تحریر ؛۔ فضل خا لق خان
بہ قول شاعر ’’ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘سوات کی مٹی بھی بڑی زرخیز ہے جس نے ہمیشہ ایسے سپوت پیدا کئے جو وقتاً فوقتاً ملک کے اندر اور باہر جب بھی موقع ملتا ہے اس دھرتی کا نام روشن کرتے ہیں اسی وجہ سے سوات نے ایک اور اعزاز بھی حاصل کرلیا ،سوات کے ماہر تعلیم مرحوم پرنسپل‘ پروفیسر فضل واحد خان کے ہونہار بیٹے اور تائیکوانڈو کے کھلاڑی فضل قادر خان نے ملک وقوم کا نام روشن کرتے ہوئے پاکستان کے ازلی دُشمن بھارت کے کھلاڑی کو تھائی لینڈ کی سرزمین پر شکست سے دوچار کیا ،ہونہار کھلاڑی نے 4پوائنٹس کے مقابلے میں32 پوائنٹس سے بھارتی کھلاڑی کو دھول چٹا کر بنکاک کی سرزمین پر سبز ہلالی پرچم کو شان سے لہرایا، کہتے ہیں کہ جو قومیں اپنے کھیل کے میدانوں کو�آباد رکھتی ہیں ان کے اسپتال ہمیشہ ویرا ن رہتے ہیں،اسی مثل کے مصداق فضل قادر خان نے بھی ثابت کردیا کہ حوصلے جواں ہوں تو کہیں پر بھی قومی جھنڈے کو شان کے ساتھ بلند کیا جاسکتا ہے،فضل قادر خان نے کھیل کے میدان میں پاکستان کی برتری کو قائم رکھتے ہوئے نہ صرف شاندار کامیابی حاصل کی بلکہ سوات کے دیگر کھلاڑیوں کو بھی حوصلہ بخشا کہ وہ بھی آگے آکر اپنی صلاحیتوں کا مثبت استعمال کریں۔سوات کے باصلاحیت کھلاڑی نے نہ صرف ملک بلکہ دنیا بھر میں پاکستان اور سوات کا نام روشن کرنے میں اہم کردار ادا کیا، فضل قاد خان جو 20 اکتوبر 1996کومینگورہ شہر کے نواحی علاقے امان کو ٹ بنگلہ دیش میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم ملابابا ہائی اسکول سے حاصل کی ، میٹرک پاس کرنے کے بعد مزید تعلیم کے لئے گورنمنٹ جہانزیب کا لج سوات میں داخلہ لیا اور ایف ایس سی کے بعد اب بی ایس کے طالب علم ہیں۔
تعلیم کے ساتھ ساتھ اسے بچپن سے تائیکوانڈو کے کھیل سے شغف رہا اور اس شوق کی تکمیل کیلئے 2003 میں اس کھیل کی ابتداء کی لیکن والد صاحب اس شوق پر نا خوش رہے اور تائیکوانڈو کا کھیل کھیلنے سے منع کرتے رہے لیکن شوق عروج پر تھا اور منع ہونا مشکل تھا لیکن والد صاحب کی ناراضگی بھی قبول نہیں تھی جس کی وجہ سے کچھ عرصہ توقف کیا۔ دوسری جانب اس کھیل سے جنون کی حدتک عشق بھی تھا اور کوشش کرتا رہا کہ والد صاحب کسی طرح مان جائے تو پھر سے شوق کی تکمیل کی جائے ، پھر اللہ نے سبیل نکالی اور بڑے بھائی فضل معبود خان جو محکمہ تعلیم میں افیسر ہیں نے چھوٹے بھائی کے شوق کو دیکھتے ہوئے والد سے چپکے چپکے اسے سپورٹ کیا اور اس کھیل میں آگے جانے کیلئے مواقع فراہم کرتے رہے ، دوبارہ کھیل کا سلسلہ شروع ہوا اور مختلف مدارج طے کرتے ہوئے بالآخر سال 2009 میں پہلی کامیابی ’’بلیک بلٹ ‘‘کی صورت حاصل کرلی، بلیک بلٹ حاصل کرنا فضل قادر خان اپنے لئے بہت بڑ ا اعزا سمجھتے ہیں لیکن شوق کی تکمیل کا سلسلہ رُکا نہیں ۔مزید کامیابیوں کی جستجو میں لگا رہا کہ اس دوران سوات میں کشیدہ حالات کی وجہ سے اس کھیل کے لئے ماحول سازگار نہ رہا اور پھر سوات سے نقل مکانی کی صورت میں سب کچھ تتر بتر ہوگیا ۔ بدترین حالات کی وجہ سے کسی کو بھی اپنے شوق کی تکمیل کے مواقع نہ رہے ایسے میں وہ کہتے ہیں کہ میرے لئے بھی تائیکوانڈو کے میدان میں مقام بنانا مشکل ہوگیا اور تین سال کا عرصہ یونہی بیت گیا۔
اس کے بعد جب فوجی اپریشن کے نتیجے میں حالات نارمل ہوئے اور سوات میں معمول کی زندگی شروع ہوئی تو دوبارہ شوق پیدا ہوا کہ اس میدان میں نام کمایا جائے، سال 2012 میں تین سال وقفہ کے بعد باقاعدہ طورپر ’’کورین تائیکوانڈو ‘‘ انسٹی ٹیوٹ کو جوائن کیا اور مسلسل کوشش کرتے ہوئے مختلف مدارج طے کئے اور کامیابیاں حاصل کرتا رہا ، اس دوران اللہ نے اپنا کرم کیا اور والد صاحب کی خواہش پر اللہ کا کلام حفظ کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی اور اسی سال مقامی سطح پر ہونے والے ریجنل مقابلوں میں گولڈ میڈل جیت کر اعزاز حاصل کیا، اس کے علاوہ سال 2013 میں پاکستان سپورٹس بورڈ سے اہلیت کی بنیاد پر’’ پہلی سینئر ڈگری آف مارشل آرٹس ‘‘ حاصل کی جسے فضل قادر خان اپنے لئے ایک اور بہت بڑا اعزاز سمجھتے ہیں۔
سال 2014 میں انسٹی ٹیوٹ سے مختلف کورسز مکمل کرنے کے بعد علاقے سے تعلق رکھنے والے تائیکوانڈو کے شوقین کھلاڑیوں کی سہولت کے لئے اپنی اکیڈمی ’’سوات ایگل تائیکوانڈو‘‘ کے نام سے رحیم آباد میں بنائی جس کا افتتاح اس کھیل کے میدان میں ہر قسم کی تعاؤن فراہم کرنے والے بڑے بھائی کے ہاتھوں کروایا،کھلاڑیوں کو ہرقسم کی سہولیات فراہم کیں اور بہتر کوچنگ کے ذریعے اپنے شاگردوں کی تربیت کی جس کی وجہ سے ان کے انسٹی ٹیوٹ کے 4 کھلاڑیوں نے سال 2015 میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتے ہوئے ریجنل سطح کے مقابلوں میں سلور میڈل حاصل کئے جو اپنی جگہ ایک منفرد اعزاز ہے ۔ سال2015 میں ہونے والے انہی مقابلو میں صوبائی سطح پر بھی گولڈ میڈل جیت کر کامیابیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔
فضل قادر خان کا کہنا ہے کہ میرا مقصد اس کھیل کے ذریعے ملک وقوم کا نام روشن کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے شوق کی تکمیل بھی کرنا تھا اسی وجہ سے کسی بھی مشکل کو اپنے راستے کا پتھر نہیں بنایا اور ہر لمحے یہ کوشش رہی کہ کامیابیوں کی منزل رُکے نہ اور اسی طرح آگے بڑھتا رہوں،اس دوران سال 2016 کے دوران پاکستان سپورٹس بور ڈ کی جانب سے تائیکوانڈو کھیل کے حوالے سے ایک ریفری کورس کا اہتمام کیا گیا جس میں میں نے بھی شرکت کرتے ہوئے ان کی تمام تر شرائط کو پورا کیا اور آخر کار کامیابی حاصل کرتے ہوئے پاکستا ن سپورٹس بورڈ سے ریفری کورس میں کامیابی حاصل کرکے ان سے ڈگری یافتہ ہونے کا سند بھی حاصل کرلیا، اس سیشن میں سوات سے میں واحد کورس کرنے والا کھلاڑی تھا جس نے ریفری کورس کی سند حاصل کی ۔
اپنی تربیت کا سلسلہ درا ز کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اکیڈ
می ’’سوات ایگل تائیکوانڈو اکیڈمی‘‘ کے کھلاڑیوں کی تربیت بھی جاری رہی اور پھر آخر کار وہ لمحہ بھی آن پہنچا جب 24 اکتوبر 2017 کو بنکاک کے شہر تھائی لینڈ میں بین الاقوامی سطح پر تائیکوانڈو کے مقابلے منعقد ہوئے جس میں پاکستان کی جانب سے ہمیں شرکت کا موقع ملا، دنیا بھر سے بڑے بڑے اور نامی گرامی تائیکوانڈو کے کھلاڑی وہاں مقابلوں کے لئے بلائے گئے تھے ، سب اپنی اپنی جیت کے لئے پرعزم تھے ایسے میں جب ہمیں بتایا گیا کہ ہمار ا مقابلہ یعنی پاکستان کا مقابلہ بھارت کے کھلاڑیوں سے ہے تو ایک گونہ خوشی حاصل ہوئی کہ ہر میدان میں ہمارے ملک کے باصلاحیت افراد بھارت کا مقابلہ تو کررہے ہیں لیکن آج اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے کھیل کے میدان میں بھی یہ موقع فراہم کیا کہ ہم بھی بھارتی کھلاڑیوں سے مقابلہ کریں۔
اللہ کا نام لے کر میدان میں اُترے ، بھارتی سورما اپنے ملک اور میں اپنے ملک کا جھنڈا اس بین الاقوامی مقابلوں کے میدان میں اونچا کرنے کے لئے زورآزمائی کرنے لگے ، اس وقت مجھے اپنے مرحوم والد صاحب بہت یادآئے جنہوں نے ہمیشہ بھارت سمیت دنیا کے عالم کفر کو نیچا دکھانے کے جوہر دکھائے خود بھی ہر میدان پر عالم کفر کا مقابلہ کیا اور ہمیں بھی اس کا درس دیتے رہے اور اسی کا نتیجہ تھا کہ میں نے اللہ سے نصرت کی دُعا مانگی اور مقابلے کا آغاز کیا ، راؤنڈ پر راؤنڈ ہوتے رہے ۔ ابتدائی طورپر میں نے مخالف کھلاڑی کا مزاج معلوم کرنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے اسے 4 پوائنٹس اسکور کرنے کا موقع ملا اور جب مجھے پوری طرح بھارتی کھلاڑی کی کمزوریوں کا پتہ چلا تو پھر اللہ کا نام لے کر اس پر ایسے تابڑ توڑ حملے کئے کہ اسے دن میں تارے نظر آنے لگے اور پھر میں نے اسے سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیا اور ہوش تب آیا جب انٹرنیشنل مقابلے آرگنائز کرنے والے ریفری نے میری کامیابی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے مخالف بھارتی کھلاڑی پر 4 پوائنٹس کے مقابلے میں 32 پوائنٹس سے مقابلہ جیت چکا ہوں ۔
آخری راؤنڈ میں اپنی کامیابی کے اعلان پر اللہ تعالیٰ کا سجدہ شکر بجا لایا کہ اس نے ہمیں سرخ رو کیا اور اس میدان میں ہمیں اپنے پیارے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم بلند کرنے کاموقع فراہم کیا ۔ اپنی اس کامیابی پر خوش فضل قادر خان اس بات پر شاکی ہیں کہ حکومت کی جانب سے اتنے بڑے مقابلے میں انہیں کوئی سپورٹ نہیں دی گئی تمام کھلاڑی اپنے اپنے خرچے پر ان مقابلوں میں شریک ہوئے ہیں جس کا کریڈٹ اگر چہ کچھ لوگ لینے کی کوشش کریں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کھیل کے کھلاڑی اپنی مدد آپ کے تحت ملک وقوم کا نام روشن کررہے ہیں جو پاکستان سپورٹس بورڈ سمیت دیگر ذمہ داروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے!۔
1,990 total views, 2 views today