سیاستدانوں کے بارے میں بہت سے لطیفے ، کہانیاں اور اور واقعات اب ضرب المثال بن کر مختلف زبانوں کے ادب کیلئے اثاثہ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے مگر ان کہانیوں ، لطائف اور واقعات کے تخلیق کرنے میں شائید کسی شاعر و ادیب کا ہاتھ ہومگر گزشتہ پندرہ بیس سال سے سیاستدانوں نے براہ راست اپنے سیاسی حریفوں کو ’’کم تر، خوار و ذلیل ‘‘ ثابت کرنے کیلئے جس قسم کی تشبیہات، اشارے اوراصطلاحات کا سہارا لیا ہے اس سے اب ان سیاستدانوں پر بھی تخلیق کرنے والے ’’شاعر و ادیبوں ‘‘ کا گمان غالب ہوتا جارہا ہے کہاجاتا ہے کہ تیس چالیس سال پہلے سیاستدان اپنے حریفوں کے سیاسی کمزورویوں کو منظر عام پر لاکر انہیں نیچا دکھانے کی کوشش کرتے اور اس زمانے میں اگر کوئی ذاتی ’’وار‘‘ بھی کرتے تو اس قدر گہرے اور ذومعنی الفاظ استعمال کرتے کہ سننے والے لفظوں کے انتخاب پر اس سیاسی شخصیت کے دور اندیشی اور ذہانت کے داد دئیے بغیر نہیں رہتے جس طرح کہ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالقفار علی بھٹو کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ ولی خان کے ساتھ ایک اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’خان صاحب اپ پوری دنیا کو’’ ایک آنکھ‘‘ سے دیکھتے ہیں ‘‘ جس پر ولی خان نے برجستہ جواب دیا کہ ’’ میں اگر ایک آنکھ سے دیکھتا ہوں یا دو آنکھوں سے مگراخر میں ’’نصرت‘‘ ہماری ہی ہوگی ‘‘ اب اس گفتگو کو سننے اور سمجھنے والوں نے دونوں سیاسی قائدین کے دوراندیشی او ر سیاسی ’’جملہ بازی‘‘ کو سراہا جو اب ایک مثال چکا ہے ، اس طرح ایک مرتبہ ذوالفقار علی بھٹو نے ولی خان کو جیل میں ڈال کر اسے پیغام بھیجا کہ’’ جیل کی دیواروں کو ’’کونسا رنگ ‘‘دیا جائے ‘‘جس پر ولی خان نے انہیں جواب دیا کہ ’’آپ (بھٹو) کو جو کلر پسند ہے وہ دیا جائے ‘‘ ان دونوں باتوں میں جو حریفانہ اور سیاسی جملوں کا استعمال کیا گیا لوگ اسے اب بھی دونوں سیاستدانوں کی حاضر دماغی اور دور اندیشی قرار دے رہے ہیں اس طرح بہت سے واقعات ہے جو اب’’ زینت ادب‘‘ بن چکے ہیں ، مختلف ادوار میں سیاستدانوں میں مختلف تشبیہات اور اشاروں کنایوں کے ذریعے اپنی حاضر دماغی اور قابلیت کا ’’لوہا منوانے ‘‘ کیلئے مختلف قسم کی اصطلاحات کا استعمال کیا ، ایک زمانہ میں گھوڑوں کی کسی شوقین سیاستدان نے ممبران اسمبلی کو ’’گھوڑوں ‘‘ سے تشیہہ دیکر ’’ہارس ٹریڈنگ ‘‘کا دھوم مچا رہا، کیونکہ ان دنوں اکثریت ثابت کرنے کیلئے ممبران سمبلی کو خریدنے کا سلسلہ شروع ہوا تھا ، سیاسی جماعتوں کوتبدیل کرنے والوں کیلئے ’’لوٹے‘‘ کی اصطلاح سامنے ائی،اس طرح پارٹی یا نظریات تبدیل کرنے والوں کو ’’گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والا ‘‘ بھی قرار دیا گیا ۔ معلوم نہیں کہ کس ’’جواء باز ‘‘ سیاستدان نے سیاست میں تاش کے پتوں کا بھی خوب استعمال کیا جسے کہ ’’میں نے تو صرف ایک پتہ پھینک دیاہے، 52 پتوں میں 51 اب بھی ان کے ہاتھ میں ہیں ‘‘مخالف سیاستدان کو تاش کا ’’جوکر‘‘ بھی کہا گیا ہے ، عمران خان جب کرکٹ سے سیاست میں ’’وارد‘‘ ہوئے تو اس کے بعد کرکٹ سے متعلق بے شمار اصطلاحات متعارف ہوئے جس میں ’’کھیلنے کیلئے پیچ صحیح نہیں ‘‘ ’’گگلی بال ‘‘ باؤنسر‘‘ ’’میچ فیکسنگ‘‘ جانبدار ایمپائیر‘‘ ’’اوور ختم ہونے والا ہے ‘‘ ’’فیلڈنگ درست نہیں ‘‘ ’’وکٹ مظبوط ہے ‘‘وغیرہ شامل ہے ۔ اب خدا نخواستہ اگر کوئی موسیقار بھی اس میدان میں کود پڑا تو ان کی اصطلاحات یا اشارے کچھ اس طرح ہونگے کہ ’’ ایسا دھن سناؤنگا کہ سب دھنگ رہ جائیں گے ‘‘ یا ’’ ہر ایک طبلہ نوازپسینے سے شرابور رہیگا‘‘ ’’ہر موقع ’’درباری ‘‘ راگ کا نہیں ہوتا‘‘ ’’موقع دیکھ کر ’’راگ ‘‘چھیڑو‘‘ اور اگر مسرت شاہین کی طرح کوئی اداکارہ اس ’’کار خیر‘‘ کی لیے ’’ایوان نمائندگان ‘‘ پہنچ گئی تو وہ کچھ اس طرح اصطلاحات اپنائیگی کہ ’’ ایسی ناچ نچاؤنگی کہ’’ آنگن ٹیڑھا ‘‘والا ضرب المثل ہی بھول جائیں گے ‘‘یا ’’ سکریپ رائیٹر کے اوسان خطا ہونگے ‘‘ ’’مخالف کا سیاست ’’پلاپ ‘‘ہوجائے گا‘‘ ’’پردہ سکرین سے نظریں نہیں ہٹے گی ‘‘اس طرح اگر کوئی خسرہ اایا تو پھر تو اصطلاحات اوراشاروں کی ’’برسات‘‘ ہوگی مگر اب جو اشارے ، کنائے ، اصطلاحات اور تشبیہات بعض’’ مخصوص ‘‘سیاستدانوں نے شروع کی ہیں اسے سن کر ان سیاستدانوں پر کچھ ’’اور ‘‘شبہ پید اہوتا ہے پنڈی سے تعلق رکھنے والے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید چٹ پٹے بیانات اور سیاسی تشبیہات ،اصطلاحات اور اشاروں کنایوں کیلئے مشہور ہے مگر اب ان کے زبان سے بھی اسے جملوں کا تیر برسنا شروع ہوا ہے کہ کوئی بھی ’’باضمیر ‘‘اس سے ’’فی امان اللہ ‘‘ کہہ کر پناہ مانگنے کیلئے ’’دست بدعا ‘‘رہیں گے شیخ رشید کے علاوہ بعض دیگر سیاستدانوں نے بھی اس سیاسی ’’مغلیظات‘‘ بکنے والوں میں اپنا نام شامل کرنے کیلئے ’’مورچے ‘‘سنبھال لئے ہیں ،وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید جو کہ شیخ رشید کے نام کا ہم قافیہ نام رکھتے ہیں نے گزشتہ دنوں دو شیخوں (شیخ رشید اور طاہرالقادری) کو کسی اشارے کنائے کے بغیر تنقیدکا نشانہ بناتے ہوئے لاری مستریوں کی طرح ’’مکینیکل ‘‘ زبان میں یاد کیا اور کہا کہ ان ’’دونوں شیخوں ‘‘ کی ’’کلچ پلیٹس‘‘ خراب ہے ۔جس پر شیخ رشید نے سیخ پا ہوکردوسرے روز عمران خان کے جلسہ کے دوران پرویز رشید کیلئے لگتا ہے ’’مستری خانہ ‘‘ میں رات گزار کر گاڑیوں میں استعمال ہونے والے تمام پرزوں جسے ’’پسٹن، انجن، گیر بکس، لیدر، مال گاڈ، بانٹ، ڈگ، بیٹری، ٹائراڈ، ریم، وائپر،کمانی، ایکسلیٹر،ڈینمووغیرہ کے نام ازبر کرکے جلسہ کے دوران جس بھی چیز کا نام بھی سامنے ایا انہیں پرویز رشید کی طرف پھینکتے ہوئے ان تمام پرزوں کو خراب قرار دیا جس پر جلسہ میں موجودحاضرین اور شیخ صاحب کے لائیو تقرریر سننے والے ناظرین کچھ لمحہ کیلئے تو انتہائی محظوظ ہوئیں مگر جلسہ ختم ہونے کے بعد شیخ رشید کے لئے دل میں عزت و احترام رکھنے والے اسے مٹانے پر مجبور ہوگئے دوسرے شیخ طاہر القادری نے اس بارے میں کیا جواب دیا ہے اس کا راقم کو علم نہیں اس وجہ سے ان کے بارے میں کچھ کہنا سیاستدانوں کی طرح ’’قبل از وقت ‘‘ ہوگا ۔پنجاب کے وزیر مملکت عابد شیرعلی بھی گزشتہ کئی مہینوں سے ان ’’مغلظینوں‘‘کی’’ صف‘‘میں نام شامل کرنے کے دوڑ میں پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب نظر آرہے ہیں، جبکہ ہمارے صوبہ خیبر پختونخوا سے اس دوڑ میں شامل ہونے کیلئے صوبائی وزیر اطلاعات شاہ فرمان نے بھی کچھ دن ’’ریہر سل ‘‘کیا مگر وہ بھی اب اس مقابلہ سے اپنے اپ کو ’’ان فٹ ‘‘قرار دینے کی کوشش میں مگن ہے ، پنجاب کے صوبائی وزیر قانون راجہ ثناء اللہ کا نام بھی اس دوڑ میں’’ سیکنڈ لائن لیڈر شپ ‘‘کے طور پر شامل ہوچکا ہے ،مختلف ٹی وی چینلز کے اینکرز بھی اس مقابلے کیلئے بطور ’’انسٹرکٹر ‘‘کردار ادا کرنے کی کوشش کرکے بعض ’’نومولود ‘‘اوربعض ’’زائد المیعاد ‘‘ سیاستدانوں کو آگے لانے کی کوشش کررہے ہیں مگر تاحال وہ اس ٹیم کو’’ بڑھانے‘‘ میں کامیاب نظر نہیں آرہے البتہ بعض ٹی وی اینکرزنے خود بھی اپنے فیلڈ کے حریفوں کو نیچا دکھانے کیلئے ’’مغلیظات ‘‘ کی اس’’ سکول‘‘ میں ’’داخلہ ‘‘لیا ہے جس پر انہیں نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔
798 total views, 2 views today