٹا امیر سید ہے جس کا علاقے میں کافی اثر رسوخ ہے تاہم جعفرشاہ کو اس حلقے پارٹی ٹکٹ ملنے کا امکان ہے پی کے 86سے ماضی میں اے این پی کے پلیٹ فارم سے ڈاکٹر حیدر علی خان انتخابات لڑ چکے ہیں
جبکہ اب چونکہ ڈاکٹر حید رعلی خان نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی ہے توا س حلقے سے اب اے این پی کے دو کارکنوں عدالت خان اور قجیر خان نے درخواستیں دے رکھے ہیں ان دوونوں نامزد اُمیدواروں میں قجیر خان مضبوط اُمیدوار ہیں اور اُن کا تحصیل خوازہ خیلہ میں کافی اثر ورسوخ اور علاقے کے عوام کے لئے خدمات ہیں ا س وجہ سے نہ وہ صر ف آنے والے انتخابات میں اے این پی کے متوقع اُمیدوار ہوسکتے ہیں بلکہ اگر اُس کی اے این پی کے طرف بطور پارٹی اُمیدوار نامزد کیا جاتا ہے تو یہ اگرایک طر ف اے این پی کے لئے نیک شگون ثابت ہوسکتی ہے لیکن دوسرے طرف وہ دیگر سیاسی جماعتوں کے طر ف سے نامز د کردہ اُمیدواروں،اور خاص کر پی ٹی آئی کے ممکنہ نامزد اُمیدوار ڈاکٹر حیدرعلی خان کے لئے بھی درد سر ثابت ہوسکتے ہیں ادھر عوامی حلقوں میں یہ بات تیزی سے گردش کررہی کہ سوات میں مسلم لیگ ن اور جے یوآئی ف کے مابین 4 صوبائی اور 2 قومی نشستوں پر سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسمننٹ کے لئے فارمولہ طے پایا ہے
جس کے تحت این اے 29،پی کے 80,84اجے یو آئی ف کو دی جائیگی جبکہ این اے 30،پی کے 81,85مسلم لیگ ن کے حصے میں آئینگے جبکہ باقی ماندہ نشستوں پر انتخابی اتحاد کے لئے مزیدبات چیت اور مذکورہ بالا نشستوں پر حتمی اعلان کے لئے رابطوں کا سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق ہوچکا ہے یہاں ہم مسلم لیگ ن اور جے یوآئی ف کے جانب سے متوقع انتخابی اتحاد کے بارے بات کریں تو ضلعی سطح پر اس اتحادکے بارے کنفویوثرن کا شکار ہیں کیونکہ مسلم لیگ ن کے اہم عہدیدار اس انتخابی اتحادکے فارمولے کو طے شدہ قراردے رہے ہیں اور پارٹی کے اہم میٹنگز میں پارٹی کے اہم ارکان سے اس کا کھل کر اظہار کررہے ہیں تو دوسرے طرف جے یوآئی ف کے مقامی عہدیدا ر اور متوقع نامزد اُمیدوار اس کو مسلم لیگ ن کے طرف پروپیگنڈہ قرار دے رہے ہیں جے یو آئی ف کے بعض ضلعی مشران اس بات کو مانتے ہیں کہ مسلم لیگ ن اور جے یوآئی ف کے مابین مذکورہ بالائی نشستوں کے تقسیم کے فارمولے پر95فیصد اتفاق رائے پاچکا ہے اور بعض نکات پر اختلاف ہیں تاہم وہ بھی جلد حل ہونگے اور جے یوآئی ف اور مسلم لیگ ن کے مابین 2018 ء کے عام انتخابات کے لئے سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسمنٹ کا حتمی اعلان کئے جانے کا قوی امکان ہے ہم یہاں ا س بات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اگر مذکورہ بالا فارمولے کے تحت چار صوبائی اور دو قومی نشستوں کے تقسیم پر جے یو آئی ف ا ور مسلم لیگ ن کے مابین اتفاق ہوجاتا ہے
تو ا س سے دونوں سیاسی جماعتوں کے اندرپارٹی ٹکٹوں کے اُن متمنی اُمیدواروں کو جن کو پارٹی ٹکٹ کیلئے نامزد نہ کریں اورپارٹی کسی دوسرے اُمید وار کو پارٹی ٹکٹ کیلئے نامزد کرتی ہے تو اس سے دونوں سیاجماعتوں میں اختلافات شروع ہونگے اور بعض حلقوں میں تو پارٹی قائدین کے پارٹی کے علاقائی کارکنوں اور عہدیداروں کو نظر انداز کرنے پر پارٹی قائدین سے ناراض ہے اب ان فیصلوں سے پارٹی قائدین اور اُن میں خلیج مزید گہری ہوجائیگی مسلم لیگ ن او جے یوآئی ف کے انتخاباات سے قبل سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسمنٹ مذکورہ بالافارمولے تحت مسلم لیگ ن میں جن جن حلقوں میں اختلافات متوقع ہیں اُن میں سرفہرست پی کے 85ہے جہاں2018 ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر امیر مقام نے اس حلقے سے خود انتخابات لڑنے کا اعلان کیا ہے اس حلقے سے امیر مقام نے انتخابات لڑنے کا فیصلہ بھی کرلیا ہے او ر جے یو آئی ف سے متوقع سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسمنٹ کی صورت میں اُنہوں نے یہ سیٹ مانگ بھی لی ہے جیسا کہ امیر مقام نے اس حلقے سے انتخابات خود لڑنے کا اعلان کیا ہے امیر مقام نے یہاں کے سابقہ نامزد اُمیدوار میا ں شرافت علی ا ور دوسرے پارٹی کارکنوں کو اعتماد میں نہیں لیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ میاں شرافت علی نے مسلم لیگ ن کے اس فیصلے سے دلبرداشتہ ہوکر مسلم لیگ ن کو خیرباد کہنے کا فیصلہ کرلیاہے اوراُس نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیارکرلی ہے او ر آئندہ چند دنوں میں وہ عمران خان کے موجودگی میں پی ٹی آئی میں شمولیت کا باقاعدہ اعلان بھی کرنیوالے ہیں یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2013 ء کے عام انتخابات میں سید جعفر شاہ جو کہ اے این پی کے اُمیدوا ر نے پی کے 85سے انتخابات میں کامیاب حاصل کرلی تھی اور میاں شرافت علی جس نے تیر ہ ہزار کے قریب ووٹ لئے تھے اُنہوں نے یہ سیٹ چند سو ووٹوں سے ہاری تھی اس کا مطلب یہ ہوا کہ میاں شرافت علی کا اس علاقے میں کافی اثر ورسو خ تھا اور ہے اس لئے تو میاں شرافت علی نے یہاں سے اتنے زیادہ ووٹ لئے تھے اور وہ چندسو ووٹ سے یہ نشست ہارے تھے میا ں شرافت علی کے پی ٹی آئی میں شمولیت کے بعداب پی کے پچاسی میں پی ٹی آئی کی پوزیشن انتہائی مستحکم ہوئی ہے اورمیاں شرافت علی کی وجہ سے آنے والے انتخابات میں اب اس حلقے میں اے این پی کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کو بڑے چیلنج کا سامنا ہوگا اب اگر بات کی جائے اس اتحاد کے تناظر میں کہ پی کے پچاسی اور این اے تیس دونوں مسلم لیگ ن کے حصے میں آئنگے
تو مسلم لیگ ن سے مستعفی ہوکر حال ہی میں جے یو آئی ف میں شامل ہونے والے نیروز میاں جو کہ اس اُمید پرجے یوآئی ف میں شامل ہوئے تھے او ر اُن کا اصل حریف امیر مقام ہی تو ہے اُس کا کیا بنے گا کیا وہ جے یوآئی ف کو بھی آئندہ ہونے والے انتخابات سے قبل ہی خیرباد کہ دے گا یاوہ چھپ چھا پ رہ کر کسی مناسب موقع کاانتظارکرے گااب اس متوقع انتخابی اتحاد میں سب اہم حلقہ جو ہے وہ پی کے 81کا ہے جہاں سے ماضی میں جے یوآئی ف کے طرف سے مسلم لیگ ن سے مستعفی ہونے والے حبیب علی شاہ نے 2013 ء میں پی ٹی آئی کے عزیز اللہ گران سے چند ہی ووٹوں سے ہارے تھے جو کہ ایک مضبوط اُمیدوار تھے اب اس انتخابی فارمولے کے تحت اس حلقے سے مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر امیر مقام خود انتخابات لڑنے کااعلان کرچکے ہیں اور متوقع طے شدہ انتخابی فارمولے کے تحت یہ سیٹ مسلم لیگ ن کے حصے میں آئی ہے اب ایسے صورت میں حبیب علی شاہ کو پارٹی قائدین کیسے مطمئن کرے گی آیاوہ اس بار انتخابی ٹکٹ نہ ملنے پر جے یوآئی ف کو بھی خیر باد کہدینگے جس طرح ماضی میں اُنہوں نے پی کے 81میں پارٹی ٹکٹ نہ ملنے پر مسلم لیگ ن کو خیرباد کہ کر جے یوآئی ف میں شمولیت اختیار کرلی تھی اب اس متوقع انتخابی سیٹ ٹو سیٹ ایڈ جسمنٹ فارمولے کے تحت جے یوآئی ف میں بھی کافی ٹو ٹ پھوٹ کا امکان ہے اور این اے 29کے لئے ضلعی جنرل سکرٹری اسحاق ذاہد اور حافظ ادریس کے مابین رسہ کشی جاری ہے جبکہ پی کے 80میں مولانا حجت اللہ اور اعجاز خان متمنی ہیں تاہم پارٹی قائدین اس نشست پر کس کو نامزد کرتی ہے اس کا فیصلہ تو پارٹی قائدین ہی کرے گی لیکن اُن کے کسی بھی متمنی اُمیدوار کو ٹکٹ جاری کرنے کا مطلب پی کے اسی کے انتخابات میں اختلافات کے شکل میں نکلے گا کیونکہ مولانا حجت اللہ جو پارٹی کے اندر اور باہر علماء کرام اور دیگر دینی حلقوں کی حمایت کا دعویدار ہے تو دوسرے طرف اعجاز خان بھی جے یوآئی ف کے نوجوان طبقے کے حمایت اور پارٹی اکابرین کے سرپرستی کا دعوی کررہے ہیں اسی متوقع انتخابی فارمولے کے تحت سوات کے پی کے 84کو جے یوآئی ف کو دیئے جانے کا امکان ہے اور اس کی بڑی وجہ قاری محمود جو کہ جے یو آئی ف کے ضلعی صدر ہے کو اُن کے ضلعی صدارت کی وجہ سے یہ سیٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اسی حلقے سے جے یو آئی ف کے عبدالغفار اور قاری رحیم اللہ نے بھی پارٹی ٹکٹ کے لئے درخواستیں دے رکھی ہے قاری رحیم اللہ تو سیاست میں نووارد ہے لیکن عبدالغفار سیاست کے ایک منجھے ہوئے اور جے یوآئی ف کے پرانی کھلاڑی ہے اور اُس کی پشت پرجے یوآئی ف کے بزرگ راہنما مولانا عبدالرحمان المعروف برتھانے بابا کے بیٹے مولانا حفیظ الرحمان ہے ماضی میں اس حلقے سے قاری محمود اکیلے انتخابات لڑتے آئے ہیں لیکن اس دفعہ اُن کے مقابلے میں دونئے چہرے بھی میدان میں ہے یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر قاری محمود کو پارٹی ٹکٹ جاری ہوتا ہے تو قاری رحیم اللہ جو کہ اس پارٹی کے اس فیصلے کو مان کر ایک طر ف ہوجائیگا لیکن عبدالغفار جو کہ اس دفعہ پارٹی ٹکٹ کے حصول کے نہ صرف متمنی ہے بلکہ اُن کو یقین ہے کہ پارٹی ٹکٹ اُنہی کو ملے گاجس کا قاری محمود نے بھی اُن کو یقین دہانی کرائی ہے اگر اب یہاں عبدالغفار کو پی کے 84کے لئے پارٹی ٹکٹ نہیں دیا جاتا تو اسی صورت میں عبدالٖغفار قاری محمود کے خلاف آنے والے انتخابات میں مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں اس کے علاوہ حال ہی میں حق پرست گروپ کے ڈاکٹر امجد علی نے بھی جے یوآئی ف میں شمولیت اختیار کرلی ہے اور واقفان حال کا کہنا ہے کہ ڈاکٹرامجدعلی کے جے یوآئی ف میں شامل ہونے کے بعد اُن کی پی کے 84کی سیٹ پکی ہے اور اب قاری محمود جس نے این اے 30کے لئے بھی کاغذات جمع کرائے ہیں وہ این اے 30سے انتخابات لرینگے اوراب قاری رحیم اللہ کے اتھ ساتھ عبدالغفار کے اس حلقے سے انتخابات لڑنے کی آرزو آرزو ہی رہنے کا امکان ہے ادھر جے یو آئی ف کے امیر قاری محمود نے تحصیل مٹہ کے تحصیل آمیر قاری رحیم اللہ کو پارٹی ڈسپلن کے خلاف ورزی کرنے پرپارٹی سے نکال کراُن کی بنیادی رکنیت کو ختم بھی کردیا ہے جے یوآئی ف میں پی کے 86میں بھی بڑے پیمانے پر ٹکٹ کے حصول کے لئے پارٹی کے اندر ٹوٹ پھوٹ جاری ہے یہاں سے جے یوآئی ف کے سابق اُمیدوار علی شاہ خان بھی پارٹی کے ٹکٹ کے لئے کوشاں ہے تاہم ثناء اللہ چارباغ بھی اس حلقے سے ٹکٹ کے حصول کے لئے کافی سرگرم دکھائی دے رہے ہیں اور جے یوآئی ف کے حالیہ گراسی گراونڈ جلسے میں ثناء اللہ جلسے کے دوارن پیش پیش رہے یہاں بھی جے یوآئی ف کو ٹکٹ کے تقسیم میں اختلافات کا سامنا ہوسکتا ہے اب آتے ہیں پی پی پی کے طرف جہاں دیگر حلقوں پر پارٹی کارکن اور عہدیدار میں ٹکٹ کے تقسیم پر اختلافات پائے جارہے ہیں وہی ٹکٹ کے تقسیم پر پی کے 84میں بھی پہلی دفعہ تین اُمیدوار سامنے آئے ہیں جبکہ پی کے84میں قومی وطن پارٹی کے جانب سے بھی دو اُمیدوار نصراللہ اور ڈاکٹر جاویدپارٹی ٹکٹ کے متمنی ہے یہا ں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پی پی پی اور قومی وطن پارٹی کے طرف سے اس حلقے سے ماضی میں ایک ایک اُمیدوار نامزد تھے لیکن اس دفعہ یہاں سے دونوں پارٹیوں کے ایک سے زائد اُمیدوار پارٹی ٹکٹ کے حصول کے لئے کوشاں ہے اسی طرح پی ٹی آئی میں بھی آئندہ انتخابات کے لئے پارٹی ٹکٹوں کے حصول کے تمام نشستو ں پر موجودہ ممبران اسمبلی کے علاوہ ہر حلقے میں ایک سے زائد اُمیدوار میدان میں اُترنے کے لئے تیاریوں میں مصروف ہیں ویسے تو پی ٹی آئی میں سوات کے سطح پر تمام حلقوں میں ایک سے زائد اُمیدوارانتخابی اُکھاڑے میں اُترنے کے متمنی ہیںیہاں ہم بات پی کے 84اوراین اے 30کی کرینگے جہاں سے 2013 ء میں پی کے 84میں اے محمود خان نے انتخابات لڑکر کامیابی حاصل کرلی تھی جبکہ این ا ے تیس سے سلیم الرحمان نے کامیابی حاصل کی تھی لیکن اس دفعہ محمود خان این اے تیس اور پی کے 84دونوں حلقوں سے انتخابات میں حصہ لینے کے متمنی ہے یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ اگرپارٹی محمود خان کو این ا ے تیس کے لئے ٹکٹ دیتی ہے تو پی کے 84سے اُس کا بھائی احمد خان جو کہ اس وقت ضلعی کونسلر ہیں سے عام انتخابات کے لئے اُمیدوار ہوسکتے ہیں یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ 2013 ء کے عام انتخابات میں این ا ے تیس سے انتخابات لڑنے والے سلیم الرحمان جو کہ ٹکٹ ملنے کے لئے کافی مطمئن ہے محمود خان کے این اے تیس سے انتخابات لڑنے کی صور ت میں اُس کی پوزیشن کیا ہوگی یہاں پی کے 84اور این اے 30 کے لئے کارکن اس بات پر بھی چہ میگوئیاں کررہے ہیں کہ پی کے 84میں محمود خان نے پارٹی کو صرف اپنے خاندان تک محدود کررکھا ہے جس کی مثال وہ عبداللہ خان جو کہ محمود خان کے چھوٹے بھائی اور احمد خان کے طورپر دے رہے ہیں کہ خود محمود خان اسی حلقے سے وزیر ہے اُس کا ایک بھائی تحصیل ناظم اور دوسرا بھائی ضلعی کونسلر ہیں اور اب وہ این اے تیس اور پی کے 84میں بھی آنے والے انتخابات کے لئے ٹکٹوں کو اپنے خاندان کے لئے حصول کی راہ ہموار کرتے نظر آرہے ہیں محمود خان کے پی کے 84میں سیاسی پالیسی جس سے پہلے ہی پارٹی کارکن خوش دکھائے نہیں دے رہے اب اس متوقع فیصلے سے پارٹی کارکنوں میں مزید مایوسی اور بے چینی کے سائے گہرے ہوجانے کا قوی امکان ہے ادھر جے یوآئی ف اور جے آئی کے مابین 2018 ء کے عام انتخابات سے پہلے سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسمنٹ کی بازگشت سنائی دی جارہی ہے اور زرائع کے مطابق اس کے لئے بھی ضلع سوات کے سطح پر ایک فارمولا طے پاجانے کا قوی امکا ہے جس کا صرف اعلان کرنا باقی ہے اورطے پاجانے والے فارمولے کے تحت جے آئی نے جے یوآئی ف کو سوات کے دونوں قومی سیٹوں اورتین صوبائی سیٹوں پی کے 86,81,84کے بدلے چار پی کے 80,82,83,85کی نشستیں لینے کا ڈیمانڈ کردیا ہے زرائع کے مطابق اس فارمولے پردونوں جماعتوں کے صوبائی ومرکزی قائدین کو بھی اعتما د میں لینے کے لئے اُن کو آگاہ کردیا ہے یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہیں کہ جے آئی نے 80,82,83,85 کے لئے اپنے اُمیدوار نامزد کردیئے ہیں جن میں محمد آمین کو پی کے 80،حاجی رحمت علی کو پی 82 ،حافظ اسرار کو پی کے 83اور بخت آمین کریمی کو پی کے 85کے لئے اُن کے نام اعلان کئے ہیں تاہم جب اس سلسلے میں جے یوآئی ف کے جانب سے اس متوقع سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسمنٹ کے بارے پوچھا جاتا ہے تو وہ اس قسم کے کسی بھی فارمولے سے لاعلمی اور اس اتحاد کو غیر فطری قراردے رہے ہیں۔
سوات میں عام انتخابات سے قبل کن کن سیاسی جماعتوں کے مابین کن کن شرائط پرانتخابی اتحاد ہوگا یہ سارا نقشہ آئندہ ہونے والے عام انتخابات سے قبل پوری طرح واضح ہوجائیگا لیکن فی الوقت سوات کے تما م سیاسی جماعتوں کے اندر عہدیداروں اور پارٹی کارکنوں کے مابین پارٹی ٹکٹوں کے حصول کے لئے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے لئے دوڑ جاری ہے ہر کوئی پارٹی ٹکٹ لینے کے کوشاں اور دوسرے کو اس مقابلے میں زیر کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانے میں مصروف ہے سیاسی جماعتوں میں پارٹی ٹکٹ کے حصول کیلئے جاری رسہ کشی میں تمام سیاسی جماعتوں کے اندر ٹوٹ پھوٹ اور اختلافات جو اب پارٹیوں کے پارلیمانی بورڈز کے جانب سے پارٹی ٹکٹ ہولڈرز کے ناموں کے اعلان تک مخفی ہے لیکن یہ اختلافات ٹکٹوں کے غیر منصفانہ تقسیم کے بعد پارٹی ٹکٹ ہولڈروں اور ٹکٹ کے خواہشمندمستر د شدہ متمنی اُمیدواروں کے مابین آنے والے انتخابات میں ایک دوسرے کے خلاف کھل کر میدان میں آنے کے قوی امکانات ہیں جس کا واضح ثبوت پی کے 85میں میاں شرافت علی کا مسلم لیگ ن کے جانب سے ٹکٹ کے تقسیم میں نظر انداز کرنے اور جے یوآئی ف کے پی کے 84میں قاری رحیم اللہ کے پارٹی امارات اور بنیادی رکنیت سے نکالنے کے شکل میں سامنے آئے ہیں جو کسی صورت سیاسی جماعتوں کے لئے فائدہ مند نہ ہوگااور جس کا سارا نقصان تمام سیاسی جماعتوں کو ہوگا اسی وجہ سے آنے والے عام انتخابا ت میں تمام سیاسی جماعتوں کے پارٹی قائدین کے لئے نہ صرف عام انتخابات میں دیگر حریف جماعتوں کا انتخابی میدان میں مقابلہ ایک بڑاچیلنج ہے بلکہ پارٹی ٹکٹوں کے تقسیم کے لئے بنائے جانے والے پارلیمانی بورڈز کیلئے پارٹی ٹکٹوں کا منصفانہ تقسیم بھی کسی چیلنج سے کم نہیں۔
2,592 total views, 2 views today