تحریر :۔ محمدگل
اعلی تعلیم یافتہ، کم گو، ہمہ وقت گہرے فکر و استغراق میں گم صم، اور عجز وانکسار کا پیکر، ملائم مزاج ملک امیرذادہ کالامی جو میرے لڑکپن کے زمانے میں ایم ایم اے کے ٹکٹ پر ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ وہی زمانہ تھا جب میری شعوری جانچ و بیداری کا سفر شروع ہوا تھا۔ اخبارات و رسائل کا پابندی سے مطالعہ کیا کرتا تھا۔ روزانہ نظام و سیاست سے بیزار دانشوران و قلمکاروں کے تمام کالمز، مضامین اور تبصرے و تجزئیے چاٹ لیا کرتا تھا۔ اور اسی مطالعے کے سبب میں پاکستانی جمہوریت، نظام، سیاست اور حکومت سے نالاں ہوا تھا۔۔۔
اس درویش صفت شخص کا میرے والد مرحوم کے ساتھ قلبی نسبت و تعلق تھا، اس لئے یہ عموما والد صاحب کے دکان میں آکر بیٹھا کرتے تھے۔ طویل نشست ہوتی اور میں کبھی حیرت سے اس نظام و سیاست کے اس کارندے کے چہرے کو تکتا اور کبھی روزنامہ “آج” کے مقبول کالم نگار “دلپشوری” کے فوٹو پر گہری نظر جماتا کہ یہ ڈاکٹر ظہور احمد اعوان تو روز لکھتا ہے کہ یہ لوگ لٹیرے ہیں، ظالم ہیں، سیاہ کار ہیں، دھن و زر کے پجاری ہیں اور ان کی سرشت میں خباثتیں، مکاریاں اور جبر و استبداد کے عناصر کوٹ کوٹ بھرے ہوئے ہیں۔ یہ نظام ان کا ہے جس سے انہیں گھی،شکر اور غریب عوام کو ٹھڈے، ذلتیں، بھوک، ننگ اور افلاس ملتی ہے۔۔۔
مگر ملک امیرذادہ کا تو مزاج و سراپا دانشوران کے تجزئیے اور تبصروں سے الگ تصور پیش کرتا تھا۔ اس شخص میں تو وہ لوازمات تھے ہی نہیں جو سیاستدان اور نظام کے ہرکاروں میں پائے جانے کا دعوئ تھا۔ تکبر، نحوست، سختی، امتیاز اور نفرت کے عناصر جو ملکر ایک سیاستدان کا روپ دھار لیتے تھے۔ اس شخص کے سراپے، طبع اور کردار نے لمبے عرصے تک مجھے کنفیوز کردیا تھا۔ میں دوپاٹوں کے درمیان پس رہا تھا۔ دانشور و تجزیہ کار کہتے تھے خبردار ان لوگوں کے پاس نہیں پھٹکنا، انہیں اپنا ووٹ نہ دو، ان کے جلسوں میں مت جایا کرو، ان کی تقریریں نہ سنو، ان کی بات ہی نہ کرو کہ یہ مجرم ہیں، شیطان ہیں، سیاہ رو ہیں اور جبر و استحصال کے علمبردار ہیں۔ یہ جھوٹ بولتے ہیں، صبح شام دھوکہ دیتے ہیں، مار ڈالتے ہیں، لوٹ لیتے ہیں اور بے آبرو کردیتے ہیں۔۔۔
جبکہ امیرذادہ کا سراپا مجھے کھینچتا تھا کہ نہیں ایسا نہیں ہے، دانشور جھوٹ بولتے ہیں، وہ بلاوجہ ہم سے بیر رکھتے ہیں، خدا واسطے کی نفرت کرتے ہیں ہم سے، تم آجاو میرے پاس، چھوکر دیکھ لو، میں ایسا نہیں ہوں، بالکل بھی نہیں۔ اس کی دھیمی آواز میرے کانوں میں سرگوشی کرتی کہ میں سچ بولتا ہوں، ہمیشہ سچ بولتا ہوں، اس کی لبوں کی مسکان مجھے باور کراتی کہ میں محبت، الفت، اور رحم پر یقین رکھتا ہوں، میں نفرت نہیں محبتیں بانٹتا ہوں، اس کا کردار مجھے یقین دلاتا تھا کہ میں کسی کو نہیں لوٹتا ہوں، کسی کو دھوکہ نہیں دیتا ہوں، کسی پر جبر نہیں کرتا ہوں، کسی کو تنگ نہیں کرتا ہوں۔ میں تو مسکین اور عاجز ہوں۔ تم میں سے ہوں اور تمہارا ہوں۔۔۔
تب مجھے رفتہ رفتہ احساس وآگہی ملی کہ سب ایسا نہیں جیسے یہ دانشور بتاتے ہیں، کچھ تو اچھا ہے، تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے، میں نے دانشوروں کی کھینچی ہوئی تصویر الٹ کر دیکھی تو مسکراتا ہوا ملک امیرذادہ ملا۔ میری کنفیوژن دور ہوگئی کہ بہت جیسے نوازشریف، شھباز شریف، زرداری، اسفندیار اور الطاف جیسے ہیں مگر متعدد عمران خان، سراج الحق، اور ملک امیرذادہ جیسے بھی تو ہیں۔ جو لوٹتے نہیں ہیں، نفرت نہیں کرتے، امتیاز نہیں برتتے اور دھوکہ نہیں دیتے ہیں۔۔۔
ایک دن اخبار میں خبر آئی کہ یہ درویش مردان میں ایکسڈنٹ کرکے خالق حقیقی سے جا ملا ہے، میں نے اخبار کو لپیٹ کر تصویر کے الٹے رخ پر دیکھا تو مسکراتے ہوئے امیرذادہ کے عقب سے نظام و سیاست کا ناقد ایک دانشور قہقہہ زن تھا کہ چلو تمہیں ہم سے دور لےجانے والا ایک مہرا تو مٹ گیا۔۔۔۔۔!!
2,020 total views, 2 views today