واہ بھئی واہ، کیا نرالی ترکیب ہے ڈالر کے پجاریوں کی،کس کمال مہارت سے پوری قوم کی توجہ اصل مسئلے سے ہٹا کر لایعنی بحث پر مرکوز کردی۔انڈیا کے را اور امریکہ کے سی آئی اے کے تعاون سے چلنے والے ٹی وی چینل، چڑھتے سورج کے پجاری اینکر پرسن اور شراب وشباب پر فریفتہ صحافیوں نے ہمیشہ کی طرح آقاؤں کی تدبیرکو کام یاب بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ شجاع پاشا اور لارڈ نذیر کی آنکھیں کھول دینے والے انکشافات کے علاوہ انڈیا کے اخبارنے رہی سہی کسر بھی پورا کردی۔اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ پاکستانی میڈیا ہمیشہ ملک و قوم کو صحیح سمت لے جانے کے بجائے کنفیوژن اور بے یقینی کے خوف ناک جنگل میں بھٹکانے کی پالیسی پر عمل پیرا رہا ہے۔
جدید قسم کے اسٹوڈیوز میں گھومنے والی کرسیوں پر براجمان میک اپ کی دبیز تہہ تلے طوائفوں کی مانند بکنے والے اینکر پرسن ہیرو اور ولن کی نت نئی تعریفیں کرکے پوری قوم کو گم راہ کرنے کا فریضہ احسن طریقے سے انجام دینے میں مصروف عمل ہیں۔چند فلمی ڈائیلاگ سیکھ کر ملک وملت کے یہ دشمن پاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے اور ہمیشہ پاکستان کا منفی چہرہ دنیا کو دکھانے میں پیش پیش رہنے والے یہ اینکر پرسن ملک و قوم کی کون سی خدمت کر رہے ہیں، سوائے پاکستان کو ایک ناکام، شورش زدہ اور غیر محفوظ ملک ثابت کرنے کے؟؟؟ جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے ایک جملہ کیا بولا کہ میڈیا نے پورا آسمان سر پر اٹھالیا۔ ہر طرف سے غداری اور پوری جماعت پر پابندی کی صدائیں آنا شروع ہوگئیں، جیسے جماعت اسلامی نے طالبان کے ساتھ مل کر پاکستان اور پاک فوج کے خلاف اعلان جنگ کیا ہو۔
دور جانے کی بالکل ضرورت نہیں۔ ملالہ یوسف زئی کی حال ہی میں چھپنے والی کتا ب ’’آئی ایم ملالہ‘‘ کی مثال لیجیے،جس میں واضح طور پر پاکستان اور پاکستانی فوج کی جس طرح کردار کشی کی گئی ہے، وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں، جس میں پاکستان کی تخلیق تک کو’’غلطی‘‘ قرار دی گئی۔ بانئی پاکستان کی جس انداز میں کردار کشی کی گئی ہے، اس سے کون واقف نہیں۔ اس سے قبل ملالہ پر بننے والی ڈاکومنٹری میں بھی پاک فوج کے کردارکو جس انداز سے پیش کیا گیا ہے، اس سے کون واقف نہیں؟ لیکن اس پر کوئی ہنگامہ نہیں ہو رہا، کوئی غداری کا مقدمہ نہیں چلایا جا رہا، کوئی پابندی نہیں لگائی جا رہی۔وہ پاکستان،بانئی پاکستان اور پاک فوج کے خلاف اتنا بکواس کرنے کے باوجود بھی سب کی ’’ہیروئن‘‘، قوم کی’’ بیٹی‘‘، فخر پاکستان اور نہ جانے اور کیاکیا خطابات سے نوازی جا رہی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ وجہ صاف ظاہر ہے۔ وہ مغرب کی فیکٹری میں تیاری کے مراحل میں ہے اور یہ میڈیا مغربی فیکٹری کا تیار پروڈکٹ، سب ایک آقا کے غلام، سب ڈالر کے بندے، سارے پاکستان کی کردارکشی میں ہمہ تن مصروف، سب کا ایجنڈا ایک، راستے مختلف، نہ کسی سیاسی پارٹی نے ہمت دکھائی نہ ہی بکے ہوئے اینکر پرسن اور صحافیوں کو لب کھولنے کی جسارت اور نہ ہی پاک فوج کا ری ایکشن، نہ کوئی پریس کانفرنس۔
عجب تماشا ہے اس دیس میں۔ ملالہ اور سلمان رشدی کو آزادئ اظہار رائے کا حق حاصل ہے۔ باقی پورا پاکستان اس حق سے محروم۔جماعت اسلامی پر غداری کا مقدمہ دائر کرنے کا مطالبہ کرنے والی ’’لسانی دہشت گرد جماعت‘‘ کے کردار کو ذرا دیکھیں۔ اس جماعت کے قائد کا لندن میں بیٹھ کر پاکستان کو توڑنے کی دھمکیاں کسی کو نظر نہیں آتیں، شہر کراچی کے معاشی وسائل پر گزشتہ کئی دہائیوں سے اسلحے کی زور پر قبضہ جمانے کی کوششیں، ہندوستان کی خفیہ ایجنسی کے ساتھ مل کر مہاجر رپبلکن آرمی کا قیام، ان کے دفاتر سے نیٹو اور ہندوستان ساختہ اسلحہ کی بر آمدگی، یہ سب غداری کے زمرے میں نہیں آتا، یہ ان کا ’’حق آزادی اظہار رائے اور حق حکم رانی ‘‘ ہے۔
جماعت اسلامی پر پابندی لگانے کا واویلا کرنے والی عوامی نیشنل پارٹی کے کردار کا بھی ذرا جائزہ لیجیے، یہ وہی سرخ پوش ٹولہ ہے جس نے پاکستان کے وجود کی مخالفت کی اور جو آج بھی اپنے مؤقف پر ڈٹی ہوئی ہے۔ اس پارٹی کی ’’حب الوطنی‘‘ کا اس سے بڑھ کر ثبوت کیا دیا جاسکتا ہے کہ باچا خان نے مرنے کے بعد پاکستان کی سرزمین پر دفن ہونا تک گوارا نہیں کیا اور وہ افغانستان میں سپرد خاک کر دیے گئے۔ جس پارٹی نے کراچی میں ہزاروں پشتونوں کو لسانی عصبیت کی بھینٹ چڑھا دیا ہو، جس نے پورے خیبر پختون خوا کے پشتونوں کا تین کروڑ میں سودا کیا ہو، جس نے افغان جنگ میں پاک فوج کی حمایت کی جگہ روسی بربریت کا ساتھ دیا ہو، آج وہ پاک فوج کی محبت کا راگ الاپ رہی ہے۔ یہ دراصل سرخ پوشوں کی پاک فوج سے محبت نہیں بلکہ صرف انتقام کی آگ میں جلنا ہے۔ جماعت اسلامی نے خیبر پختون خوا میں عوامی نیشنل پارٹی کی موروثی، مفاد پرستی اور قوم پرستی پر مبنی سیاست کا خاتمہ کرکے اسے آٹے سے بال کی مانند نکال کر باہر پھینکا ہے۔
جماعت اسلامی پر لعن طعن کرنے والی پیپلز پارٹی کے بانی ذالفقار علی بھٹو نے آدھا پاکستان انڈیا کی جھولی میں ڈال دیا۔ اس پرکوئی غداری کا مقدمہ نہیں چلا۔ اس وقت بھی اسی جماعت اسلامی نے البدر و الشمس کی صورت میں پاک فوج کے شانہ بہ شانہ لڑتے ہوئے اپنے دس ہزار سے زیادہ جوانوں کے سروں کی قربانی دی۔ سچ یہ ہے کہ یہ ساری جماعتیں آج تک جماعت اسلامی کو فوج کی ’’بی ٹیم‘‘ کہتی رہیں اور آج جماعت اسلامی اور فوج کو آپس میں لڑانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ ان سب کی جماعت اسلامی کے ساتھ پرانی عداوتیں ہیں۔ یہ کسی ایسے موقعے کی تلاش میں تھے، جو سید منور حسن نے انھیں فراہم کیا۔ اب یہ لوگ جماعت اسلامی کے خلاف خوب زہر فشانی کرکے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش میں مگن ہیں۔ صورت حال کچھ بھی ہو،دراصل پہلی بار مذاکرات کے حق اور ڈرون حملوں کے خلاف متحد قوم کو اصل ایشوسے ہٹا کر فروعی مسائل میں الجھانے کی جو چال چلی گئی، سیاسی پارٹیوں کی پوائنٹ اسکورنگ، بیرونی فنڈز پر چلنے والے ٹی وی چینل اور اینکر پرسن نے اسے کام یاب بنانے میں تن من دھن کی بازی لگا رہے ہیں۔بقول شاعر
قرب کے نہ وفا کے ہوتے ہیں
سارے جھگڑے انا کے ہوتے ہیں
2,284 total views, 2 views today