ہر وہ کام جو انسان فرصت کے لمحات میں بطور تفریح کرتا ہے اور اس سے براہ راست اس کا کوئی مادی مفاد وابستہ نہ ہو، مشغلہ کہلاتا ہے۔ زندگی چوں کہ جہد مسلسل ہے اورانسان ہمیشہ کسی نہ کسی کام میں لگا رہتا ہے، لیکن روز مرہ زندگی کے جو کام ہوتے ہیں، انسان اس میں تھکاوٹ اور بوریت محسوس کرتا ہے۔ اس لیے وہ اپنی جسمانی و ذہنی تھکاوٹ اور بوریت کو ختم کرنے کے لیے دیگر مشاغل کا انتخاب کرتا ہے۔ تاکہ اس کو جسمانی آرام اور ذہنی اطمینان مل سکے، جس طرح کہ ایک انگریزی ضرب المثل میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے: Exchang of activities is the rest of mind اور بالکل اسی طرح پشتو میں کہا گیا ہے: ’’یو کار دَ بل دمہ وی۔‘‘ اس تناظر میں جب ہم بعض افراد کے فارغ لمحات کے مصرف کی خاطر ان کے مشاغل دیکھتے ہیں، تو حیران رہ جاتے ہیں، کیوں کہ انھوں نے اپنے سیر و تفریح کے لمحات میں بھی بڑے کارنامے انجام دیے ہیں۔
مندرجہ بالا تمہید سوات کے رحیم شاہ رحیم کی ادبی خدمات پر پورا اترتی ہے۔ رحیم شاہ رحیم چار اپریل 1954ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام عقل مند تھا۔ آپ نے سوات کے علی گڑھ (جہانزیب کالج) سے ایف اے اور بی اے کے امتحانات پاس کیے۔ اس کے بعد آپ نے اردو، پشتو اور اسلامیات میں ماسٹر کی ڈگریاں حاصل کیں۔ بینک میں کیشئر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کرکے بینک آفیسر کے عہدے تک پہنچ گئے۔
بینک کی ملازمت میں فارغ لمحات بہت کم ہوتے ہیں، لیکن اتنی مصروفیات کے باوجود جب ہم رحیم شاہ رحیمؔ کی ادبی خدمات کو دیکھتے ہیں، تو حیران رہ جاتے ہیں۔ کیوں کہ اتنے زیادہ تخلیقی اور تحقیقی کام کے لیے فل ٹائم کی ضرورت ہوتی ہے۔ رحیم شاہ رحیمؔ کے موجودہ تخلیقی اور تحقیقی کاموں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں بھی وہ بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، لیکن موت یہ نہیں دیکھتی کہ ایک آدمی کی باقی انسانوں کو کتنی ضرورت ہے اور اس کی کیا خدمات ہیں۔ یہی حال رحیم شاہ رحیمؔ کا بھی ہوا اور پانچ دسمبر 2007ء کو آپ ابدی نیند سو گئے، لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تخلیق کار کبھی نہیں مرتا، وہ گرچہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے، لیکن اس کے کام کی وجہ سے ہر محفل میں اس کا ذکر ہوتا ہے۔ اور یوں وہ رہتی دنیا تک زندہ رہتا ہے۔
رحیم شاہ رحیمؔ کو پورے پختون خوا میں بحیثیت شاعر، ادیب، ناول نگار، مؤرخ، محقق، نقاد اور ایک اچھے انسان پہچانا جاتا ہے۔ آپ کی زندگی اور شخصیت کے ایک ایک پہلو پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے، لیکن افسوس کہ آپ نے اپنی ساری زندگی ادیبوں اور شاعروں کے گم شدہ خزانوں کو نکالنے اور انھیں باقی ماندہ دنیا سے متعارف کرانے میں گزاری، اب جب کہ آپ کو سدھارے ہوئے چھے سال گزر چکے ہیں، مگر ادیبوں، شاعروں، محققین اور مؤرخین نے آپ کی خدمات کو خاطر خواہ توجہ نہیں دی ہے۔ آپ نے اپنی زندگی میں آٹھ کتابیں شائع کی ہیں۔ آپ کے اس کے علاوہ نظم و نثر اور تخلیق و تحقیق کے بہت سے غیر مطبوعہ مخطوطات پڑے ہیں۔ آپ کی مطبوعہ کتابوں میں ’’راجگنڑہ1989ء، بی بی مبارکہ 1991ء اور سکندر اعظم 2005ء اعلیٰ پائے کے تاریخی ناول ہیں۔ اس طرح غرسنئی 1990ء، زلزلے 2007ء اور ’پیکڑے‘ شعری مجموعے ہیں۔ ’سوات نامہ جواب نامہ‘ 2006ء خوشحال خان خٹک کی مشہور کتاب ’’سوات نامہ ‘‘ کا ’منظوم جواب‘ ہے۔ اس طرح ’واورینے سوکے‘ 1986ء، سوات اور ملاکنڈ کے شعراء کا تذکرہ ہے۔ آپ نے سوات کے گلیوں، پہاڑوں اور صحراؤں میں گم شدہ شعراء کو باقی ماندہ دنیا سے متعارف کرانے کے لیے کئی سالوں تک کام کیا اور ڈھیر ساروں کا کلام اور ان کے بارے میں مستند معلومات حاصل کرکے، ان کے بارے میں وقتاً فوقتاً اعلیٰ پائے کے تحقیقی مقالے لکھے اور مختلف رسالوں میں شائع کیے۔ اس کے علاوہ آپ سوات کے قدیم پشتو شعراء کا تذکرہ بھی شروع کرچکے تھے، لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تاحال اشاعت کا منتظر ہے۔
ہمارے ہاں نشر و اشاعت کے بڑے بڑے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے موجود ہیں۔ خدا کرے کہ ان اداروں کی توجہ رحیم شاہ رحیمؔ کی ادبی خدمات کی طرف مبذول ہوجائے اور وہ آپ کے غیر مطبوعہ مواد کی طباعت کا اہتمام کرے، تاکہ آپ کی علمی و ادبی خدمات سے لوگ استفادہ کرسکیں اور باقی ماندہ دنیا بھی آپ کی خدمات سے آگاہ ہو۔ اس بابت جب آپ کے خاندان والوں سے آپ کی علمی اور ادبی خدمات سے استفادہ کرنے کی بات کی جاتی ہے، تو وہ اس خوف سے کسی کو دینے کو تیار نہیں کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی آپ کے کام کو اپنے نام سے شائع کریں یا وہ کہیں بے احتیاطی کی نذر نہ ہو۔
دیکھنے میں آیا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس طرح کا قیمتی مواد اکثر ضائع ہو جاتا ہے۔ اس لیے ادب، تاریخ اور تحقیق کے شائقین کو بھی یہ خوف ہے کہ ایسا نہ ہو کہ یہ مواد ضائع ہوجائے اور رحیم شاہ رحیمؔ کی عمر بھر کی کمائی (تخلیقی کام) سے شائقین اور قارئین محروم ہوجائیں۔ اس قیمتی اثاثہ کو محفوظ کرنے کے لیے ضروری اقدام کیے جائیں، تو از چہ بہتر؟؟؟
رحیم شاہ رحیمؔ سوات کی ادب اور تاریخ میں خاص دل چسپی رکھتے تھے۔ اس حوالے سے آپ ادارہ ’’سواتیالوجی‘‘ اور ’’افغان اکیڈمی‘‘ کے نام سے مستقبل میں ایک بڑے تحقیقی مرکز کے قیام کا ارادہ رکھتے تھے۔ سوات میں یقیناًاس قسم کے کم از کم ایک مرکز کے قیام کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں سوات یونی ورسٹی کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ یونی ورسٹی میں ’’سوات اسٹڈی سنٹر‘‘ کا قیام ضروری ہے، تاکہ یہاں کی تہذیب و ثقافت، تاریخ، ادبیات اور لسانیات وغیرہ پر تحقیق کی راہ کھل سکے۔
آمدم بر سر مطلب، رحیم شاہ رحیمؔ نے حافظ الپورئ اور احمد دین طالب پر بڑا تحقیقی کام کیا ہے، جو مذکورہ شعراء کے دیوانوں کے ساتھ مقدمہ کے طور پر درج بھی ہے۔
رحیم شاہ رحیمؔ سوات پشتو ادبی ٹولنہ (قائم شدہ 1972ء) کے بانی ارکان میں سے ہیں۔ آپ نے نہ صرف ڈھیر سارے اخبارات و رسائل میں تحقیقی مقالے اور مضامین لکھے ہیں بلکہ کئی کتابوں پر تحقیقی دیباچے بھی لکھے ہیں۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ رحیم شاہ رحیم کی مذکورہ بالا مقالوں، اخباری مضامین اور کتابوں پر لکھے گئے دیباچوں کو جمع کیا جائے۔ اس کے ساتھ سوات کے ادبی حلقوں سے بھی گزارش ہے کہ رحیم شاہ رحیم کی ادبی خدمات پر ایک سیمینار منعقد کیا جائے، تاکہ آپ کی خدمات سے مستقبل کے محققین کما حقہ استفادہ کرسکیں۔ اس کے علاوہ رحیم شاہ رحیم کے ساتھ جن حضرات کی خط و کتابت ہوئی ہے، تو انھیں چاہیے کہ آپ کے خطوط جمع کریں۔ راقم الحروف اس بارے ایک رابطہ کار کی حیثیت سے یہ بار گراں اٹھانے کے لیے تیار ہے۔
اگر کسی کے پاس رحیم شاہ رحیمؔ کے بارے میں کوئی تحریری یا غیر تحریری معلومات ہوں، تو راقم سے رابطہ کرکے اپنا حق ادا کریں۔ آپ کے خاندان والوں اور خاص کر آپ کے دو جوان بیٹوں تیمور شاہ اور ایمل شاہ کو بھی چاہیے کہ رحیم شاہ رحیمؔ پر تحقیق کرنے والوں کے ساتھ تعاون کریں اور آپ کے ذخیرۂ کتب اور قلمی نسخوں کی حفاظت کریں۔
2,968 total views, 4 views today