قارئین، آئین اور قانون کے رکھوالے اگر خود قانون کا احترام نہ کریں۔قانون کو پاؤں تلے روندھیں اور پھر قانون کی بالادستی کی سیٹ پر بیٹھ کر اختیارات کے نشے میں دھت اپنے آپ کو سیاہ و سفید کا مالک تصور کر یں، اپنے پیشے کو صرف اور صرف کماؤ کا ذریعہ سمجھیں، پیسہ کے لئے ہر جائز و ناجائز کام کریں اور اپنے آپ کو قانون سے بالاتر سمجھیں، تو وہاں کے لوگ بھی قانون کو طوائف سمجھ کر اسے ہر حال میں خریدنے کی کوشش ہی کرتے ہیں۔اسی طرح اگر قانون کا رکھوالا خود قانون کا احترام کرے اور آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی ڈیوٹی انجام دے، تو عام لوگ بھی نہ صرف قانون کا احترام کرتے نظر آئیں گے بلکہ پھر کوئی قانون توڑنے کی جرأت تک نہیں کرسکے گا۔
قارئین کرام، سنا ہے کہ سوات میں ایک نہایت اہم تھانے پر ایک ایس ایچ او صاحب عرصۂ دراز سے تعینات ہیں۔ موصوف اسی عہدے پر سوات کے کئی تھانوں میں اپنے فرائضِ منصبی انجام دے چکے ہیں۔ اکثر ان کے ماتحت اہلکار گلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ایس ایچ او صاحب اپنے ماتحتوں سمیت دیگر لوگوں کے لئے نہایت نازیبا زبان استعمال کرتے ہیں، جبکہ عام لوگوں سے بھی معلوم ہوا ہے کہ ایس ایچ او صاحب دفعہ107 کے مجرموں سے بھی پیسے بٹور تے ہیں۔ اور تو اور، ان سے اپنے استعمال کی مختلف اشیا بھی خریدنے کی فرمائش کرتے ہیں۔ جو شخص جیب کے پین، صابن، ریزر اور موبائل کارڈ تک دوسروں کے پیسوں سے خریدتا ہو، جس کے پاس اتنا اختیار ہوتا ہے کہ وہ چاہے تو ایک معمولی مجرم کو دہشت گرد اور دہشت گرد کو معمولی مجرم بنا سکتا ہو، تو وہ صاحب اپنے اختیار کا کتنا ناجائز فائدہ اٹھاتا ہوگا؟ جبکہ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ شادی بیاہ میں اگر کوئی محفلِ موسیقی اور آتش بازی وغیر ہ کے لئے اجازت لینے کے لئے حاضر ہوجائے، تو اکثر چاول کی بوری کے عوض اجازت مل جاتی ہے ۔
کچھ دن پہلے نام نہ لینے کی شرط پر چند اہلکاروں کا کہنا تھا کہ ایک اہلکار نے ان کے خلاف آن لائن شکایت درج کی۔ اہلکار نے ایس ایچ او کی تما م خامیاں اس شکایت میں درج کیں جو اُن میں موجود تھیں، جس پر ایس ایچ او کے خلاف انکوائری شروع ہوئی۔ جب ’’موصوف‘‘ کو پتا چلا کہ شکایت ان کے ماتحت ایک اہلکار نے کی ہے ،تو ایس ایچ او صاحب آگ بگولا ہوگئے۔ اگلے روز تمام اہلکاروں کو جمع کیا اور سب کے سامنے قرآن رکھ کر کہا کہ سب ایک ایک ہوکر حلف اٹھائے کہ ہم میں سے کسی نے شکایت نہیں کی، جن میں بہت سے اہلکاروں کے انکار پر معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ علاقہ کے مکینوں کا کہنا ہے کہ علاقے میں ان کی موجودگی میں جرائم سر اٹھا رہے ہیں، جن میں منشیات فروشی اورچوری سرِ فہرست ہے ۔ عوام کے ساتھ ایسے رویوں سے خیبر پختونخوا کی مثالی پولیس کی کارکرد گی پر سوالیہ نشان پڑ جاتا ہے کہ جہاں ایک با اختیار پولیس افسر اپنے معمول کے استعمال کی اشیا تک دوسروں کی جیب سے خریدتا ہو۔اہل علاقہ چاہتے ہیں کہ جلد از جلد موصوف کے حوالہ سے جاری انکوائری کسی منطقی انجام تک پہنچے۔
1,573 total views, 2 views today