تحریر؛۔ امجد علی سحابؔ
سوات کے دارلخلافہ مینگورہ سے محض چھے سات کلومیٹر کی مسافت پر تاریخی گاؤں سپل بانڈئ ایک پہاڑی کے اوپر واقع ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق لفظ ’’سپل‘‘ کے معنی نیچے (لاندے) کے ہیں۔ کیوں کہ اس سے اوپر بھی ایک بانڈہ واقع ہے۔ اس لیے اسے سپل بانڈئ یعنی ایسا گاؤں یا بانڈہ جو نیچے واقع ہو، کہا جاتا ہے۔ سپل بانڈئ کئی لحاظ سے انفرادی حیثیت کا حامل گاؤں ہے۔ مثلاً:- یہاں کوئی غیر آباد نہیں بلکہ اس گاؤں کی تمام تر آبادی ایک ہی دادا؍ پردادا کی لگائی ہوئی پود ہے۔ گاؤں کے ایک مشر عزیز خان (جوکہ ری ٹائرڈ ہیڈ ماسٹر ہیں) نے گاؤں کے حوالے سے روزنامہ چاند اور زماسوات ڈاٹ کام کی ٹیم کو تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’اس درہ میں دو ہی گاؤں ہیں، ایک سلام پور اور دوسرا سپل بانڈء۔ دونوں گاؤں کے مکینوں کا تعلق ایک ہی خاندان (اخوند خیل میاں گان) سے ہے۔ تاریخی حوالے سے اس گاؤں کی اپنی ایک جداگانہ حیثیت ہے۔ہم والئی سوات کے پڑوسی تھے۔ ہمارے بزرگان کا ان سے واسطہ رہا ہے۔ یہاں ایک ٹھیک ٹھاک قلعہ تھا، باقاعدہ مورچے بھی تھے مگر مرورِ ایام کے ساتھ ساتھ وہ سب کچھ معدوم ہوتا گیا اور آج نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ اب اس کے آثار مشکل سے دکھائی دیتے ہیں۔
گاؤں سپل بانڈئ سوات کا واحد گاؤں ہے جہاں مردانہ و زنانہ تعلیم کی شرح اسی فی صد ہے۔‘‘ گاؤں کے اندر گھومتے گھامتے عصر کی نماز کا وقت ہوا۔ قارئین کو شائد یہ جان کر حیرانی ہو کہ دو سو خاندانوں اور تقریباً بیس بائیس ہزار کی آبادی پر مشتمل اس پورے گاؤں میں ایک ہی مسجد ہے۔ میں جب اس کے اندر داخل ہوا، تو مجھے عجیب سا سکون محسوس ہوا۔ مسجد کا طرزِ تعمیر قدیم اور جدید فن تعمیر کا حسین امتزاج تھا۔ عصر پڑھنے کے بعد گاؤں کے مشران گول دائرے میں بیٹھ گئے اور روزنامہ چاند اور زما سوات ڈاٹ کام کی پوری ٹیمسمیت دیگر آئے ہوئے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے بعد سب کو چائے کی دعوت دی گئی۔ گرم گرم چائے کی چسکی لیتے ہوئے میں نے مجمع سے پوچھا کہ اس مسجد کی تاریخ پر اگر روشنی ڈالی جائے، تو از چہ بہتر؟ مشر عزیز خان ایک بار پھر بلا تامل کچھ یوں گویا ہوئے: ’’ یہ مسجد جہاں ابھی آپ نے عصر پڑھی، کوئی تین سو پندرہ سال پرانی مسجد ہے۔اس مسجد کی کئی خوبیاں ہیں جو آپ کو ورطۂ حیرت میں ڈالنے کے لیے کافی ہیں۔ سب سے بڑی بات، یہ عین گاؤں کے وسط میں واقع ہے اور صاف اور میٹھے پانی کا گزر بھی ایک نالے کی شکل میں عین اسی مسجد سے ہوتا ہے۔چوں کہ پورے گاؤں کی یہ واحد مسجد ہے، اس لیے پچھلے تین سو پندرہ سالوں سے اس گاؤں کے اتفاق و اتحاد اور یگانگت پر آج تک آنچ بھی نہیں آئی ہے۔‘‘ روزنامہ چاند اور زما سوات ڈاٹ کام کی ٹیم کو بتایا گیا کہ گردش ایام کے ساتھ ساتھ مسجد کی حالت خستہ ہوتی گئی اور پورے گاؤں کا فیصلہ تھا کہ اس کی پرانی حالت کو ہر گز نہیں چھیڑا جائے گا۔ کیوں کہ تاریخی حوالے سے اس کی جداگانہ حیثیت کو نقصان پہنچنے کا احتمال تھا۔ اس حوالے سے سوات شرکتی کونسل (Swat Participatory Council) کے مینیجنگ ڈائریکٹر محمد روشن سے بات ہوئی اور انھوں نے مسجد کی دوبارہ آبادکاری کا بیڑا اٹھانے کی حامی بھری۔خوش قسمتی سے وہ بھی عصر پڑھنے آئے تھے۔
ہماری تنظیم ’’ایس پی سی‘‘، شوکت ایسوسی ایٹس اور گاؤں نے مل کر اس کی دوبارہ آباد کاری کی ہے۔ اس کے لیے ہم نے وسائل ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ اسے آپ اللہ تعالیٰ کی مہربانی کہہ سکتے ہیں کہ اس حوالے سے نیدر لینڈ (Netherland)کے ایک ادارے پرنس کلاس فنڈ (Prince Class Fund) نے ہمیں بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی اور یوں ہم نے اپنے ورثے کو محفوظ کرنے کی ٹھان لی۔ پھر سوال اٹھا کہ اس تین سو پندرہ سالہ پرانے ورثے کی کون سی شکل کو ہم محفوظ کریں، تاکہ آنے والی نسلیں اپنے تہذیب و ثقافت سے بے بہرہ نہ ہوں۔ مسجد کا ماہرانہ جائزہ لیا گیا اور ٹیم اس نکتے پر پہنچی کہ گاؤں کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر اس میں اولاً توسیع کی جائے اور ثانیاً اس میں تین سو پندرہ سال پہلے جتنا لکڑی کا کام ہوا ہے، اس کو محفوظ کیا جائے۔ایک خطرہ یہ لاحق تھا کہ توسیعی کام میں کہیں مسجد کی پرانی اور تاریخی حیثیت کو گزند نہ پہنچے۔ اس خطرے کو مد نظر رکھتے ہوئے کراچی سے ایک کنزرویشنسٹ ’’سمیتا احمد‘‘ کو بلوایا گیا اور ان کے زیر نگرانی ’’شوکت ایسوسی ایٹس‘‘ نے مسجد کی دوبارہ آبادکاری کا کام بطریق احسن انجام دیا۔‘‘ مسجد میں لکڑی کا کام دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔ اتنے پرانے زمانے میں کمال مہارت کے ساتھ لکڑی میں کندہ کاری کے ذریعے نقش و نگار بنانا واقعی کسی شاہ کار سے کم نہیں۔ گاؤں کے ایک اور مشر ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر محمد دوران نے مسجد میں استعمال ہونے والی لکڑی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ’’مسجد کی تزئین و آرائش میں استعمال ہونے والی لکڑی زیادہ تر ’دیار‘ کی ہے۔ مسجد کے محراب میں تین قسم کی لکڑی استعمال ہوئی ہے۔ استعمال شدہ کالے رنگ کی لکڑی کوعرف عام میں ’’بنڑیا‘‘ کہتے ہیں، جو کہ اس علاقہ کی لکڑی نہیں ہے اور یہ خاص طور پر موضع ملم جبہ سے منگوائی گئی ہے۔ اس میں دوسری قسم ’دیار‘ کی لکڑی ہے۔تیسری قسم اس میں ’’چیڑھ‘‘ کی لکڑی استعمال ہوئی ہے، جسے سوات کی سب سے بہترین لکڑی ہونے کا شرف حاصل ہے۔ تقریباً تین سو پندرہ سال گزرنے کے بعد بھی اس مسجد میں استعمال ہونے والی لکڑی موجودہ دور میں استعمال ہونے والی دیگر لکڑیوں سے بدرجہا بہتر اور مضبوط ہے۔ یہاں کی روایات کے مطابق مسجد کی تعمیر میں لکڑی کا استعمال زیادہ کیا گیا ہے۔
یہاں روائتی طرز تعمیر میں لکڑی، پتھر اور گارے کا ہی زیادہ تر استعمال ہوتا ہے اور یہی کچھ ہماری روایات ہیں۔‘‘ مجمع میں بیٹھے ایک اور مشر ’’امیر مشال‘‘ نے گاؤں کے شجرۂ نسب پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’گاؤں سپل بانڈئ میں تین خاندانوں پر مشتمل لوگ رہتے ہیں۔ پورا گاؤں ’’اخوند درویزہ باباؒ ‘‘ کی اولاد ہے۔ تینوں خاندان ’’برٹل میاں گان‘‘، ’’کوزہ خونہ میاں گان‘‘ اور ’’بنڑ میاں گان‘‘ کے ناموں سے مشہور ہیں۔‘‘ گاؤں سپل بانڈئ کی یہ مسجد اپنی جداگانہ تاریخی حیثیت کے حوالے سے مرجع خلائق ہے اور دور دور سے لوگ اس مسجد کو دیکھنے اور یہاں روحانی فیوض حاصل کرنے کی خاطر حاضری لگایا کرتے ہیں۔ ایک سیاح فضل مولاالمعروف ’خان جی‘ ساکن کوکارئ سے جب اس حوالے سے بات ہوئی تو انھوں نے روزنامہ چاند، زما سوات کی ٹیم کو اپنے احساسات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے اس مسجد کے حوالے سے سنا تھا اور میری اشتہا تھی کہ جلد از جلد یہاں حاضر ہوکر روحانی سکون حاصل کرلوں۔ زندگی میں پہلی بار مجھے احساس ہو رہا ہے کہ میں یہاں ہی پڑاؤ ڈالوں اور کہیں اور نہ جاؤں۔ اس مسجد کی قدیم طرز تعمیر کو محفوظ کرنا واقعی بڑے دل گردے کا کام ہے۔ میں اس عظیم کام کو بخوبی انجام دینے والی تنظیموں اور سپل بانڈئ کے رہنے والوں کا ممنون ہوں کہ انھوں نے اتنا بڑا کام انجام دیا۔‘‘ سیاحتی مقام مرغ زار جاتے ہوئے راستے میں ہی دائیں طرف سرسبز و شاداب پہاڑی کے اوپر گاؤں سپل بانڈئ واقع ہے۔ سیاح ایک تیر سے دو شکار کر سکتے ہیں، یعنی اپنی سیر کے ساتھ ساتھ وہ یہاں کی تاریخی مسجد کا نظارہ کرکے روحانی فیض بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ ہُم خرما وہُم ثواب۔
3,935 total views, 4 views today