کچھ دنوں پہلے انڈیا کے ایک شہری کا ایک خط ذرائع ابلاغ کے کی زینت بنی جسمیں انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے نام کچھ یوں لکھا تھا ’’ کہ اس شہری کے چھٹی حس کے مطابق دسمبر کے اوائل میں بحرہند میں زلزلے کے بدولت سونامی کے آنے کی پیشن گوئی کی گئی تھی، اسکی وجہ سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلنے کا خدشہ ظاہر کیاگیا تھا‘‘۔ اس خبر کے بعد پاکستا ن کے بڑے خفیہ ادارے کے طرف سے زلزلے کے صورت میں بحالی پر کام کرنے والے ادارے ایرا کو ایک چٹی کے ذریعے آگاہ کردیا گیاتھا جو کہ سوشل میڈیا پر بہت دنوں تک گردش کررہا تھا۔اس چٹی میں ایرا کو ہنگامی بنیادوں پر ممکنہ خدشے کے پیش نظر چست وچوبند رہنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
مذکورہ بالا بحث کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ بات ذھن اور منطقی اعتبار دونوں سے قابل یقین نہیں ہے کیونکہ آجتک کوئی ایسا آلہ ایجاد نہیں ہوا جو کہ زلزلہ کے بارے میں اتنی پہلے سے تاریخ اور قت معین کرسکے۔لیکن اگر ہم موجودہ موسمیاتی تغیرات اور تبدیلیوں، جنگلات کے بے دریغ کٹائی ،فضائی آلودگی ، آبادی میں بے تحاشہ اضافہ اور ان مسائل سے نمٹنے کیلئے ہمارے ذمہ داریاں اور کوششوں کی جانچ پڑتال کی جائے تو یہ بات درست ہے کہ یہ زمین جس کے باسی اس کو ایک تباہی کے طرف دھکیل رہے ہیں۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصانات اور منفی اثرات کو کم کرنے کیلئے ہم تخفیف اور اختیاری طریقہ کار بروئے کار لارہے ہیں۔اسکے علاوہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے جو جنگی بنیادوں پر کوششیں ہورہی ہیں عالمی سطح پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے اسمیں بہت زیادہ پیش رفت ہوئی ہے۔جسکی وجہ سے ہم مؤثر طریقہ سے احتیاطی تدابیر اوراس پر عملی طور پر قابو کیاجاسکتاہے۔سائنس دان اس کوشش میں ہیں کہ وہ عالمی توانائی وذرائع آمدورفت سے ہوامیں پیدا ہونے والے کوئلے (Carbon) کے اثرات کو ختم کریں، اور ایسے طریقے ایجاد کرے جو کہ ہماری غذائی تحفظ کیلئے طویل المیعاد ی بنیادوں پر فائدہ مند ہو۔ زمینی معدنی مادہFossilsایندھن کی توانائی کے پیداوار میں استعمال ،ہوائی کاربن ڈائی آکسائیڈ کی اخراج کا بڑا ذریعہ ہے۔اس سلسلے میں بہت سارے مثبت تبدیلیاں رونما ہوئی ہے جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ سائنس دان عالمی سطح پر ایک صحیح سمت کے طرف جارہے ہیں اور غیر تجدیدی ذرائع توانائی سے، جدید ذرائع توانائی کے پیداوار کے طرف کوششیں جاری وساری ہیں۔
عالمی سطح پر اگر دیکھاجائے تو توانائی کے ذرائع بڑھانے اور ہوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کو کم کرنے کیلئے بہت سارے اقدامات ہورہے ہیں۔ سائنسدان اس کوشش میں ہیں بلکہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوچکے ہیں کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو پتھر یا روزمرہ استعمال شدہ کنکریٹ میں تبدیل کیاجائے۔اسے کھڑی کی ایک منصوبہ کو Concreteکے نام سے بھی جانا جاتا ہے اسی منصوبے کو انڈیا میں بہت جلد متعین کرایاجائیگا۔اسی طرح سائنسدانوں نے یہ بھی ہدف طے کیا ہے کہ سنہء 2050تک وہ توانائی کے تمام فاضل جزیات کو ایک نئی توانائی بنانے کے ذرائع میں تبدیل کردینگے۔ذرائع آمدورفت کو بھی کاربن ڈائی آکسائیڈکے اخراج کا بڑا ذریعہ سمجھا جاتاہے۔ جس سے نمٹنے کیلئے جاپان اور جرمنی نے بہت سے ایجادات کئے ہیں اور بہت سارے ابھی کررہے ہیں جس میں وہ ایسے اقسام کے گاڑیاں اور ٹرینیں بنارہے ہیں جوکہ صفرکی مقدار میں کاربن آکسائیڈخارج کریگی۔ غذائی تحفظ کے حوالے سے جو خطرات انسانوں کیلئے پیداہوئے ہیں اس حوالے سے بھی جدوجہد جاری ہے۔
جنگلات کی کٹائی اور زمین کی سیم وطور میں تبدیلی غذائی قلت میں اضافہ اور غذائی تحفظ کیلئے ایک خطرہ ہے ۔ اسی سلسلے میں چائینہ کے ماہرین نے ۲۰۰ ایکڑ صحرائی بنجر زمین کو کاشت کے قابل بنایاہے۔ اسکے لئے چینی ماہرین نے پودوں کے خلیوں کے دیواروں سے بنائے گئے نامیاتی کھاد کو استعمال کیا۔غذائی تحفظ کو ممکن بنانے کیلئے حیاتیاتی ٹیکنالوجی نے بھی سخت رطوبت والے موسم سے نمٹنے کیلئے ایسی بھیج بنائے ہے جو کہ زیادہ پیداوار کی حامل ہے۔
عالمی ماحولیاتی نظام کی تحفظ اور حیاتی کرّہ کی حفاظت کیلئے انسانوں کو بہت بڑی جدوجہد کی ضرورت ہے۔اسی لئے سائنسدانوں نے بہت منصوبوں پر کام شروع کیاہے۔ جسکی ذریعے ماحولیاتی تبدیلی کی جانچ پڑتال ہوسکے اسی کھڑی میں ایک جیو انجنیئرنگ کا شعبہ بھی ہے جوکہ برف کے تودے یعنی گلشئیرز کو پگھلنے سے بچانے کیلئے عالمی سطح پر کوششیں کررہی ہیں۔غرضیکہ سائنس کی دنیا ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کیلئے اپنے تمام تر کوششیں بروئے کار لارہی ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ پالیسی بنانے والے تیزی سے اس بات پر متفق ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیاں مغربی پیداکردہ معمہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہیں اور اسکی نقصانات آئے دن بڑھتے جارہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ چین کافی منصوبوں پر کام کررہاہے اور اس مد میں وہ اپنے بجٹ سے ۳۶۰ بلین ڈالرز کے مختص کردہ خطیر رقم سے توانائی کی پیداوارھوا اور شمسی توانائی سے حاصل کریگی۔
دنیا کے اکثر ترقیافتہ ممالک کاربن ڈائی آکسائیڈ کی اخراج کو روکنے کیلئے اب بجلی کی گاڑیاں اور مشینیں تیارکررہی ہے اسیلئے ہالینڈ،ناروے،اور برطانیہ نے ۲۰۴۰ تک پیٹرول پر چلنے والے گاڑیاں اور مشینری ختم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔کیونکہ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ۲۰۵۰ تک اگر فضائی آلودگی کی یہ صورتحال رہی تو اوزون کی تہہ برِّاعظم انٹارکٹیکا سے ختم ہوجائی گی جسکے پورے دنیا پر بہت مضر اثرات مرتب ہونگے۔ اسلئے اقوام متحدہ نے اپنے اکسویں کانفرنس جو کہ پیرس راضی نامے کے نام سے یاد کیا جاتاہے میں سرسبز ترقی کی موضوع پر زور دیا ہے ، اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کیلئے طویل المیعادی ترقی کے نکات یعنیSustainable Development Goalsمیں شامل کیا ہے ۔
باوجود مندرجہ بالا ذکر شدہ کوششوں کے اب بھی اس سلسلے میں بہت زیادہ جدوجہداور تگ ودو کی ضرورت ہے ۔تاکہ ہمارے آنے والے نسلوں کو ایک صحت مند ، حیاتیاتی اعتبارسے مضبوط ماحول دیا جاسکے۔اسی حوالے سے اگر ہمارے پیارے ملک پاکستان کے اندرونی کوششوں کو دیکھاجائے تو ہمارے حکمران اور پالیسی بنانے والے ادارے ھاتھی کے کان میں سو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز ہمارے ملک میں ماحولیاتی تبدیلیاں گھمبیر اور توجہ طلب صورتحال اختیار کررہی ہے۔ جسکی بڑی وجہ ایک طرف بڑھتی ہوئی تیزی سے آبادی ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ ہماری ہیکل اساسی یعنی بنیادی ڈھانچہ کے کاموں میں غیرفعّالی ،بدانتظامی اور غلط فیصلے بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں جنگلات کی کٹائی ایک طرف زور وشور سے جاری ہے تو دوسری اسکی متبادل ہمارے پاس کوئی حل نہیں ہے۔ صوبائی سطح پر خیبر پختونخوا حکومت نے میڈیا پر بلین درخت سکیم کوتو پایا تکمیل تک پہنچایاہے لیکن اسکی حقیقی بنیادوں پر کوئی وجود نظر نہیں آرہی۔ پشاور بس ٹرانسپورٹ نظام کا منصوبہ حکومت نے اپنے دورحکومت کے آخری چھ مہینوں میں منظور کیا ہے لیکن اسکے ماحول پر مضر اثرات کے حوالے سے کوئی جامع منصوبہ تیار نہیں کیا گیا۔ اسکی بڑی وجہ صرف یہی ہوسکتی ہے کہ اتنے کم وقت میں اتنے بڑے منصوبے کو منظور کروانا انہی صوبائی وزیروں اور مشیروں کا توجہ اپنے جیبیں گرم کرنے اور کمیشن مافیہ سے پیسے بٹورنے پر ہے نہ ک اسکے اجتماعی فوائد و نقصانات پر۔ لہذا اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ سیاستدان اور متعلقہ اداروں کو بڑھتی ہوئی موسمیاتی تبدیلیوں کے رجحانات کو مدّ نظر رکھتے ہوئے ایک جامع پالیسی تشکیل دینی چاہئے جوکہ ہمارے ملک کے تمام حصوں کیلئے فائدہ مند ہوں اور مستقبل قریب میں یہ خطہ موسمیاتی تبدیلیوں سے رونما ہونی والی قدرتی آفات سے بچایاجاسکے اور اس کی اثرات کو کم کیا جاسکے۔ اس پر کام کرنے کیلئے اور اسکو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہمارے پاس بہت سارے ذرائع اور آپشنز موجود ہیں۔لیکن ہمارے ہاں کمی صرف اور صرف محب وطن ،حقیقی طور پر دیانت دار ،صادق اور امین رہنماؤں کی ہے ۔اسلئے عوام کو اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اقتدار کے باگ ڈوران لوگوں کو نہ دے جو اپنے جیبوں کوبھرکر اور اثاثوں کو بیرونی ملک منتقل کرکے اس مملکت خدادکے معصوم عوام کا خون چوس رہے ہیں۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے حکمرانوں میں ایماندار ،مخلص اور دیانتدارلوگوں کی پہچان کی توفیق عطافرمائیں۔ آمین
2,462 total views, 2 views today