سیاست بڑی ظالم ہوتی ہے۔ یاریاں، دوستیاں اور دشمنیاں بدلتے وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ سیاسی قوت میں روز افزوں ترقی کسی خاص منصوبے اور حکمت کا تقاضا کرتی ہے۔ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کا نہ کوئی منشور اور نظریہ ہے اور نہ کوئی عملی کردار، بس بلیم گیم ہے۔ لیکن یہ سراسر زیادتی ہوگی اگر کسی پارٹی میں اصلاح کا عنصر ہو اور اس کو بتایا نہ جائے۔ بہرحال ایسی اصلاح پسندی چھپتے نہیں چھپتی۔
قارئین، مروجہ سیاست شخصیتوں کی مرہون منت ہے۔ باالفاظ دیگر اسے موروثی سیاست بھی کہا جاسکتا ہے۔ سیاسی شعبدہ بازی کا گر سیکھنا دہائیاں لیتا ہے۔ اس لئے اپنے وارث سے سیاسی قلابازیاں سیکھتے ہوئے میدان میں اترا جاسکتا ہے یا پھر پیراشوٹ کے ذریعے بھی اترا جاسکتا ہے۔ جنات کے ذریعے اور دھاندلیوں کا شور روز اوّل سے جاری و ساری ہے۔
میرے خیال میں پاکستان کی سیاست کا جمود اس وقت ختم ہوا جب تحریک انصاف فعال سیاست میں داخل ہوئی۔ اب حکمرا ن پارٹی عدالتی کارروائیوں میں پھنس چکی ہے۔ ایک نئی روایت پروان چڑھ چکی ہے۔ دو ہزار افراد کا دھرنا دیا جائے اورغازی بن کرفیض آباد سے دوہزار فی کس کے حساب سے فاتحانہ انداز میں اپنے مطالبات منوا کر واپس ہوجائیں۔ ایک وزیر کو گھر کا راستہ دکھائیں۔ لگتا ہے کہ دوسرے اور تیسرے کی بھی خیر نہیں ۔
سمجھنے کی بات ہے کہ پاکستان انتہائی گہری نیند کی حالت سے بیدار ہو رہا ہے۔ غنودگی اور مدہوشی کے آثار کم ہونے میں اب کچھ وقت لگ رہا ہے۔ اس کو البتہ مکمل طور پر جگانے کے لئے قانونی گولیاں اور دوائیاں لینی درکار ہیں۔ بنیادی قوانین میں تبدیلی وقت کی اہم ضرورت بن کر رہ گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انہی سیاسی مسائل سے لیڈرز اور حکومتی اہلکاران اس وقت نبردآزما ہوسکتے ہیں جب عوام کی نمائندہ حکومت بنائی جائے۔ میرا مطلب واضح ہے کہ جب تک سیاسی پارٹیاں ان قانونی مسائل کوحل کرنے کے لئے گفت وشنید نہیں کریں گی،ایک ایک ایشو پر بحث و مباحثہ نہیں کیا جائے گا اور اس کامتفقہ حل فراہم نہیں ہوگا، تو شائد یہ نا ممکن اگر نہیں، تو مشکل ضرور ہوگا۔ کیوں کہ اس طرح وقت کا ضیاع ہوگا اور یہی قانونی مسائل دہائیاں لیں گے۔
اختلاف برائے اختلاف کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ مسائل کو وہی کا وہی رکھا جائے اور اس سے کنارہ کشی اختیار کرکے فرارکا راستہ اختیارکیا جائے۔ سیاست یہ ہوتی ہے کہ مجموعی مسائل کی نشاندہی کی جائے اور اس کو حل کرنے کا قرینہ سوچ لیا جائے۔ اصل مسئلے کو چھوڑ کر اس کے جزئیات کو چھیڑنا یا سرے سے نان ایشوز پر سیاست کرنا دانشمندی نہیں ہوسکتی ہے۔ جزئیات تبھی بنائی جاتی ہے جب کہ اصل مسئلہ ہی پر متفق ہوا جائے۔
سب کو پتا ہے کہ پاکستان کے مسائل کیا ہیں؟ داخلہ سے لے کر خارجہ اور دہشت گردی سے لے کر فرقہ واریت تک سب ملک کو ترقی سے کوسوں دور کررہے ہیں۔ دوسری طرف توانائی، بے روزگاری، تعلیم اور صحت کا براحال ہے۔ امن و امان، قتل و غارت گری، لوٹ مار، کرپشن، ملاوٹ، اداروں کے درمیان متنازعہ پالیسیاں، اقربا پروری، منی لانڈرنگ، خورد برد اس کے علاوہ ہے۔ مجھے یہ ماننے میں تامل نہیں کہ سیاسی پارٹیوں کے منشور میں یہ سب کچھ شامل ہے۔ بلکہ میں مانتا ہوں کہ ان مسائل کو چھوڑ کر اقتدار کو دوام دینے کے لئے چالاکی اور شعبدہ بازی کی جاتی ہے۔ مخالفین کر زیر کرنے کے لئے کردار کشی کرکے ان پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے۔ ان سب کو حل کرنے کے لئے اگر ایک طرف دستیاب وسائل کی کمی ہے، تو دوسری طرف قرضوں اور اخراجات کی لمبی فہرست۔ سرکاری عمال کی تنخواہوں کی کمی کا رونا رویا جاتا ہے۔ صوبوں کو مرکز کی طرف سے فنڈز کی ادائیگیوں میں ٹال مٹول سے کام لیا جاتا ہے ۔ صوبوں کے ترقیاتی فنڈز میں خورد برد کی جاتی ہے۔ من پسند افراد کوارزاں طور حکومتی ٹھیکے دیے جاتے ہیں۔ رائلٹی کو ادا نہیں کیا جاتا۔ بعض معاملات میں تو صوبے کی ترقی کے لئے اجازت نامے میں سالوں بیت جاتے ہیں۔ این ایف سی ایوارڈز میں حیل وحجت اوربہانے بنائے جاتے ہیں۔ اجلاس کو سالوں میں نہیں بلایا جاتا۔ صرف اس لئے کہ مخالف پارٹی کے انٹرسٹ اس جگہ ہوتی ہے۔ سیاست اور جمہوریت صرف انتقام کا نام ہے یا عوام کے مسائل کے لئے کی جاتی ہے۔ کیا حکمران سمجھتے ہیں کہ جمہوری قوتیں ملکی اداروں کے ساتھ تصادم کی صورت میں نہیں ہیں؟اگر اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے آئینی ترامیم کی جاسکتی ہیں، تو ملک اور جمہوریت کے لئے یہ زہر قاتل کب سے ہوا۔ لوٹ مار اور کرپشن کوچھپانے اور یاتحفظ دینے کے لئے قانونی راستے بنائے جاتے ہیں۔ چارٹر آف ڈیموکریسی ہو اور یا ’’نیشنل ریکن سلیئشن‘‘ عوامی راہنما ایک دوسرے کو کندھا دیتے ہیں۔ الغرض اپنے کسی ذاتی چیز اور مفادات پر مصالحت کرنے میں دیر نہیں لگاتے ۔
پاکستان میں ہر قسم کے قوانین بنائے گئے ہیں۔ اگر یوں کہا جائے کہ قوانین کی بھرمار ہے، تو بے جا نہ ہوگا، لیکن کسی طرح عوام کے دیرینہ مسائل حل ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔ کیونکر اور کس کی وجہ سے مسائل حل نہیں ہو رہے۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟ قانون کی حکمرانی کا اصول شرمندۂ تعبیر نہیں ہو رہا۔ افسوس کوئی بھی تو قانون کو نہیں مانتا۔ قدرتی اور فطرتی انصاف کے زریں اصولوں کو پائے مال کیا جاتا ہے۔ صحیح اور غلط کو گڈ مڈ اور خلط ملط کیا جاتا ہے۔
ان ہزاروں قوانین میں ازسر نو ترمیم کیا جانا چاہئے اگر ایک فرد کو تحفظ دینے کے لئے آئینی ترمیم ہوسکتا ہے، تو کیا ملکی صورتحال کے پیش نظر آئین میں بنیادی ضروریات اور قانونی یکجائیگی کے لئے ترامیم وقت کی اہم ضرورت نہیں ہے؟ کس کو ضرورت ہے کہ پاٹا ریفارمز بل پر کانسس بنائے؟ کیا پولیس رولز اور ضابطۂ دیوانی و فوجداری میں کمیوں کو پورا کرنے کا وقت نہیں آیا ہے؟ عدالتوں میں دو لاکھ زیر التوا مقدمات کو حل کرنے کے لئے پالیسی اور حکمت عملی بنائی جانی چاہئے۔ کیا صوبوں کو ان کے حقوق نہیں ملنے چاہئیں؟ کیا یہ حالات جوں کے توں رہیں گے؟ کیا شہریوں کو اصولوں اور قوانین کا پابند نہیں کیا جانا چاہئے؟ کیا کرپشن اور میرٹ کی سر عام دھجیاں بکھیرنا جائز ہوچکا ہے؟ ہزاروں لاکھوں مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے لیکن ہزاروں تو کجا سیکڑوں بھی حل نہیں ہو رہے۔ کیا پاکستان کو ’’وحدانی سٹیٹ‘‘ ہی رہنا چاہئے؟ صوبوں کو یونٹوں میں تقسیم نہیں ہونا چاہئے؟ کیا پاکستان کی پارٹیاں کسی ایک فارمولے پر یکجا نہیں ہوسکتیں؟ کیا بلوچستان کے خراب حالات کا ادراک حکمرانوں کو نہیں ہے؟ کیا انضمام کے لئے پاٹا کے عوام کی رائے پوچھنا ضروری نہیں ہے؟ کیا اور صوبے بنانے کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا توانائی (بجلی، گیس) اور پانی کی ضروریات پوری ہوگئی ہیں؟یہ اور ان جیسے کئی سوالات، جواب طلب ہیں!
2,216 total views, 2 views today