اخباری اطلاعات کے مطابق خٹک سرکار بچیوں کو اسکول کی طرف راغب کروانے کے لیے دو سو روپیہ فی بچی ’’وظیفہ‘‘ دے گی۔ ائیر کنڈیشن کمروں اور ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر کیے جانے والے فیصلے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ زمین حقائق سے ماوراء تحریک انصاف حکومت کے فیصلے اس کے اعلان کردہ مقاصد کے ساتھ موافقت نہیں رکھتے۔ آج کل اخبارات یہ بھی لکھ رہے ہیں کہ ’’کرپٹ وزراء کو نہیں چھوڑیں گے، کرپٹ وزراء مستعفی ہوجائیں‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ بیانات حکم رانوں کے اندر ’’کچھ موجود‘‘ ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ہمیں امید نہیں کہ تحریک انصاف کے وزراء کرپشن میں ملوث ہوں گے۔
گزشتہ چند سالوں میں قوم نے دیکھ لیا کہ سرکاری خزانہ، وسائل اور عوام لٹتے رہے لیکن مجرم کوئی نہیں ٹھہرا۔ بڑے مجرم، بڑے ذہین ہوتے ہیں۔ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کے اصول پر وہ بہت احتیاط اور کام یابی کے ساتھ واردات کرتے ہیں۔ پھر سیاسی مخالفت اور ہمارے یہاں کا اخلاقی معیار ایسا ہے کہ مخالف شخص یا فریق کو جس طرح بھی ہو خراب کیا جاسکتا ہے، ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے وزراء کے ساتھ کسی نے کھیل کھیلا ہو۔ وہ صاف ہوں لیکن کسی ذہین مخالف کا نشانہ بنے ہوں۔ اس لیے عمران خان اور دوسرے فیصلہ سازوں کو احتیاط کے ساتھ کام کرنا چاہیے، کہیں وہ صاف آدمی کو ضائع نہ کریں۔
پرائمری اسکولوں میں مرد؍ خواتین اساتذہ کی انگریز دانی کافی اصلاح طلب معاملہ ہے۔ پھر انگریزی، قومی ترقی اور ذاتی فلاح کے لیے اہم ترین ذریعہ نہیں لیکن تحریک انصاف نے ایک غلط فیصلہ کیا اور صوبے کی آئندہ نسلوں کو تباہی کے دہانے لاکھڑا کیا۔ اگر یہ حکومت اس صوبے کے عوام کی ترقی میں مخلص اور سنجیدہ ہے، تو اسے مقامی زبانوں کو مناسب مقام دے کر پورے صوبے میں اُردو کو ذریعۂ تعلیم بنانا چاہیے۔ اگر تمام کے تمام پٹھان روانی سے انگریزی بولنے کے قابل ہوجائیں، لیکن اُن میں قابلیت، حب الوطنی، عوام دوستی، نیکی اور بدی کا احساس نہ ہو، اُن میں فائدے اور نقصان کا ادراک نہ ہو، تو یہ صوبہ اور اس کے عوام کون سی ترقی کریں گے؟ جرائم انگریزی سیکھنے سے کم نہیں ہوجاتے۔ یہ شعور و آگہی اور احساس ذمے داری کی فراوانی سے محروم ہو جاتے ہیں اور یہ خواص انگریزی نصاب کی نسبت اردو نصاب کے ذریعے جلدی اور گہرے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
آج (گیارہ نومبر 2013ء) کی ایک خبر یہ بھی ہے کہ تعلیم لازمی قرار دی گئی ہے، اور جو بچے اسکولوں کو نہیں جاتے، اُن کے والدین کو سزا ملے گی۔ معلوم نہیں کہ خٹک سرکار کو عوام سے لڑانے کی کوشش کون کررہا ہے۔ زمینی حقائق کو سمجھ کر قانون سازی کرنی چاہیے۔ صوبے کے ’’ماہرین‘‘ تعلیم ذرا اس حقیقت سے بھی حکومت کو آگاہ کریں کہ غریب سے غریب ترین شخص اپنے بچوں کو قریبی مذہبی مدرسے میں تو رضاکارانہ بھیجتا ہے، لیکن اسکول میں نہیں بھیجتا۔ پہلے تو عوام کے اس پکے عقیدے کی طرف توجہ فرمائیں، جس کے مطابق ’’علم صرف مذہبی مدرسے اور ملا والا ہے، باقی علم ہے ہی نہیں۔‘‘ شعبۂ تعلیم ایک کم زور محاذ ہے۔ اس پر ہر سیاسی کارکن چڑھ دوڑتا ہے۔ اس میں ہر خوشامدی اور زبان دراز بڑی سے بڑی کرسی حاصل کرسکتا ہے۔ ساتھ ہی یہ ایک اہم ترین شعبہ بھی ہے۔ اس لیے اس کو قابل محفوظ اور مطمئن و خوش حال عملے کی ضرورت ہے۔ حکومت اس طرف توجہ فرمائے۔ دو سو روپیہ فی بچی کی ادائیگی، والدین کو سزا دینے والی باتیں شایدتعلیم میں اضافہ نہ کریں۔ البتہ حکومت کے لیے مشکلات ضرور پیدا کریں گے۔ اس ادائیگی سے کرپشن میں اضافہ ہوگا۔
مینگورہ میں بچیوں کو داخلے نہیں ملتے۔ کیوں کہ اسکولوں کی ناقص منصوبہ بندی اور ناقص ترین عمارات کی وجہ سے بڑھتی ہوئی طالبات آبادی کے لیے ناکافی ہیں۔ کم زور اور قوت فیصلہ سے محروم اسکول افسران کو چھوڑ کر، خٹک سرکار کسی اور گروہ سے زمینی حقائق معلوم کرے، تو اسے اپنے اقدام اور منصوبے قابل اصلاح معلوم ہوں گے۔ آپ طالبات اور اُستانیوں کو سہولیات اور اپنائیت دیں، درکار گنجائش فراہم کریں، بچوں کے داخلے کی شرح خود بہ خود بڑھ جائے گی۔ ہماری چند تجاویزہیں:
1:۔ دور افتادہ اور پس ماندہ علاقوں میں داخلوں کی شرح بڑھانے اور تعلیم کی ترقی اور تسلسل کو بر قرار رکھنے کے لیے والئی سوات والی پالیسی اختیار کی جائے۔ اساتذہ (خصوصاً زنانہ اساتذہ) پر سے ڈومیسائل، عمر، ڈویژن اور ٹریننگ کی شرائط ختم کی جائیں۔
2:۔ شہری علاقوں کے اسکولوں میں ڈبل اور ٹرپل شفٹ کا سلسلہ رائج کیا جائے۔
3:۔ پرائمری اسکولوں کے لیے صفائی کا علاحدہ عملہ اور ہر اسکول میں عملے اورطالبات کے لیے قابل استعمال فلشوں اور وافر پانی کا بندوبست مستقل اور بلا روک بنیادوں پر مہیا کیا جائے۔
4:۔ طالبات اور خواتین اساتذہ کی سفری مشکلات پر ڈپٹی کمشنرز کی نگرانی میں مسلسل نظر رکھی جائے اور ان مشکلات کو ختم کروایا جائے۔
5:۔ ٹرانسپورٹرز کا لالچ اور اُن کا تعلیم دشمن رویہ قابل سزا جرم قرار دیا جائے۔
6:۔ پرائمری اسکول کی بچیوں سے یونی فارم کی پابندی ہٹا دی جائے۔ اس طرح تعلیم سے مارکیٹ کا قبضہ کم ترین کیا جائے۔ مفت کتب کے سلسلے کو پیسوں کے لالچ سے بے شمار خرابیوں کا خدشہ ہے۔
اس لیے رشوت نہیں، سہولت دیں کا طریقہ اختیار کیا جائے، تو تعلیم عام بھی ہوگی اور اچھی بھی۔
3,042 total views, 4 views today