تحریر ۔سلیم اطہر
اگر ایک طرف سوات کی تاریخی اور جغرافیائی حثیت سے پوری دنیا میں اہمیت کا حامل ضلع ہے تو دوسرے طرف اس وادی کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے سب سے بڑے صوبے ہونے کی حثیت بھی حاصل ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس ضلع کے مسائل بھی صوبے کے دیگر اضلاع سے زیادہ ہے پاکستان ادغام سے پہلے سوات میں مثالی آمن قائم تھی یہاں کے لوگ صوبے کے دیگر اضلاع کے لوگوں سے زیادہ تعلیم یافتہ ،مہمان نواز اور خوشحال تھے لیکن بدقسمی سے پاکستان میں ادغام ،افغان،روس جنگ اور پھر سوات میں شدت پسندی کی لہرسے یہاں کے تمام خوشیاں ایک ایک کرکے روٹ گئیں اور وہ وادی سوات جو کبھی امن اور آمان اور خوبصورتی کے لحاظ سے مشہور تھا جنگ ،جدل ،بم دھماکے ،افراتفری اور سرکٹی لاشیں اس وادی کے پہچان بن گئے یہ وادی 2006 ء سے 2012 ء تک میدان جنگ بنارہا اوریہاں پر معمولات زندگی مفلوج ہوکررہ گئی لیکن 2009 ء میں پاک فوج اور حکومت پاکستان کے کامیاب اپریشن کے بعدیہاں سے شدت پسندی کا خاتمہ کردیا گیا اور آہستہ آہستہ اس دھرتی کی رونقیں بحال ہوناشروع ہوگئی
سوات میں پاک فوج کی امن وآمان برقرار رکھنے کی کوششیں اپنی جگہ لیکن ہمارے لئے یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ سوات میں پولیس فورس جو دوران شدت پسندی بالکل مفلوج ہوکر رہ گئی تھی وہ دوبارہ اپنے پاوں پر کھڑا ہونا شروع ہوگئی ایک وقت ایسا بھی تھا کہ پولیس اہلکار پولیس کے نوکری میں خودکو غیر محفوظ تصورکرتے تھے اور سوات میں تعینات پولیس فورس اہلکاار جان بچانے کے لئے پولیس فورس سے استعفے دینے کوترجیح دیتے تھے اب ایک ایسا وقت بھی ہے کہ سوات سے زیادہ تر فوجی چیک پوسٹیں ختم کردی گئی ہے اور جو باقی ماندہ چیک پوسٹیں موجود ہیں اُس پر بھی ڈیوٹی کے فرائض زیادہ تر پولیس کے جوان سرآنجام دے رہے ہیں ہم اللہ کے جتنے بھی شکریہ آدا کرے تو کم ہے کہ سوات میں دہشت گردی کی شروعات سے قبل امن وآمان کی جو صورتحال تھی بحال ہوئی ہے سوات میں پولیس کی مورال کو بلند کرنے او ر امن وآمان کو برقرار رکھنے میں کئی ایک پولیس آفیسرز جو ڈی آئی جیزاور ڈی پوز تھے کا کردارمثالی رہا اُن مثالی آفیسرز میں سے ایک ڈی پی او اعجاز خان بھی شامل ہے جن کا حال ہی میں سوات سے تبادلہ ہو اہے اعجاز خان سے پہلے یہاں پر عباس مجید مروت ڈی پی او سوات تھے جن کی جگہ ڈی پی او اعجاز کو یہاں ڈی پی او سوات کی ذمداریاں تفویض کئے گئے
ڈی پی او اعجاز خان کے تعیناتی کے آرڈر جب ریلیز ہوئے تو میرے ہری پور اور پشاور کے بھائیوں جیسے دوستوں نے مجھے کال کرکے نہ صرف اُن کے تعیناتی کے بارے اطلاع دی بلکہ اُنہوں نے اعجاز خان کی اتنی تعریف کی کہ آن دیکھے میرے دل میں اُس کے لئے عزت پیداہوئی اور جب اُن سے پہلی ملا قات ہوئی اور اُنہوں نے مجھے اور میرے ساتھ دیگر قولیگزکو جتنی محبت اور عزت دی تو مجھے اپنے اُن دوستوں کے اعجاز خان کے بارے بتائے گئے وہ تعریفی کلمات یا دآئے کہ واقعی یہ بندہ دیگر پولیس آفیسرز سے بالکل آلگ تلگ اور پولیس آفیسر کم اور عام آدمی زیادہ لگتا تھامیں یہاں یہ عرض کرتاچلوں کہ اعجاز خان کے بارے جو میری رائے ہے جہاں تک میری جان کاری ہے میرے تمام قولیگز چاہے اُن کا تعلق میڈیا سے ہے یااُن کا تعلق کسی دوسرے پیشے سے ہو لیکن اُن کا اگر اعجاز خان کے ساتھ کسی نہ کسی جگہ ملاقات ہوئی ہے تو وہ بھی اُن سحرانگیز شخصیت کے گرویدہ بن بیٹھے ہیں اور میرے طرح اعجاز خان کے بارے اُن کے احساسات اورخیالات بھی وہی ہے جو میرے ہیں اعجاز خان نے واحد پولیس آفیسر تھے جنہوں نے اپنے آفس کے دروازے ہمیشہ ہر کسی کے لئے کھلے رکھے مسئلہ چاہے کسی کا بھی ہو اُس کو حل کرنے کی پوری پوری کوشش کی .
اُنہوں نے پورے ضلع سوات اور خصوصاً مینگورہ شہر میں منشیا ت فروشوں،سماج دشمن عناصر ،جرائم پیشہ افراد کے خلاف ہمیشہ اپنے پولیس فورس کو ہدایت دی کہ وہ معاشرے سے ایسے افراد کا خاتمہ کریں تمام تر دباو اور مشکلات کے باوجود اُنہوں نے مینگورہ سٹی میں انسپکٹر نصیرباچا کو ایس یچ او برقرار رکھا ڈی ایس پی حبیب اللہ جنہوں نے مینگورہ شہر میں امن وآمان کے ساتھ ساتھ جرائم پیشہ افراد کے خلا ف بلاکسی ججھک اپریشنز کئے اُن کے سر پر دست شفقت رکھا یہاں میںیہ بات واضح کرتا چلوں کہ سوات میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف اپریشن ہو یامنشیات فروشوں کے خلاف بلاکسی خوف کاروائیاںیہ سب ڈی آئی جی ملاکنڈ اختر حیات خان کے سرپرستی کے اور دست شفقت کے بغیر ممکن نہیں تھا اعجاز خان اگر ایک طر ف عام لوگوں سے اچھے طرح پیش آنے پر لوگوں کے محبت حقدار ٹھرے تو دوسرے طرف اُن کے ماتحت بھی اپنے اس نڈر اور شفیق پولیس آفیسر کے گن گاتے نظرآئے اور یہی وجہ ہے کہ اُن کے یہاں سے تبادلے کے بعد صرف عام لوگ ہی نہیں بلکہ پولیس اہلکار اوراُن کے ماتحت آفیسرز بھی اُن کو اچھے الفاظ میں یادکررہے ہیں ۔
سابقہ ڈی پی او سوات محمد اعجاز خان کے یتبادلے کے بعد اب اُن کی جگہ نئے ڈی پی او واحید محمود نے چارج سنبھال لیا ہے جو اس سے قبل بطور ڈی پی او نوشہر ہ فرائض سرآنجام دے چکے ہیں اور اُن کے پیشہ وارانہ کام کے بارے میں بھی جتنی بھی جان کاری ملی ہے وہ بھی حوصلہ افزا ہے سوات میں تعیناتی کے بعداُن سے بھی یہ اُمید کی جارہی ہے کہ وہ بھی سوات میں امن وآمان کے قیام کے ساتھ ساتھ منشیات فروشوں،سماج دشمن عناصر اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کارلائینگے اور عوام کے خدمت کے لئے اپنے دفتر کے دروازے کھلے رکھے ینگے۔
2,230 total views, 2 views today