جہاں پر قابل دست اندازی جرم رونما ہوجاتا ہے، تو مستغیث، شکایت کنندہ کی شکایت پر یا ازخود پولیس ملزم کے خلاف دفعہ 154 ض۔ف کے تحت مقدمہ د رج کرکے ایف آئی آر First information report رجسٹرڈ کرتی ہے۔ ایف آئی آر درج کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ سٹیٹ کی مشینری عمل میں آجائے اور باقاعدہ طور پر تفتیش شروع کی جاسکے۔ تاکہ کسی بااثر شخصیت کے اثر و نفوذ سے بچا جاسکے۔ ملزم کو گرفتار کرکے چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر مجسٹریٹ کے سامنے لایا جاتا ہے۔ فوری گرفتاری کی صورت میں ملزم کو جرم کی نوعیت بارے بتایا جانا ضروری ہوتا ہے۔ اگرملزم کو چوبیس گھنٹوں میں عدالت مجاز کے سامنے نہیں پیش کیا جاتا، تو اس وقت عدالت عالیہ میں آرٹیکل 199 کے تحت رٹ آف ہیبئس کارپس Habeas Corpus مقدمہ کیا جاتا ہے، یعنی حبس بے جا میں رکھنے کی رپورٹ مجاز عدالت میں پیش کی جاتی ہے۔جس پولیس کے خلاف اس قسم کی رپورٹ آتی ہے اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملزم کو قاعدے اور قانون کے برخلاف رکھا گیا ہے، تو اس خلاف ورزی پرپولیس رولز کے مطابق سز ا تجویز کی جاتی ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ پولیس کی ناقص تفتیش کی وجہ سے اکثر اوقات اصل مجرم بری ہوجاتا ہے اور بعد ازاں پولیس عدالتوں پر الزام لگا تے ہوئے کہتی سنی گئی ہے کہ ہم نے تو بھر پور کوشش کی لیکن دیکھئے، عدالت نے اسے چھوڑ دیا ہے۔پولیس اسٹیشن ہی وہ ابتدائی یونٹ ہوتا ہے جس میں کسی مقدمے کی شروعات ہوتی ہے۔ اگر بروقت مضبوط تفتیش کی جائے اور ملزم کو پکڑا جائے، تو اس وقت عدالتوں میں انصاف فراہم کرنے کے لئے آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔
کسی بھی قابل دست اندازی جرم میں جب شکایت کنندہ شکایت کرتا ہے اور پولیس اسٹیشن آفیسر رپورٹ لینے سے انکار کرتا ہے، تو اس صورتA -22 ض۔ف کے تحت جسٹس آف پیس ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو ایف آئی آر درج اور رجسٹرڈ کروانے کی خاطردرخواست کی جاتی ہے۔ انکوائری ہوتی ہے، اگر یہ جرم قابل دست اندازی پولیس بنتا ہے، تو اس صورت ایف آئی آر کاٹ دی جاتی ہے۔ تفتیشی آفیسر ملزم کو پکڑ کر ملزم کے ریمانڈ کے لئے باقاعدہ طور پر عدالت سے اجازت لیتا ہے، جس کو پندرہ دن یا بعض اوقات جرم کی نوعیت کے مطابق اس میں ایزادگی کی جاتی ہے۔پولیس کو ریمانڈ کی اجازت تب ملتی ہے، جب وہ عدالت کو مقدمہ کی نوعیت پر قائل کرسکے۔ ریمانڈ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی کیس میں تفتیش کا دائرہ کار بڑھایادیا جائے اور ملزم سے بار ہا سوالات پوچھے جائیں۔ یاد رہے کہ کسی ملزم پر زبردستی کرکے بیان نہیں لیا جاسکتا، نہ بدنیتی پر مقدمہ چاک کیا جاسکتا ہے۔
قارئین، صورتحال مگر یہاں پر اور ہے۔ ریمانڈ لینے پر غیر قانونی طور پر پولیس مار مار کر ملزم کا بھرکس نکال دیتی ہے۔ ملزم سے زبردستی مطلوبہ بیان لیا جاتا ہے۔ ذاتی عناد اور بااثر شخصیات کے کہنے پرکسی کو بھی نامزد کرکے بلاوجہ ہراساں کیا جاتا ہے۔ اپنی تفتیش کے نقائص کودور کرنے کی خاطر پولیس مال خانہ جات سے برآمدی کرتی ہے۔ اصل مال کو ناقص سے تبدیل کیا جاتا ہے۔
قارئین، یاد رہے، مقدمہ رجسٹرڈ ہونے سے پہلے تفتیش نہیں کی جاتی۔ مقدمہ میں ناقص تفتیش کی سب سے بڑی وجہ سپرو ائزری اتھارٹی کا نہ ہونا ہے۔علاقہ مجسٹریٹ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ سال میں دو مرتبہ پولیس ا سٹیشن کا دورہ کرے۔ وہاں پر جاری مقدمات ڈائریز، چالان مقدمہ کا جائزہ لے اور اس میں تفتیش کے نقائص کو دور کرنے کے لئے خود جاکر جائے واردات یا جائے وقوعہ کا معائنہ کرے۔ اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے شکایت کنندہ اور گواہان کے، اور جس سے معلومات لی جاسکتی ہو، کے بیانات قلمبند کرے۔ کسی بھی کیس میں دوبارہ تفتیش مقدمے کو کمزور اور پیچیدہ کردیتی ہے۔کسی بھی کیس میں تفتیشی آفیسر کی نااہلی کی وجہ سے لوگ عدالتوں میں دھر آتے ہیں اور عدالت سے استفسار کرتے ہیں کہ تفتیش ناقص طور پر کی گئی ہے۔ اس لئے عدالت قانون کے مطابق تفتیشی آفیسر کو سمن کرکے عدالت بلاتی ہے۔ تاکہ اس سے پوچھا جائے کہ قانون کے مطابق تفتیش کیوں نہیں کی گئی ہے؟ بہت سارے مقدمات میں اس قسم کے فیصلے آئے ہیں اور مسئلہ زیر نظر کے مطابق فائنڈنگ دی گئی ہے۔ آئینی طور کسی بھی شخص کو دو مرتبہ سزا اور قیدوبند نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کسی بھی شخص کی آزادی کو بلا وجہ سلب نہیں کیا جاسکتا۔
قارئین، آئین پاکستان میں آزادی رائے اور اظہار رائے کی بھرپور آزادی دی گئی ہے۔ غیر قانونی گرفتاری کے خلاف تحفظ دیا گیا ہے ۔لیکن اکثرمقدمات میں دیکھنے میں آیا ہے کہ جب کسی فرد کی آزادی سلب کرکے اسے گرفتار کیا جاتا ہے، تو اس وقت پولیس افسران بالا اپنے آفیسر کے حق میں کھڑے نظر آتے ہیں۔اگر عدالت کسی تفتیش میں بوجوہ مداخلت کرتی ہے ،تو اس صورت ضابطہ اور شفافیت کے اصولوں کو نظر انداز ہونے کا خطر ہ موجود ہوتا ہے ۔شکایت کے توسط سے آئی جی پی اپنے ماتحت کی تفتیش اور معاملات کو دیکھتے ہیں او راس کو سپر وائز کرتے ہوئے اکثر اپنے پولیس پیٹی بندوں کا خیال رکھتے ہیں ۔ملزم ،اشتہاری، گواہوں کے بیانات لیتے وقت اکثر اوقات ان کو ماورا ئے عدالت قتل کیا جاتا ہے ۔ جس کی وجہ سے انصاف پر سے لوگوں کا یقین اٹھ چکا ہے ۔یہ صرف غیر انسانی نہیں بلکہ غیر قانونی بھی ہے ۔اگر ان حالات میں پولیس خود قانون کو توڑے تو یہ صرف قانون کے برخلاف نہیں بلکہ انہیں قانون کا محافظ کیسے سمجھاجا سکتا ہے؟ دوسری طرف یہ قانون کے ساتھ مذاق کے متراف ہے کہ ماورائے عدالت قتل کے برخلاف پولیس کو انعامات اور ترقیاں دی جاتی ہیں۔ اس قسم کے سنجیدہ مسئلوں میں شاذ و نادر ہی تفتیش کرکے اور حقیقت معلوم کرنے کے بعد کسی ملوث پولیس آفیسرز کو سزا دی جاتی ہے ۔ (جاری ہے)
3,054 total views, 2 views today