سوات یونی ورسٹی کا دو روزہ ایکسپو منگل کے روز شروع ہوا۔ یونی ورسٹی کا یہ تیسرا ایکسپو تھا، جب کہ نئی بلڈنگ میں یہ دوسرا ایکسپو انتظامیہ کی طرف سے منعقد کیا گیا۔ اس سے پہلے سوات کے تاریخی ودودیہ ہال سیدو شریف میں پہلا ایکسپو منعقد کیا گیا تھا ، جس میں بڑی تعداد میں طالب علموں نے شرکت کی تھی۔ سوات یونی ورسٹی کے حالیہ ایکسپو میں ملک بھر سے تقریباً بیس مختلف سرکاری یونی ورسٹیوں نے شرکت کی اور اپنی اسٹڈیز کے متعلق اسٹالز لگائے، لیکن اس سال سوات یونی ورسٹی انتظامیہ نے ایکسپو کے لیے کوئی خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے تھے۔ ایک تو ایکسپو کی جگہ اتنی کم تھی کہ حبس کا ماحول پیدا ہوگیا تھا اور زیادہ دیر ایکسپو میں گزارنا مشکل ہورہا تھا، جب کہ دورویہ لگائے گئے اسٹالوں میں پیدل چلنے کی جگہ اتنی کم تھی کہ طلبہ و طالبات کو آنے جانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا تھا۔ سوات یونی ورسٹی کے حالیہ ایکسپو میں چند ایسے اسٹالز لگائے گئے تھے، جس میں طالب علموں اور دیگر لوگوں نے خوب دل چسپی لی، اس میں سب سے بہتر اسٹال انوائرمینٹل سائنسز کا تھا، جنھوں نے سوات کے ماضی، حال اور مستقبل کا بہترین ماڈل ڈیزائن کیا تھا اور اس ڈیزان کو بہتر انداز میں طلبہ و طالبات اور دیگر لوگوں کو سمجھایا گیا کہ سوات ماضی میں کئی تہذیبوں کا مسکن رہا ہے۔ اس کی خوب صورتی اور دلکشی میں سیاح بڑی دل چسپی لیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سوات کا مستقبل بھی ڈیزائنوں کے ذریعے نمایاں کیا گیا تھا کہ سوات میں انڈسٹریل دور شروع ہوچکا ہے۔ اگراس دور میں احتیاطی تدابیر نہیں اپنائی گئیں، تو سوات اپنی خوب صورتی کھو بیٹھے گا۔یہاں کے باغات ، فصلیں اور پانی متاثر ہوگا۔ اس طرح سوات کی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے ایک بہترین حجرہ بھی بنا گیا تھا۔ اس اسٹال میں پختونوں کی ثقافت میں حجرہ کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کیا گیا تھا۔ طالب علموں نے حجرہ میں رباب، روائتی طبلہ، گھاس اور چارپائی جیسی اشیاء رکھی تھیں۔ جس میں مشران کو بھی بٹھایا گیا تھا، جب کہ ایک طرف بچوں کو پڑھانے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ اس حجرہ میں پختونوں کو امن پسند اور تعلیم پسند دکھایا گیا۔ اس حجرے کو سب سے زیادہ لوگ دیکھنے آتے۔ حجرہ کے ساتھ ہی رباب کی مسحور کن آواز پر طالب علم روایتی گانے گاتے اور ساتھ ڈانس کرتے تھے۔ایک شور مچا تھا جو کہ کافی دل چسپ تھا۔ ایکسپو میں جرنلزم ڈی پارٹمنٹ کے طلبہ و طالبات بھی کسی کم نہیں تھیں۔ انھوں نے بھی ایک اسٹال لگایا تھا، جس میں سوات اور پورے ملاکنڈ ڈویژن کی نایاب تصاویر لگائی گئی تھیں۔ ا ن تصاویر میں سوات کی حسین وادیوں، تہذیب، ثقافت اور تعلیم کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی تھی، جس میں طلبہ وطالبات سو فی صد کامیاب رہیں۔ مذکورہ اسٹال میں مجھے ایک چیز کافی دل چسپ لگی۔ جرنلزم ڈی پارٹمنٹ کے طلبہ وطالبات اپنے اسٹال میں بیٹھے آنے والے طالب علموں کو ان تصاویر کے حوالے سے بریفنگ دیتے تھے۔ میز پر ایک فائل رکھا گیا تھا جس میں مہمان اپنے تاثرات لکھتے تھے۔ مجھے پورے ایکسپو میں کہیں اور کوئی ایسا فائل نہیں ملا، جہاں طالب علم اور مہمان اپنے تاثرات لکھ دیتے، ایک اور چیز جو جرنلزم ڈی پارٹمنٹ کی سب سے بہترین تھی، وہ اس ڈی پارٹمنٹ کے چیئرمین خالد خان اور رفیع اللہ صاحب کی اپنے طلبہ کے لگائے گئے اسٹال میں موجود گی تھی۔ مجھے کسی اور ڈی پارٹمنٹ کا چیئرمین نظر نہیں آیا، جو اپنے ڈی پارنمنٹ کے اسٹال میں موجود ہو۔ اس کے علاوہ ڈینگی آگاہی کے حوالے سے بھی ایک چھوٹا اسٹال لگا تھا، جو اس بات کی نشان دہی کررہا تھا کہ ہمیں محتاط رہنا چاہیے اور ڈینگی مچھر کو کنٹرول اور خاتمہ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
خیبر میڈیکل یونی ورسٹی کے طلبہ کا لگایا گیا اسٹال بھی قابل تعریف رہا۔ انھوں نے اپنے اسٹال میں معذور افراد کے زیر استعمال چیزیں رکھی تھیں اور اس اسٹال میں سنجیدہ طالب علم کھڑے تھے، جو ہر آنے جانے والے کو اسٹال میں رکھے گئے سامان کے حوالے سے لوگوں کو آگاہ کررہے تھے۔
سوات یونی ورسٹی ایکسپو میں روایتی کھانوں اور مشروبات کے اسٹالز بھی لگے تھے۔ ان کو ایک الگ جگہ دی گئی تھی، جہاں بہت رش دیکھنے کو ملتا تھا۔ اتنا رش تھا کہ طلبہ اور طالبات ایک دوسرے کو راستہ بھی نہیں دے سکتے تھے۔ یہاں ہم نے سوات کی راؤیتی لسی (شوملے ) پئے، اور اپنی پیاس بجھائی۔ یہاں سے ہوتے ہوئے ہم کپڑوں کے اسٹال پر آئے، جہاں طلبہ و طالبات اکھٹے بیٹھ کر صرف ہنسی مذاق کررہے تھے۔ ایک بار رک گئے کہ کوئی طالب علم ہمارے طرف دیکھ لے اور ہمیں وہ اپنے اسٹال کے متعلق کچھ بتائے، لیکن وہ اپنے گپ شپ میں اتنے مصروف تھے کہ ہمیں وہاں سے نامراد لوٹنا پڑا۔ کچھ یہی صورت حال دوسرے لوگوں کی بھی تھی۔ وہ بھی ہماری طرح مایوس لوٹ رہے تھے۔
ایک وقت ایسا بھی آیا جب مجھے لگا کہ یہ سوات یونی ورسٹی میں ایکسپو نہیں ہو رہا بلکہ کوئی ماڈلنگ کا میدان سجا ہے۔ جہاں نوجوان طلبہ وطالبات صرف ماڈلنگ کرنے، سیکھنے اور سکھانے آئی ہوں۔ ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ طلبہ وطالبات کی اکثریت کو ایکسپو سے کوئی غرض نہیں ہے اور ان کا مقصد گپ شپ لگانا اور ٹائم پاس کرنا ہے، جو کہ افسوس ناک ہے۔
سوات یونی ورسٹی کے ایک پروفیسر صاحب سے میں نے پوچھا کہ سوات یونی ورسٹی جو ایکسپو منعقد کر رہی ہے، اس سے یونی ورسٹی اور طلبہ و طالبات کو کتنا فائدہ مل سکتا ہے؟ انھوں نے کہا کہ ایکسپو کا بنیادی مقصد طلبہ و طالبات کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجاگر کرنا ہے۔ تاکہ جب وہ عملی میدان میں آئیں تو ان کو مشکلات کا سامنا نہ ہوں۔انھوں نے کہا کہ اس ایکسپو میں مختلف چیزوں کی نمائش کی گئی ہے، جنھیں طلبہ طالبات نے خود بنایا ہے اور اس کی اہمیت بھی وہ خود بیان کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ صرف پڑھانے سے نوجوان نہیں سیکھتا بلکہ پڑھانے کے بعد اس کو عملی جامہ پہنانا کامیابی کی علامت ہے۔
طلبہ وطالبات نے ایکسپو میں فوٹوگرافی، ویڈیو، بیت بازی، کمپیوٹرگیمزسمیت مختلف مقابلوں میں حصہ لیا۔ مجموعی طورپرایکسپو میں بہترکارکردگی کامظاہرہ کرنے پراسلامیہ کالج یونی ورسٹی پشاورنے پہلی پوزیشن حاصل کرلی۔ انفرادی مقابلوں میں حسن قرأت میں عبدالولی خان یونی ورسٹی مردان کے آصف خان، نعت خوانی میں یونی ورسٹی آف ملاکنڈ کے عمران خان، تقریری مقابلے میں اسلامیہ کالج یونی ورسٹی پشاورکے مزمل خان، مشاعرے میں یونی ورسٹی آف سوات کے ابریزخان، بیت بازی میں اسلامیہ کالج یونی ورسٹی پشاور، سافٹ وئیرپراجیکٹ میں یونی ورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور، ہارڈویئر پراجیکٹ میں غلام اسحاق خان انسٹی ٹیوٹ صوابی، سپیڈ پروگرامنگ میں یونی ورسٹی آف سوات کے سید عدنان شاہ، ای گیمزکے مقابلے میں یونی ورسٹی آف سوات کے تیمورشاہ، وال گرافٹی میں ہنرکندہ سوات کے محبوب علی، ویڈیو میں ڈی پارٹمنٹ آف میڈیا اینڈ کمیونی کیشن اسٹیڈیز یونی ورسٹی آف سوات کے نیاز احمد خان اور فوٹو گرافی میں رفاہ انٹرنیشنل یونی ورسٹی اسلام آبادکے یاسرفرید نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔
اختتامی تقریب کے مہمان خصوصی سیدو میڈیکل کالج کے پرنسپل اورسیدوگروپ آف ٹیچنگ اسپتال کے چیف ایگزیکٹوپروفیسرڈاکٹرتاج محمدخان تھے جب کہ اس موقع پر یونی ورسٹی آف سوات کے رجسٹرار محبوب الرحمان، پرووسٹ فداحسین سمیت دیگر فیکلٹی ممبران اورطلبہ وطالبات بھی ایک بڑی تعدادمیں موجودتھے۔
سوات یونی ورسٹی کا ایکسپو پچھلے سال کے مقابلے میں میرے خیال میں اتنا کامیاب اور پر اثر نہیں تھا ۔ اس کی بنیادی وجہ چند چیزیں تھیں جن میں جگہ کی تنگی، اس کے علاوہ اسٹالوں کو اتنی نزدیک بنایا گیا تھا کہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ پہلا اسٹال کب ختم ہوا اور دوسرا کب شروع ہوا۔ کہاں سے ایکسپو میں لگائے گئے اسٹالز شروع ہوتے ہیں اور کہاں ختم؟ کہیں کوئی گائیڈ نہیں تھا۔ کہیں کوئی انتظامیہ کی طرف ایسا نمائندہ دیکھنے کو نہیں ملا جو طلبہ وطالبات کی حرکات پر نظر رکھے، جس نے جو چاہا کرلیا۔ کو ئی پوچھنے والا نہیں تھا۔
اس سال تو جو ہوا سو ہوا، لیکن آئندہ کے لیے سوات یونی ورسٹی کی انتظامیہ کو ان چیزوں پر نظر رکھنا چاہیے۔ کیوں کہ سوات کی اپنی روایات اور اقدار ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جائے، جو سوات یونی ورسٹی کے تقدس پر حرف لائے۔
اب پچھتائے کیا ہووت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت کے مصداق پھر ہاتھ ملتے نہ رہ جائیں۔
1,462 total views, 2 views today