موضع چندا خورہ تحصیل کبل بڑا مردم خیز گاؤں ہے۔ یہاں سے ڈھیر ساری نامی گرامی شخصیات تاریخ کے صفحات پر روشنی بکھیرتی ہوئی ابھریں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں دیرپا اثرات چھوڑ گئیں۔ مفتی صاحب مرحوم و مغفور کا گھرانا نہ صرف علمی لحاظ سے ممتاز رہا بلکہ سیاسی لحاظ سے اور حکومت کے اعلیٰ مقامات تک رسائی کے لحاظ سے بھی منفرد حیثیت کا حامل رہا۔ سیاست کے میدان میں ڈاکٹر تاج ملوک صاحب امیر جماعت اسلامی سوات، ریاستی دور کے تمام تر پابندیوں کے باوجود اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ اُن کے بھائی سیف الملوک صدیقی مرحوم سے کون واقف نہیں۔ ادب کے میدان کے شاہ سوار اور حکم ران سوات کے قریب ترین معتمد۔ شاعر خوش بیان اور ادبیوں اور شاعروں کے سرپرست۔ انھی صدیقی صاحب کے ایک ماموں تھے، اسم گرامی اُن کا عزیز الرحمان تھا۔ ریاستی انتظامیہ کے اہم رکن اور کئی علاقوں میں حاکم رہ چکے تھے۔ آج میں صرف ان ہی کے بارے میں دل چسپی رکھنے والے حضرات سے کچھ باتیں شریک کرنا چاہتا ہوں۔ مرحوم نہایت ملن سار اور فقیرانہ مزاج رکھے والے آدمی تھے۔ طبیعت میں سادگی بہت زیادہ تھی۔ اُن کی تعلیمی حیثیت کے بارے میں تو مجھے کچھ خاص معلومات نہیں، مگر اُن کی خوش نویسی کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ ایسے خوش نویس میں نے کم دیکھے ہیں، جو چار زبانوں پشتو، اردو، عربی اور فارسی میں یکساں عبور رکھتے ہوں۔ اغلباً 1957ء میں وہ حاکم بابوزئ کی حیثیت سے ہمارے محلے افسر آباد سیدو شریف آئے۔ اس وقت ہم ودودیہ ہائی اسکول میں پڑھتے تھے۔ اُن کے جو چار بیٹے اُن کے ساتھ رہتے تھے، اُن میں حبیب الرحمان، محبوب الرحمان اور معشوق الرحمان ہماری عمر کے قریب تھے۔ سب سے چھوٹا بیٹا جس کو گھر والے پیار سے ’لعلونو‘ کہتے تھے اور کوئی چار سال کا تھا اس کا نام ’مصباح الدوجا‘ تھا۔
ان کے بڑے بیٹے خلیل اس وقت بریکوٹ اسپتال میں ڈسپنسر تھے اور وہیں پر رہائش پزیرتھے۔ اُن کا ابھی حال ہی میں انتقال ہوگیا۔ عزیز الرحمان صاحب جب الپورئ شانگلہ میں حاکم تھے، تو اُن کی عمل داری میں کا ناغوربند اور بشام تک کا علاقہ تھا۔ تحصیل دار کا نا اور تحصیل دار بشام دونوں ان کے ماتحت تھے۔ وہ سادہ طبیعت کے مالک تھے، لیکن اس کے ساتھ ہی وہ تھوڑے سے شکی مزاج بھی تھے اور چاہتے تھے کہ ان کی عمل داری میں رونما ہونے والے ہر واقعے سے اُن کو باخبر رکھا جائے اور ہر قدم وہ خود ہی سماعت کرکے فیصلہ دیں، تاکہ لوگوں کو شکایت نہ ہو۔ اُن کی اس تجسس کی عادت سے بعض اوقات مضحکہ خیز واقعات سننے میں آتے تھے۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کانا کے حدود میں کسی شخص کے طبلے چوری ہوگئے۔ طبلے ایک شخص سے برآمد ہوئے، تو مقدمہ تحصیل دار کانا فصیح اللسان کی عدالت میں پیش ہوا۔ نہ جانے الپورئ میں بیٹھے حاکم عزیز الرحمان کو کیسے اس مقدمے کا پتہ چل گیا، انھوں نے فوراً تحصیل دار کانا کو فون کرکے کہا کہ فریقین کو معہ طبلے کے میرے حضور پیش کرو۔ فصیح مرحوم بڑے حاضر جواب تھے، انھوں نے کہا حاکم صاحب ہر طرح کے مقدمات تو آپ ہی کے حضور پیش ہوتے ہیں۔ یہ طبلہ میرے لیے چھوڑ دیں، میں اسے آہستہ آہستہ بجاتا رہوں گا۔
بہ ہر حال جب حاکم صاحب افسر آباد آکر رہنے لگے، تو اُن کے تینوں صاحب زادے ہمارے ساتھ گھل مل گئے۔ ہم لوگ اکٹھے اسکول جاتے، شام کو مختلف کھیل کھیلتے۔ حاکم صاحب بہت سخت ڈسپلن والے تھے۔ بچے اگر چہ بڑی کلاسوں میں پڑھتے تھے مگر وہ اُن سے روز تختی لکھواتے تھے۔ وہ سب اپنے والد کی طرح خوش نویسی میں طاق تھے۔ وہ اڑوس پڑوس کے لڑکوں پر بھی نظر رکھتے تھے کہ کہیں کوئی غلط سرگرمیوں میں تو نہیں پڑا ہے۔ ایک دوپہر، رمضان میں ہم رسال دار غلام محمد کے حجرے میں بیٹھے ’’ترپ‘‘ کھیل رہے تھے۔ حاکم صاحب نے ہمیں دیکھ لیا۔ فوراً اپنے برآمدے میں رکھے فون پر سیدو شریف کا پولیس تھانہ ملایا۔ سادگی کی انتہا دیکھیے کہ ہم کو دیکھ بھی رہے ہیں کہ ہم اُن کی باتیں سن رہے ہیں۔ کہتے ہیں: ’’تھان دار صاحب فوراً چند سپاہی بھیجو، میں نے کچھ جوا کھیلنے والے پکڑے ہیں۔ اُن کو تھانہ لے جاکر بند کردیں۔‘‘ جب وہ اپنے کمرے کے اندر گئے، تو ہم وہاں سے رفو چکر ہوگئے، شام تک افسر آباد کی پہاڑی میں چھپے رہے اور افطار کی توپ چلتے ہی اپنے گھروں کو چلے گئے۔ اگلی صبح ڈرتے ڈرتے باہر نکلے۔ کچھ بھی نہ ہوا تو اسکول چلے گئے۔
کبھی گھر میں ’’چوکانڑ‘‘ پکواتے جس کو ہم ’’ورجلے‘‘ کہتے ہیں، تو سب پڑوس کے گھروں میں اصلی گھی ڈال کر بجھواتے۔ مرحوم حاکم بابوزئ کی حیثیت ہی سے ریٹائر ہو کر اپنے گاؤں چندا خورہ چلے گئے۔ اُن کے ایک صاحب زادے حبیب الرحمان بعد میں انگلینڈ جا بسے، معشوق شائد کسی بینک میں ملازم ہوگئے تھے۔ محبوب کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ وہ کیا کرتے رہے۔
2,324 total views, 2 views today