در اصل گوجر قوم کے نام نے آپ سب کو احساسِ کمتری میں مبتلاکردیا ہے اور اسی احساسِ کمتری نے آپ کو حساس بنا دیا ہے کہ بجائے اپنی کمزوریاں دیکھنے کے آپ دوسروں سے گلہ کرتے ہیں، کہ وہ بحیثیت قوم (گوجر) کے آپ کی عزت کیوں نہیں کرتے؟ بھئی، کیوں نہیں کریں گے، ضرور کریں گے لیکن پہلے گوجر قوم کو عزت و احترام کا مقام دے گا کون؟ یہاں ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ گوجر قوم کے بعض با شعور افراد میں گوجر قوم کی تاریخ، بہادری اور اہمیت کا احساس پیدا ہوگیا ہے لیکن یہ احساس خاص ہے، عام نہیں۔ لہٰذا اب وہ چیخ چیخ کر عام گوجروں کو یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ’’گوجر قوم ایک تاریخی قوم ہے جس نے اگر تاریخ لکھی نہیں، تو بنائی ضرور ہے۔ لہٰذا خدا کے لیے گوجر نام پر شرمندہ نہ ہوں بلکہ فخر کریں۔‘‘ لیکن میری معلومات کے مطابق یہ آواز نقار خانے میں توتی کی آواز ہے جسے اس شور میں کوئی نہیں سن رہا کہ گوجر نام گالی ہے، شرم ہے، جاہلیت ہے وغیرہ۔ لہٰذا گوجر ہوتے ہوئے بھی وہ اس نام کو قبول نہیں کر رہے بلکہ اپنی اصلیت اور نام سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔ دوسری جانب اسی سماج میں ملا اپنے آپ کو ملا، میاں اپنے آپ کو میاں اور تمام پختون اپنے سب کاسٹ، قام قبیلے کے نام پر خود کو پکارنے میں کوئی شرم اور ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ آپ سب کنفیوز ہیں۔ آپ لوگ چاہتے کیا ہیں، آپ الگ علاقہ چاہتے ہیں، الگ صوبہ چاہتے ہیں، آپ لوگ بحیثیت قوم الگ اُڑان بھرنا چاہتے ہیں؟ علیحدہ مقام، الگ نشان کے متمنی ہیں یا۔۔۔ پختونوں کے ساتھ اکٹھے چل کر، مل کر، رہ کر، بھی اپنا ایک علیحدہ تشخص چاہتے ہیں؟ کیا آپ لوگ، تعلیمی اداروں، پولیس محکموں، عدالتی دفتروں، سیاسی پارٹیوں، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ایوانوں، بنکوں اور پاکستان فوج میں ’’گوجر‘‘ قوم کے نام پر الگ کوٹا چاہتے ہیں یاآپ سب کو بحیثیت قوم یہ احساس دلایا گیا ہے کہ آپ بہت قابل ہیں، اس پوسٹ کے معیار پر پورے اترتے ہیں، قد کاٹ بھی صحیح ہے لیکن چوں کہ آپ ’’گوجر‘‘ ہیں اس لیے اس پوسٹ کے لیے آپ کا انتخاب نہیں کیا جاسکتا؟ اگر ایسا کچھ ہے، تو یہ سراسر ظلم ہے۔ میں گوجر نہ ہوتے ہوئے بھی اس ظلم کے خلاف آپ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا رہوں گا اور قلمی جہاد بھی کروں گا۔ اگر ایسا کچھ نہیں، تو پھر گلہ کیا ہے؟ یہ بار بار گوجر کا رونا کیوں رویا جارہا ہے؟ کیوں کہ اگر آپ لوگ تعلیم کے لیے اپنی گوجر قوم کے اتحاد و اتفاق، مفادات کے لیے، حقوق کے لیے سیاسی، سماجی جدوجہد کررہے ہیں، تو یہ آپ سب کا جمہوری حق ہے۔ اس سے آپ کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی، لیکن زیادہ واویلا کرنا، فریاد کرنا، شور مچانا اور گوجروں کے نام پر دھائیاں دینا، ابتدا سے لے کر آخر تک سب کچھ گوجر کے نام پر شمار کرنا، ہر تبدیلی، ہر بہادری، ہر انقلاب، ہر بڑے آدمی کے گرد گوجر قوم کے نام پر دائرہ کھینچنے کا عمل آپ کے ارد گرد دوسری اقوام اور لوگوں کو ایک خاص شبے میں مبتلا کر جاتا ہے۔ وہ شک میں پڑ جاتے ہیں۔ وہ خوف اور ڈر کے ایک ان دیکھے خطرے کومحسوس کرتے ہیں کہ خدانخواستہ کیا اس خطے میں اس بار اس نام پر کوئی خونی ڈرامہ کھیلنے کی تیاری ہو رہی ہے؟ اور اس خطرے کو اس علاقے کے ایک پس منظر میں محسوس کیا جارہا ہے، جس کی طرف اس مذکورہ کالم میں ڈاکٹر بدر الحکیم حکیم زئ نے اشارہ کیا ہے کہ ’’طبقاتی نظام نے گوجر قوم کو نہ صرف ملکیت سے محروم کیا بلکہ ان کی سیاسی و سماجی حیثیت بھی کم کی۔‘‘ یہ طبقاتی جدوجہد ایک خاص وقت میں سوات کے چند علاقوں میں کسان تحریک کے نام پر چلتی رہی۔ آخر وہ کون سا طبقہ تھا جس نے بزور گوجر قوم کو ملکیت سے محروم کیا بلکہ اُن کی سیاسی اور سماجی حیثیت بھی چھین لی؟ یہ جس نے بھی کیا ہے، بلا شبہ ظلم کیا ہے لیکن وہ با لادست طبقات اس سوچنے میں تو حق بجانب ہوں گے کہ یہ جو گوجر قوم کا ہر جانب ڈنکا بج رہا ہے، یہ ہم سے بدلہ لینے کی تیاری تو نہیں ہورہی؟ ’’چور کی داڑھی میں تنکا تو ہوتا ہے۔‘‘ ذرا سوچئے! کیوں کہ وہ طاقتیں آپ کی سرگرمیوں کو مشکوک نگاہ سے دیکھ رہی ہیں۔ اگر گوجرقوم اپنی جدوجہد کے بل بوتے پر ایک طاقت کی شکل اختیار کر جاتی ہے اور اُن بالادست طبقات سے نہ صرف اپنی ملکیت چھین لیتی ہے بلکہ اپنی سیاسی و سماجی حیثیت بھی بحال کرادیتی ہے، تو یہ تو گوجر قوم کا حق اور انصاف کا تقاضا ہے لیکن اس سے جو طبقاتی جنگ کا آغاز ہوگا، اُسے خون کا ساگر بھی نہیں روک سکے گا۔ وہ خوں ریزی اور تباہی پھیل جائے گی جس کا تصور بھی محال ہے اور جسے روکنا اور خاتمہ شاید سیکڑوں برس تک نہ ہوسکے گا۔ لہٰذا جو کچھ بھی ہو، وہ پُرامن جمہوری جدوجہد کے ذریعے ہو، آئین و قانون کے دائرے کے اندر ہو۔ پانچویں بات یہ ہے کہ میری معلومات اور بقولِ میرے دوست گوجر رضا خان کٹان خیل، اس وقت گوجروں کے نام پر تقریباً بارہ عدد تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ آخر بارہ کیوں؟ بقول باچا خان: ’’خدمت پر تو اختلاف نہیں ہوتا، اختلاف اُس وقت ہوتا ہے جب پیسوں اور کرسی کا مسئلہ آجاتا ہے۔‘‘ لہٰذا میں درخواست کروں گا کہ یہ بارہ عدد تنظیمیں اپنے شخصی حصار اور شخصیت پرستی کے دائرے سے باہر آجائیں اور ایک تنظیم پر متفق ہوں۔ تاکہ گوجر قوم کے مفاد کے لیے اتفاق کے ساتھ ساتھ طاقت اور وسائل زیادہ ہوں۔ اگر ایک تنظیم پرمتفق ہونا مشکل ہو، تومذاکرات کرکے کم سے کم ایجنڈے پر اتحاد کریں۔
آخر میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ زیادہ حساس نہ ہوں کہ گوج قوم کے ساتھ جب مویشی پالنے کا ذکر ہوتا ہے، تو آپ برا مناتے ہیں۔ یہ پیشے، یہ کام اور مصروفیات، وقت، حالات زمان و مکان پر منحصر ہوتے ہیں۔ وقت نے اب ایسے بھی گوجر پیدا کیے ہیں جو جانوروں کو چارہ بھی ڈالنا نہیں جانتے۔ لمبی میز کے پیچھے گول گھومنے والی کرسی پر بیٹھا ہوا وہ بھی گوجر ہی ہے جس کے آگے جدید لیپ ٹاپ پڑا ہوا ہے، جس کے آگے انجینئرنگ کا نقشہ پھیلا ہوا ہے، جو سٹیٹسکوپ ہاتھوں میں پکڑ کر مریض پر جھکا ہوا ہے۔
میں اپیل کروں گا کہ آج تمام انسانوں اور پاکستانیوں پر یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوکہ گوجر اس دھرتی کے ایسے لوگ ہیں جس طرح دوسرے ہیں۔ وہ اس مٹی کی پیداوار ہیں، وفادار ہیں۔ وہ اس سرزمین کے اگر غلام ہیں، تو آقا بھی ہیں۔ عوام ہیں، تو حکمران بھی ہیں۔ ہم میں کوئی فرق نہیں۔ ہم سب انسان ہیں، آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔ آدم مٹی سے بنے تھے۔ رنگ، نسل، قوم، قبیلہ صرف اس لیے بنائے گئے ہیں، تاکہ ایک دوسرے کی پہچان آسان ہو۔
1,996 total views, 2 views today