تحریر؛۔ خورشید علی
محمد ہلال کا تعلق تحصیل کبل کے گاؤں علیگرامہ سے ہے وہ پچھلے چالیس سال سے دریائے سوات کے رموز او ر اس کے اداؤں سے واقف ہے، چھ سال کی عمر میں انہوں نے اپنے والد کیساتھ دریائے سوات کے تیز لہروں کیساتھ مقابلہ کرنا شروع کیا اور اب تک وہ دریائے کی بے رحم موجوں میں مچھلیوں کے شکار کیساتھ دریائے سوات میں ڈوبنے والے افراد کی میتوں کو لواحقین کے حوالے کرنے کا کام کرتا ہے ، وہ دریائے سوات کے پانی کو آلودہ ہونے سے بچانے کیلئے اپنی جانب بھر پور کوششیں بھی کررہے ہیں، گزشتہ روز جب دریائے سوات میں مچھلیاں بڑی تعداد میں مردہ پائی گئیں تو انہوں نے مچھلیوں کو بچانے کیلئے اپنی مہم شروع کردی،
تحصیل انتظامیہ کیساتھ ساتھ انہوں نے میڈیا کو بھی اس اہم مسئلہ کی طرف نشاندہی کرادی،دریائے سوات کی اہمیت ہر دور میں رہی ہے ، اس ایک دریا سے علاقے کا ہر باشندہ مختلف فائدے اٹھارہا ہے لیکن اب یہ فائدے ختم ہوتے نظر آرہے ہیں کیونکہ دریائے سوات کے کنارے گزشتہ چند سالوں سے گندگی ڈالنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے جس کے خراب اثرات نہ صرف ماحول بلکہ دریائے سوات میں موجود مچھلیوں پر بھی ہورہے ہیں، محمد ہلال کے مطابق دریائے سوات میں جگہ جگہ موجود چھوٹے چھوٹے تالابوں میں بڑی تعداد میں مردہ مچھلیاں پائے گئی ہیں، اس عمل میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے،مختلف جگہوں پر پائے جانے والے تالابوں میں پڑی مردہ مچھلیوں کے جسم پیلے پڑ گئے ہیں جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اب دریائے سوات کاپانی مچھلیوں کیلئے فائدہ کی بجائے نقصان کا سبب بن رہا ہے، ویلج کونسل ہزار ہ کے ناظم عبدالسلام کا کہنا ہے کہ پچھلے دو تین سالوں سے ٹی ایم اے مینگورہ اور ٹی ایم اے کبل دریائے سوات کے بالکل کنارے پر گندگی پھینک رہا ہے ، جس سے دریا کا پانی زہر آلود ہو گیا ہے، انہوں نے کہا کہ ٹی ایم اے کبل کیساتھ اس ایشو کو بھر پور انداز میں اٹھا یا گیا جس کے بعد اب ٹی ایم اے کبل دریائے کے کنارے گندگی پھینکنے سے منع ہو گئی ہے
تاہم دوسری جانب ٹی ایم اے مینگورہ روزانہ اوگدو کے مقام پر ہر صبح بڑی بڑی گاڑیوں میں شہر بھر کی گندگی لا کر پھینک رہی ہے جس سے مچھلیوں اور انسانوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ایک اندازے کے مطابق روزانہ مینگورہ شہر سے ہر صبح پندرہ سو ٹن کے قریب گند اکٹھا کیا جاتا ہے جو مینگورہ شہر سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گاؤں اوگدوشیر آباد میں پھینکا جاتا ہے اس سے علاقے میں بدبو سے علاقہ مکین بھی عاجز آچکے ہیں، چند دن قبل حلقہ پی کے اکیاسی کے ایم پی اے عزیز اللہ گران نے بھی ٹی ایم اے کیخلاف احتجاج کیا اور سڑک بلاک کرکے ٹی ایم اے کی گاڑیوں کو آگے جانے نہیں دیا ، تاہم ایک دن کے احتجاج کے بعد معاملہ پھر سردخانے کی نذر ہو گیا ہے،گاؤں اوگدو سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ تحصیل میونسپل کمیٹی سے عدالت کے ذریعے بھی کیس جیت چکے ہیں تاہم عدالت کے واضح احکامات کے باوجود ٹی ایم اے مسلسل آباد ی اور دریائے سوات کے قریب گندگی پھینک رہی ہے جس سے گاؤں شیر آباد کے مکین مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں، علاقہ مکینوں نے ٹی ایم اے، صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ سے بھی درخواست کی ہے کہ ماحول اور لوگوں کی صحت کو بچانے کیلئے شہر کے گند کیلئے کوئی اور مناسب جگہ ڈھونڈلیا جائے ۔دریائے سوات کے پانی میں یہ بیماری پچھلے چند سالوں سے شروع ہوئی ہے جس میں اب شدت آرہی ہے، گزشتہ سال ایم این اے مسرت احمد زیب نے یہ سنگین ایشو حل کرنے کیلئے مردہ مچھلیاں اور پانی آسلام آباد کے لیبارٹری میں بھی بھجوایا تھا جس کے بعد محکمہ فشریز نے سوات کا دورہ کرکے دریائے سوات کے پانی کا معائنہ کیا ، تاہم محکمہ کی عدم دلچسپی کی وجہ سے مسئلہ جوں کا توں رہا۔ محکمہ فشریز سوات کے مطابق دریائے سوات کے علاوہ ، دریائے پنچکوڑہ، دریائے خان خوڑ شانگلہ ، دریائے چترال اور افغانستان میں بھی مختلف دریاؤں میں مچھلیوں میں یہ پر اسرار بیماری پھیل گئی ہے، محکمہ کے مطابق پشاور سے ایک ٹیم نے سوات کا دورہ کرکے یہاں سے پانی اور مردہ مچھلیاں لیکر پشاور روانہ ہوگئے ہیں ، جہاں پر مختلف ٹیسٹ کرنے کے بعد ہی کوئی حتمی فیصلہ اور بیماری کے حوالے با ت ہو سکے گی، اس حوالے سے جب محکمہ فشریز کے ذمہ داروں سے بات ہوئی کہ کب تک یہ مسئلہ حل ہو جائے گا تو اانہوں نے کہا کہ پشاور کی محکمہ فشریز کی رپورٹ آنے کے بعد معلوم ہو سکے گا،
دریائے سوات میں مچھلیوں کی ہلاکت کے حوالے سے ماہی گیر محمد ہلال کہتے ہیں کہ جب دریائے سوات میں پانی کی سطح کم ہوتی ہے تو یہ بیماری شدت اختیار کرلیتی ہے ، لیکن جب پانی کی سطح زیادہ ہو جاتی ہے تو پھر مچھلیوں میں یہ بیماری ختم ہو جاتی ہے ، انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہوسکتا ہے یہ بیماری ان دنوں میں بھی موجود ہو لیکن اس کا علم اس لئے نہیں ہو پا تا کیونکہ دریا کا بہاو تیز ہو تاہے اور پانی ایک جگہ پر نہیں ٹھرتا اس لئے یہ ممکن ہے کہ جو مچھلیاں مرجاتی ہیں وہ تیز بہاو میں بہہ جاتی ہونگی اس لئے ماہی گیروں کودریائے کے زیادہ بہاؤ کی وجہ سے وہ مردہ مچھلیاں نظر نہیں آتیں ۔ سوات کی لوگوں نے ضلعی انتظامیہ ، کمشنر مالاکنڈڈویژن اور صوبائی وزیر محب اللہ خان سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ دریائے سوات کے نیلگو پانی کو بچانے کیلئے بھر پور اقدامات کئے جائیں ایسا نہ ہو کہ دریا مچھلیوں سے خالی ہو جائے ۔
2,992 total views, 4 views today