آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
Women’s Day
تحریر: خالدہ رفیق
8مارچ کو عالمی افق پر بین لاقوامی یوم نسائیت International Women Day کو پورے زور وشور سے منایا جاتا ہے۔ وطن عزیر میں ایسے تناظر میں مختلف تقاریب کا بھی اہتمام بھی کیا جاتا ہے ،مگر بدقسمتی سے فکری مغالطے ملتی ہیں جن کے بنیادی وجہ دو انتہایوں پر فکر و نظر کی عادت ہے۔ ہم جس عہد میں زندہ ہے ،اسے بجا طور پر فکرونظر کا عبوری دور کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ایک طرف طرز کہن سے اندھی محبت ہے تو دوسری طرف ائین نو سے ڈرنے کا خوف چھایا ہوا ہے اور ہم یاتو ائین نو کے انتہا پر سوچتے ہیں اور کبھی طرز کہن پہ اڑ جاتے ہیں حالانکہ یہ دونوں انتہائیں خوارقِ فطرت ہے۔
فطرت کا راستہ اعتدال کا راستہ ہیں اور یہی راستہ ہمارا مذہب اسلام ہمیں سکھاتا ہے تقاریب نسواں میں عمومََا اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ ہر دختر مشرق کودختر مغرب بنناچاہیے۔ حالانکہ غرب و شرق دو انتہائیاں ہیں جو کبھی بھی آپس میں نہیں گھل مل سکتیں یہ ایک فکری وافاقی صداقت ہے کہ مغرب مغرب ہے اور مشرق مشرق یہی وجہ ہے کہ مشرق الّو کو حماقت کی علامت جبکہ مغرب میں اسے دانائی کا استعارہ سمجھا جاتا ہے۔ مغربی طرز معاشرت تہذیب و تمدن کے تمام روایات کو انکھیں بند کر کے قبول کرنا ایک طرح سے انتہا پسندی ہے جبکہ مشرق کے سب ٹھیک ہونے کا رویہ بھی دوسری طرف ایک اور انتہا پسندی ہے۔
درحقیقت ہمارے ہاں جب آزادی نسواں کے بات کی جاتی ہیں تو اسے صرف فیشن تصنع اور یورپی طرز بودوباش تک محدود کیا جاتا ہے یعنی ہمارے ہاں آزادی نسواں سے مراد عورت کو صبائے پری یا شمع محفل کے سواء کچھ نہیں یعیناََ اسے معاشی ، تعلیمی ، مذہبی اور روایتی کالے قوانین سے آزاد کرنے کا رویہ نہیں ہے ہمارے ہاں عورت کو وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے اور اس تصور کے خلاف آزادی نسواں کے کسی تنظیم یا ہمارے کسی مذہبی ادارے نے آج تک مؤ ثرآداز نہیں اٹھائی ہے مذید براں کسی حکومت نے بھی اسی تناظر میں موثر قانون سازی نہیں کی ہے اسی طرح ونی، وٹہ سٹہ، سورہ اور غگ جیسے جاہلانہ رسومات کے خلاف آزادی نسواں کے تحاریک کا کردار محض نمائش اور اخبارات تک محدود ہے۔ جبکہ ہماری مذہبی تنظیمیں اس بارے میں خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔
یہ المیہ ہمارے ہاں زمانہ قدیم سے زمانہ جدید تک برابر قوی اورتوانا رہا ہے یہاں تک کہ صوبہ سندھ میں جائیداد بچانے کے خاطر قرآن مجید سے عورت کو منسوب کیا جاتا ہے ۔ آج تک میری ناقص علم میں اس کے خلاف کوئی بیانیہ نہ تو مذہبی اداروں سے آیا ہے اور نہ ہی آزادی نسواں کے تنطیموں نے اس کے خلاف کوئی جنگ لڑی ہے۔ اسے تناظر میں آزادی نسواں کی تنظموں ، مذہبی تنظیموں اور قانون ساز اداروں کے کاوشیں گفتن، نشتن اور برخاستن تک محدود ہیں۔
ہمارے ہاں خواتین کو با اختیار بنانے کی باتیں تو بہت کی جاتی ہیں لیکن عملََا کارکردگی صفر کے برابر ہے۔پاکستان میں خواتین آبادی کی شرح تقریباََ49.2% ہیں جبکہ خدمات میں ان کی شمولیت کا شرح تقریباََ 22% ہیں جبکہ ملازمتوں میں عورتوں کا مخصوص کوٹہ زیادہ سے زیادہ 15% ہے اسی طرح سیاست میں عورتوں کی شمولیت بلا واسطہ ایوان بالا اورایوان زیریں دونوں میں صرف17% ہے۔ ان اعداد وشمار سے واضح ہوتا ہے کہ ہماری معیشت میں عورتوں کا فعالی کردار نہایت محدود ہے۔ تجارت صنعت وحرفت اور زراعت میں تو عورتوں کی حصہ داری کے اعدادوشمار اور زیادہ مایوس کن ہے۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ عورتوں کا سیاست میں فعالی کردار مردوں کی مرہون منت ہے۔ مرد حضرات عورتوں کے لیے تمام سیاسی جماعتوں میں عورتوں کے مخصوص نشستوں پر نامزدگی کا اختیار رکھتے ہیں گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ عورتوں کی فعالی سیاست میں کرادار نہ ہونے کی برابرہے ۔
سوعورتوں کے لیے قانون سازی اور ان کو بااختیار بنانے کا خواب’’ ہنوذدلّی دور است ‘‘ کے مصداق ہے۔ عورتیں جو ہمارے آبادی کا نصف ہیں اگران کو ان کے صحیح خقوق دیے جائیں تو پاکستان ایک مظبوط معاشی طاقت بن سکتا ہے عورتوں کا اقتصادیات میں کردار جلد یا بدیر تسلیم کرنا پڑیگا کیونکہ اکیلے مردکسی ملک کی ترقی کے لیے سو فیصد کردار ادا نہیں کر سکتے حقوق نسواں کی تنظموں کا فرض بنتا ہے کہ وہ عورتوں کو معاشی سیاسی تعلیمی اور قانون لحاظ سے بااختیار بنانے کیلے ٹھوس کو شیش کریں نہ کہ عورت کو اپنے ماحول مذہب اور عقیدے کے خلاف باغی بنائیں اور وہ ایک غود ونمائش کا کھلونہ بن جائیں اور معاشرے میں ایسے فسادات اور حوادث شروع ہوجائیں جو خود عورت کے ذات کے لئے بھی المناک ثابت ہوں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عورتوں کے بارے میں دو انتہائیوں کو چھوڑ کر اعتدال اور میانہ روی کا طرز فکر اپنایا جائے اور اُسے شمع محفل یا اندھیری کے قیدی بنانے سے گریز کیا جائے ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ عورت اپنی مذہب اور روایات کے ساتھ ساتھ جدید دنیا میں ایک فعال کارکن کا کردار ادا کرنے کے قابل ہو جائیں۔ شاعر کے بقول:
تول کر دیکھ لیں عظمت کے ترازو میں اسے
میری چادر تیرے دستار سے بھاری ہوگی
2,656 total views, 2 views today