قانون آندھا نہیں ہوتا مگر ۔۔۔؟
گوہر علی گوہر ؔ
نصاب میں شامل اکثر مضامین پرہمارایقین اس لئے نہیں ہوتا کہ اس میں زیادہ تر عملی زندگی سے مشابہت یا مطابقت نہیں رکھتی، مگر معلوم نہیں کہ ہم کہاں سے اس مقولہ پر یقین کرگئے ؟کہ ’’قانون اندھا ہوتا ہے ‘‘کیونکہ ہم نے کہیں پڑھ کر اب تک یہی سمجھ بیٹھے تھے کہ نہ صرف قانون اندھا ہوتاہے بلکہ قانون کی تشریح کرنے والے بھی اندھے ،گونگے اور بہرے ہوتے ہیں انہیں خود کچھ نہ تو دکھائی دیتی ہیں نہ سن سکتے ہیں اور نہ بول سکتے ہیں، بلکہ سائلین یا درخواست گذاروں کی طرف سے پیش ہونے والے وکلاء انہیں سمجھانے کی کوشش کرکے درست اور غلط سمجھانے یا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں ، اس طرح ہماری یہ بھی خام خیالی تھی،کہ جس طرح قانون کے تشریح کرنے والے جج صاحبان کمرہ عدالت میں بولنے سے پرہیز کرتے ہیں ، اس طرح وہ عام زندگی میں بھی اس طرح’’ کم گو ‘‘ اور حالات سے ’’بے خبر ‘‘اور ’’ لاپرواہ‘‘ ہونگے ، مگر سپریم کورٹ اپ پاکستان کے چیف جسٹس ثا قب نثار اور جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید اور دیگر جسٹس صاحبان کے گزشتہ ایک دو ماہ سے مختلف نوعیت کے مقدمات میں ریمارکس سننے اور پڑھنے کے علاوہ چیف جسٹس اپ پاکستان کی مختلف تقریبات سے خطابات سن کر ہم اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ نصاب میں دیگر مضامین کی طرح یہ مقولہ بھی محض پڑھنے والوں کو گمراہ کرنے کے لئے شامل کیا گیا ہے ، کیونکہ قانون اگر اندھا ہوتا تو کراچی میں جعلی پولیس مقابلہ میں شہید کئے جانے والے نقیب اللہ محسودکے اندوہناک موت پر سپریم کورٹ اف پاکستان از خود نوٹس نہیں لیتے، قانون اگر اندھا ہوتا توجعلی مقابلہ کے سرغنہ ایس پی ملیر راؤ انوار کو نوکری سے برطرف نہ کیا جاتا، قانو ن اگر اندھا ہوتا تو چیف جسٹس ثاقب نثار ڈی جی سول ایوی ایشن سے راؤ انوار کے ملک سے فرار کے معلومات کے لئے ان سے کئی دنوں کے پرانہ ریکارڈ او ربیان حلفی طلب نہ کرتے، قانون اگر اندھا ہوتا تو قصور میں تشدد کے شکار کم سن بچی زینب کے قاتلوں تک رسائی ممکن نہ ہوتی ، قانون اگر اندھا ہوتا تو سنیٹر نہال چوھدری کو پانچ سال کے لئے ناہل ، ایک ماہ قید اور پچاس ہزار روپے جرمانہ نہیں کیا جاتا، قانون اگر اندھا ہوتا تو وفاقی وزیر برائے نجکاری دانیال عزیز اور وزیر مملکت طلال چوھدری کی توہین عدالت میں طلبی نہیں ہوتی، قانون اگر اندھا ہوتا تو مردان کی عاصمہ کے قتل کا معمہ حل نہیں ہوتا ، قانون اگر اندھا ہوتا تو خیبر پختونخوا میں چیف جسٹس کی طرف سے پیش کردہ صرف ایک طنزیہ ریمارکس پر صوبہ میں چند دنوں کے اندر ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے فورنزک لیبارٹری کے لئے امریکہ سے مشینری طلب نہیں کی جاتی، قانون اگر اندھا ہوتا تو نواز شریف تاحیات نااہل نہیں ہوتا، قانون اگر اندھا ہوتا تو اعلیٰ عدالتوں کے ججز صاحبان وہی سب کچھ اپنے یمارکس میں نہ کہتے جو عام لوگوں کی دل کی صدا ہوتی ہے ، اور قانون اگر اندھا ہوتا تو چیف جسٹس کراچی میں وکلاء سے خطاب کے تقریر کے حوالہ سے دئے گئے اس مثال پر ڈٹ جاتے کہ ’’ تقریر عورت کی سکرٹ کی طرح ہونی چاہیئے جو نہ اتنا لمبا ہوکہ لوگوں کی اس میں دلچسپی ختم ہو اور نہ اتنا چھوٹا ہونا چاہیئے جس کی وجہ سے اس میں پوری بات بھی سمجھ میں نہیں آسکیں‘‘ مگر جب عوام کی طرف سے اس مثا ل پر تحفظات ، خدشات اوراعتراضات شروع ہوئے تو چیف جسٹس نے انہیں عام سیاستدانوں کی طرح ’’انا‘‘ کا مسلہ بنانے کے برعکس اپنی ان الفاظ کو واپس بھی لیا اور یہ معافی بھی مانگ لی کہ اگر ان کی بات سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو اس پر وہ معذرت خواہ ہے ۔ اس لئے ہمیں اپنے دل و دماغ سے یہ بات بالکل نکالنا چاہیئے کہ’’ قانون اندھا ہوتا ہے ‘‘بلکہ ہمیں یہ پختہ یقین ہونا چاہیئے کہ قانون اندھا نہیں ہوتا ، بلکہ قانون کی دو بجائے چار آنکھیں ہوتی ہے جس سے کوئی بھی چیز اور کوئی بھی جگہ پوشیدہ نہیں رہتی ، مگر اکثر قانون کے محافظ، رکھوالے اور تشریح کرنے والے خود کو جان بوجھ کر یا کسی اور وجہ سے آندھا کرکے سارا الزام قانون پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں ، حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ اس لئے اگر ہم نے اول الذکر مقولہ کی جگہ ثانی الذکر مقولہ کو اپنا کر اسے عام کردیا تو ممکن ہے کہ قانون کے محافظ اور قانون کے تشریح کرنے والے بھی اپنی ڈیوٹی کو دیانت اور امانت کے ساتھ شروع کرکے ہرمظلوم کو انصاف اور ہر ظالم کو کیفر کردار تک پہنچانے کی سعی کرکے ’’قانون اندھا ہوتا ہے ‘‘ کا سہارا کبھی بھی نہیں لے سکیں گے ۔
2,500 total views, 2 views today