تحریر ؛۔ سلیم اطہر
حکومت خیبر پختونخوا ہ کیجانب سے سوات کو دواضلاع میں تقسیم کرنے کے لئے تیاریاں دوبارہ شروع کردی گئی ،وزیر اعلی پرویز خٹک نے مدین میں جلسے عام سے خطاب میں اپر سوات ضلعی کی منظوری دیکر نوٹیفیکیشن جلد جاری کرنے کا اعلان کردیا ،سوات کے سیاسی جماعتوں،تاجربرادری اور عوام سوات کو دواضلاع میں تقسیم کرنے کے فیصلے کو مستر د،تاجر برادری نے بھر پورمزاحمت کا اشارہ دیدیا ،ضلع کو دوحصوں میں کے تقسیم پر صوبائی حکومت کے ممبران اسمبلی اور سیاسی جماعتیں بھی دوحصوں میں بٹ گئے ،ضلع سوات جو کہ آبادی کے لحاظ سے جسے اس وقت خیبر پختونخواہ کے تیسرے بڑے ضلع اور ملاکنڈ ڈیوثرن کا سب سے بڑے ضلع کی حثیت حاصل ہے آج کل صوبے میں برسراقتدار تحریک انصاف کی حکومت اس ضلع کو اضلاع میں تقسیم کرنے کے حوالے سے تیاریاں کررہی ہے جسکااعلان اُنہوں نے مدین کے جلسے میں کیا اور او اسکے لئے پی ٹی آئی کے پی کے 86 کے رکن صوبائی اسمبلی ڈاکٹر حیدر علی ،حلقہ پی کے 85کے حال ہی شامل ہونے والے شرافت میاں ،ایم این اے سلیم الرحمان ،ایم پی ایز محمود خان اور جعفرشاہ نے اس بارے وزیراعلی سے درخواست کی ہے 1998 ء سے قبل آج کے دور کے تین اضلاع ضلع بونیر ،ضلع شانگلہ ،ضلع کوہستان جو کہ اُس وقت ضلع سوات کا حصہ تھے اور سوات کے تحصیل ہواکرتے تھے کو ماضی میں بھی ایک سیاسی سازش کے تحت سوات کو تقسیم کیا گیااور سوات کے ان تینوں تحصیلوں بونیر ،شانگلہ اور کوہستان کو اضلاع میں تقسیم کرکے ضلع سوات کے عوام کے ساتھ زیادتی روارکھی اب سوات کے سرزمین کے خلاف دوبارہ سیاسی سازش تیار کی گئی ہے اور سوات کو مزید دواضلاع میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.
ضلع سوات جس کی آبادی 20لاکھ سے زائد ہے اس کے سات تحصیل ،تحصیل بابوزی ،تحصیل بریکوٹ ،تحصیل کبل ،تحصیل چارباغ ،تحصیل بحرین ،تحصیل مٹہ اور تحصیل خوازہ خیلہ ہیں پر مشتمل ہیں ڈاکٹر حیدرعلی جن تحصیلوں پر مشتمل دوسرا ضلع چاہتا ہے اُن میں تحصیل مٹہ ،تحصیل ،بحرین اور تحصیل چارباغ شامل ہیں جبکہ باقی ماندہ تین تحصیلوں کو وہ دوسرا ضلع بنانے کیلئے کوشاں ہیں لیکن اس دفعہ سوات کے عوام ،سیاسی جماعتیں اور تاجربرادری چند سیاسی مفاد پرستوں کے ان عزائم کو کبھی بھی پورا نہیں ہونے دینگے سوات سے تعلق رکھنے والے عوامی حلقوں ،تاجر وسیاسی برادری کا خیال ہے کہ ماضی میں سوات کے جن تین تحصیلوں جن کو آج ضلع بونیر ،شانگلہ اور ضلع کوہستان کا درجہ دیا گیا ہے اب وہاں پر وسائل موجود نہیں ہے اگر شانگلہ ،کوہستان اور بونیر میں بات تعلیم کی کی جائے تو بونیر جو کہ 1998 ء میں سوات سے جدا ہوکر الگ ضلع بن گیا تھا آج بھی سوات بورڈ کے ساتھ آٹیچ ہے اسی طرح 2003 ء میں ضلع کی حثیت پانے والے ضلع شانگلہ کی تعلیمی بورڈ بھی سوا ت ہی ہے اور اس ضلع کے 80فیصد مریض آج بھی سوات کے ہسپتالوں میں زیر علاج رہتے ہیں ان سب باتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ 18سال بعد اگر ضلع بونیر اور شانگلہ کو وہ سہولیات حاصل نہیں جو کہ ایک ضلع کے عوام کے لئے ضروری ہوتے ہیں اگر سوات کو بھی دو اضلاع میں تقسیم کیا جائے تو اس کا کوئی بڑا فائدہ نہیں ہوگا بلکہ اس سے سوات دوحصوں میں تقسیم تو ہوجائیگا لیکن سوات کے عوام کے مسائل جو ں کے توں رہینگے یہاں میں اپنے تحصیل مٹہ ،بحرین اور خوازہ خیلہ کے لوگوں سے اتنہائی معذرت کے ساتھ کہ وہ جو اس ضلع کے بنانے کے لئے انتہائی متحرک اور اس کے وہ خواہشمند ہیں سے عرض کرناچاہتا ہوں کہ میری اس تحریر کو وہ تعصب کی نظر سے نہ دیکھیں کیونکہ ہم ان علاقوں کے عوام کے ترقی کے دشمن نہیں لیکن ہم بھی چاہتے ہیں کہ یہ علاقے اور اُن علاقوں میں بسنے والے عوام ترقی کریں لیکن یہاں ہم کو ضلع سے سوات علحیدہ ہونے والے اُن اضلاع پردل کھول کر نظر دوڑانی چاہئے اور اُن اضلاع کا جائزہ لیناچاہئے کہ سوات سے علحیدہ ہونے کے بعد اُن کو کیا ملا صرف انتظامی اُمور کے لئے چند دفاتر اور آفیسرز کی تعیناتی کو ہم ترقی کہ سکتے ہیں.
میرے نظر میں یہ ترقی ہرگز نہیں ان علاقوں کے عوام کی یہ سوچ کہ اُن کے علاقوں کی پسماندگی کی وجہ صر ف ایک ضلع کا ہونا ہے لیکن ایساہرگز نہیں اُن کی ترقی سے محرومی کے ذمدار اُن کے نااہل ممبران صوبائی وقومی اسمبلی ہیں اور اس نکتے پربالائی علاقوں کے مکینوں کو سوچنا چاہئے کہ مردان اور پشاور کے اضلاع کو کیوں تقسیم نہیں کیا جارہا اُس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اُن اضلاع کے طول وعرض اور ہر چھوٹے بڑے علاقے میں یکساں طورپر ترقیاتی فنڈز تقسیم کئے جاتے ہیں اور اُن اضلاع کے تمام علاقوں اورتحصیلوں میں اُن علاقوں سے منتخب شدہ ممبران صوبائی وقومی اسمبلی اپنے اپنے حلقوں کے ترقی کے لئے نہ صرف اپنے فنڈز صوبائی حکومت سے حصول کرتے ہیں اور وہاں پر ترقیاتی کام کرتے ہیں بلکہ سنیٹرز سے بھی اُن کے فنڈز لیکر اپنے علاقوں میں ترقی یاتی کام کروائے جاتے ہیں ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ والی سوات کے بعد ان بالائی علاقوں کو وہ ممبران نصیب نہ ہوسکیں جو اُن تین حلقوں میں عوام کی معیارزندگی کو سنوارتے اوراپنے ان حلقوں میں ترقی یاتی کام کرواتے اور اب یہ ناکام ممبران اسمبلی اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے میرے اور آپ کے اس ضلع کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے درپے ہیں اسلئے ان حلقوں کے عوام میرے اس باریک نکتے پر غور کریں اورہمارے ا س ضلع کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے سے پہلے تحمل سے سوچ کر فیصلہ کریں ۔
ان سب حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے سوات کے سیاسی وتاجربرادری نے موجود ہ حکومت کے اس فیصلے کی بھر پور مخالفت کرنے کا اعلان کردیا ہے اس سلسلے میں جب سوات ٹریڈرز فیڈریشن کے صدر عبدالرحیم نے کہا کہ سوات کا ایک تاریخی پس منظر اور اپنا ایک الگ حثیت ہے جس کو برقرار رکھنا ہم سب کی مجموعی ذمداری ہے اُنہوں کہاکہ ہم اس فیصلے کی بھر پور مخالفت کرتے ہیں اور کرینگے اُنہوں نے کہا کہ 1998 ء میں بونیر بھی ہم سے علحیدہ کیا گیا او ربعد میں شانگلہ کو بھی الگ کردیا گیا لیکن ان کا کیا فائدہ ہوا اُنہوں نے کہا کہ اب بھی ان اضلاع کا بوجھ ہمارے ضلع پر ہے صرف نام کے اضلاع ہیں اُنہوں نے کہاکہ اگر حکومت یہ فیصلہ کرتی ہے تو اس سے سوات کی جوشناخت ہے وہ ہم کھوجائینگے اور اس سے سوات کے عوام ٹوٹ کر دوحصوں میں تقسیم ہوجائینگے اُنہوں نے کہا کہ اس کے فوائد کم اور نقصانات زیادہ ہیں اُنہوں نے کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو اس کے خلا ف تحریک بھی چلانے سے دریغ نہیں کرینگے قومی وطن پارٹی کے ڈویژنل چیرمین فضل رحمان نونو نے کہا کہ صوبائی حکومت کا ایسے وقت میں سوات کو دو اضلاع میں تقسیم کرنے اور اپر ضلع کا اعلان کیا جب حکومت کے چند ماہ باقی ہے ان چند ماہ کے دوران وہ نہ اس کو عملی کرسکتا ہے اُنہوں نے کہا کہ اگر وہ اس اپر ضلع کے لئے فنڈز بھی منظور کرتی ہے تو وہ سوات کے اس موجو دہ ضلع کے فنڈز سے کٹوتی کرکے وہاں خر چ کرینگے جو اس موجود ضلع کے ساتھ زیادتی ہوگی سوات ٹریڈرز فیڈریشن کے صدراور مسلم لیگ ن کے مقامی راہنماء او ر ضلع ناظم سوات محمد علی شاہ نے بھی فیصلے کی شدید الفاظ میں مخالتفت کرتے ہوئے کہاکہ ہم حکومت کے اس فیصلے کے خلاف بھر پور احتجاج اور مزاحمت کرینگے اور اس فیصلے کے خلاف تحریک چلائنگے اُنہوں نے کہا کہ سوات کو کسی صورت تقسیم نہیں ہونے دینگے اُنہوں نے کہا کہ اگر صوبائی حکومت کو سوات کے عوام کے لئے کچھ کرنا ہے تو وہ سوات کے عوام کو یہاں پر تحفظ دیں یہاں پر امن امان کی صورتحال تسلی بخش بنائیں اُنہوں نے کہا کہ میرے نظر میں اس کام سے صرف اور صرف خزانے پر بوجھ بڑھے گا اس کے علاوہ کچھ نہیں ہوگااُنہوں نے کہاکہ سوات کو چونکہ ملاکنڈ ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر کی حثیت حاصل ہے اگر حکومت یہ فیصلہ کرتی ہے اس سے نہ صرف سوات کی تاریخی حثیت ختم ہوجائیگی بلکہ ملاکنڈ ڈیوثرن کی ہیڈکوارٹر کی حثیت بھی ختم ہوگی جے یوآئی پی کے ضلعی جنرل سکرٹری اسحاق ذاہد نے کہا کہ ہم اس فیصلے کے سختی سے مخالفت کرینگے اُنہوں نے کہا کہ اگرصوبائی حکومت سوات کے عوام کے اتنا خیر خواہ ہے تو وہ یہاں کے کھنڈرات سڑکیں ٹھیک کریں اُنہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت دوسرے ضلع کے بنانے پر جو رقوم خرچ کررہی ہے وہ فنڈز ضلع سوات کے سڑکوں ،ہسپتالوں اور دیگر انفرسٹرکچر کے تعمیر پر لگائے اُنہوں نے کہا کہ یہ اعلان صرف پوائنٹ سکورنگ کے سوا کچھ نہیں ہے ،یہاں ہسہتالوں اور تعلیم کے جو مسائل ہیں وہ حل کریں اور ان فضولیات پر ضلع سوات کے عوام کو دوٹکڑوں میں تقسیم کرنیکی کوشش نہ کریں .
جب اس سلسلے میں عوامی حلقوں سے رائے لی گئی تو زیادہ تر لوگوں نے اپنے رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سوات کو دواضلاع میں تقسیم کرنے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہیں اُنہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اول تو اسی ضلع سوات کے مسائل اور احساس محرومیاں ختم کریں بعد میں اس طرف آئے اُنہوں نے کہا کہ اگر آبادی کے لحاظ سے سوات کو تقسیم کرنا ضروری ہے تو سوات کے صرف 67یونین کونسلز ہیں جبکہ پشاور ضلع اس وقت 90یونین کونسلز اور مردان ضلع اس وقت 75یونین کونسلز پر مشتمل اضلاع ہیں اُنہوں نے کہا کہ پہلے تو اُن اضلاع کو تقسیم کرنا بنتا ہے اُنہوں نے کہ ایک ایم پی اے یا کسی ایک شخص کے ذاتی سیاسی مفاد کیلئے یہ کسی صورت ٹھیک اور سود مند فیصلہ نہیں ہوگا سوات کے متوقع تقسیم کے حوالے سے پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی میں بھی اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں اور ایم این اے سلیم الرحمان ،ایم پی ایزڈاکٹر حیدر ،جعفر شاہ ،محمود خان نے اپر سوات ضلع کے بنانے کے لئے وزیر اعلی کو اپنے رائے سے آگا ہ کردیا ہے جبکہ ایم این اے مراد سعید ،ایم پی ایز ،محیب اللہ ،ڈاکٹر امجد اورعزیز اللہ گران نے اپر سوات ضلع کے شدید الفاظ میں مخالفت کرتے ہوئے وزیراعلی سے مذکورہ اعلان واپس لینے کیلئے رابطے کئے ہیں.
صوبائی وقومی اسمبلی کے پی ٹی آئی کے آراکین کے دو متضاد رائے سے وزیراعلی بھی مشکل میں پھنس چکے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعلی اس اعلان کو کس حد تک عملی کرنے کے لئے اقدامات اُٹھا تاہے لیکن یہاں میں وزیر اعلی خیبر پختونخواہ سے ایک سوال کرنے میں حق بجانب ہوں کہ وزیر اعلی صاحب آپ نے تو مدین کے گراونڈ میں چند ہزار افرا د پر مشتمل مجمعے جس میں صرف اپرسوات کے ایک حلقے سے تعلق رکھنے والے افراد موجود تھے سے اپر سوات ضلع بنانے کے حوالے سے ہاتھ اُٹھا کر رائے مانگی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ آپ نے موجودلوگوں سے ہاتھ اُٹھانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی پوچھاتھا کہ میں آپ کے لئے اپر سوات کا ضلع اس شرط پر اعلان کرونگا جب آپ لوگ مجھ سے آئندہ ہونے والے انتخابات میں اپنا ووٹ پی ٹی آئی کے حق میں استعمال کرینگے اور جب موجود لوگوں نے آپ سے وعدہ کیا کہ ہم آئندہ انتخابات میں ووٹ پی ٹی آئی کے حق میں استعمال کرینگے تو تب جاکے آپ نے اپر سوات ضلع کے بنانے کا وعدہ کرکے اُس کو پندرہ دن اندر اندر عملی کرنے کااعلان کردیا وزیراعلی صاحب ایساہی ایک جلسہ گراسی گراونڈمیں منعقد ہوا تھا جہاں پی ٹی ائی کے عمران خان اور دیگر سرکردہ عہدیدار اور کارکن اور ممبران صوبائی وقومی اسمبلی بھی موجود تھے آپ نے اُس جلسے میں موجود چالیس ہزارسے زائد لوگوں سے اپر سوات ضلع بنانے کے بارے ہاتھ اُٹھاکر رائے لینے کی کوشش کی تھی لیکن مجمعے سے جب آپ نے ہاتھ اُٹھا کر رائے لی تب اپر سوات ضلع بنانے کے بارے مجمعے میں موجود چالیس ہزارسے زائد لوگوں میں سے چند سو نے اپرسوات ضلع بنانے کے بارے رائے دی جبکہ جب آپ نے اس کے مخالفت کے بارے میں گراسی گراونڈ کے اُس مجمعے سے اپر سوات ضلع نہ بنانے کے بارے رائے لی تو تب چالیس ہزار کے اس مجمعے میں سے اکثریت نے اس فیصلے کو مسترد کیا.
وزیراعلی صاحب میں یہ جاننے سے قاصر ہوں کہ گراسی گراونڈ میں اپر سوات ضلع کے بارے لوگوں کی رائے ایک ریفرنڈم تھی جس میں ضلع بھر کے تمام تحصیلوں اور حلقوں کے کارکن شریک تھے آپ نے اُن کے اُس ریفرنڈم کو کیوں پس پشت ڈالا اور مدین میں اپر سوات ضلع کے بارے دوبارہ چند ہزار لوگوں کے رائے لینے پردوبارہ اپرسوات ضلع بنانے کا اعلان کیاوزیراعلی صاحب اگر آپ کوضلعے بنانے کا اتنا ہی شوق ہے تو آپ پشاو ر کو پہلے چار اضلاع اور مردان کو دواضلاع میں تقسیم کرنے کے لئے اعلانات کریں کیونکہ اگر اضلاع کی تقسیم سے ترقی کرنی ہے تو آپ خیر کا یہ کا م صوبہ خیبر پخٹونخواہ کے درالخلافہ پشاور ضلع سے کریں اوربعد میں مردان کو بھی دواضلاع میں تقسیم کرنے کے لئے اقدامات اُٹھائیں کیونکہ اضلاع کے ان تقسیم سے جو فائدہ آپ صرف سواتی توعوام دینے کے خواہشمند ہے وہ پشاور اورمردان کے عوام کو بھی پہنچائیں تاکہ اُن اضلاع کے لوگ بھی کارخیر سے مستفید ہوسکیں۔
2,466 total views, 2 views today
Comments