حضرت عمرؓ کے پاس کپڑوں کے کچھ جوڑے یمن سے آئے، جن کو آپ نے لوگوں پر تقسیم کرناچاہا. ان میں ایک جوڑا خراب تھا.
آپ نے سوچا اسے کیا کروں. یہ جس کو دوں گا وہ اس کے عیب دیکھ کر لینے سے انکار کر دے گا. آپ نے اس کو لیا اور تہہ کر کے اپنی نشست گاہ کے نیچے رکھ لیا اور اس کا تھوڑا سا پلہ باہر نکال دیا. دوسرے جوڑوں کو سامنے رکھ کر لوگوں کو تقسیم کرنا شروع کر دیا. اب زبیربن العوام سامنے آئے اور آپ تقسیم میں لگے ہوئے اور اس جوڑے کو
دبائے ہوئے تھے.انہوں نے اس جوڑے کو گھورنا شروع کر دیا. پھر بولے یہ جوڑا کیسا ہے. حضرت عمرؓ نے فرمایا تم اس کو چھوڑ دو. وہ پھر بولے.یہ کیا ہے؟ یہ کیا ہے؟ اس میں کیا وصف ہے. آپ نے فرمایا تم اس کا خیال چھوڑ دو. اب انہوں نے مطالبہ کیا کہ یہ مجھے دو. حضرت عمرؓ نے ان سے پختہ اقرار کرا لیا اور یہ شرط کر لی کہ اسے قبول کرنا ہو گا اور پھر واپسی نہ ہو
سکے گی. تو نیچے سے نکال کر ان پر ڈال دیا. جب زبیرؓ نے اس کو لے کر دیکھا تو وہ ردی نکلا تو کہنے لگے میں تو اس کو لینا نہیں چاہتا. حضرت عمرؓ نے فرمایا بس بس! اب ہم آپ کے حصہ سے فارغ ہو چکے. اس کو ان ہی کے حصہ میں لگایا اور واپس لینے سے انکار کر دیا (یاد رہے کہ یہ فروخت کرنے کا معاملہ نہ تھا. اس صورت میں یہ ضروری ہے کہ اگر مال میں کوئی عیب ہو تو خریدار پر اس کو واضح کر دیا جائے) یہ تو مفت تقسیم کا معاملہ تھا.
1,840 total views, 2 views today