تحریر ؛۔ تنویر احمد کوہستانی
آیت کریمہ ہے کہ اللہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت خود نہ بدلے۔اللہ پاک نے انسان کو سدھر جانے کے لیے کافی مواقع دیے ہیں، لیکن ایک ہم ہیں کہ مانتے ہی نہیں۔ ہم اللہ کی تمام نعمتوں سے انکاری ہوچکے ہیں۔ ہمیں مرتے دم تک اس کااحساس نہیں ہوگا۔ مرنے کے بعد ان نعمتوں کا باقاعدہ پوچھا جائے گا۔
آدم علیہ السلام نے اللہ سے پوچھا: ’’اے اللہ! تو نے اپنے تمام انسانوں کو ایک جیسا کیوں نہیں بنایا؟‘‘ اللہ نے فرمایا: اے آدم! میں نے سب کو اس لیے ایک جیسا نہیں بنایا کہ آخرت میں ان لوگوں سے سوال نہ کروں جن کو میں نے مکمل پیدا نہیں کیا۔ اورجن کے اعضاپورے تھے، ان سے یہ سوال کروں کہ کیامیری نعمتوں کا شکر ادا کیا؟
قارئین، اللہ تعالی نے ہمیں ایک نعمت درال دریا کی شکل میں دی ہے۔ یہ دریاصاف و شفاف پانی بھی فراہم کرتا ہے اور وادئ بحرین کی سیاحت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار بھی ادا کرتاہے، مگر افسوس صد افسوس کہ ہم اس نعمت کی ازحد بے قدری کرتے ہیں۔ میرے پاس درال کی خوبصورتی کی ایسی کوئی مثال نہیں جو میں پیش کرسکوں۔ اس دریا نے بحرین وادی کوقدرتی حسن و جمال عطا کیا ہے۔جس کے باعث ہماری یہ چھوٹی سی وادی امریکہ اور لندن جیسے جدید ممالک سے بھی ممتاز ہے بلکہ میں اس وادی کا موازنہ یورپی ممالک سے کرتے ہوئے اس کی توہین سمجھوں گا۔ ان کے پاس محض مصنوعی سجاوٹ کے سوا کچھ نہیں اور درال دریا، دریائے سوات اور بلند و بالا پہاڑوں کی قدرتی خوبصورتی صرف وادئ بحرین ہی کو حاصل ہے۔
قارئین، فرصت کے لمحوں میں درال کنارے بیٹھ کر اپنے آپ میں مست ہوجاتا ہوں لیکن یہ بڑاشرارتی دریابھی ہے۔ ہمیشہ ٹھنڈے پانی کی چھینٹے پھینک کر مجھے جگا دیتا ہے، تو کبھی ٹھنڈے جھونکوں سے میرے گالوں پر تھپکی دیتا ہے، مگر یہ جو بیان کررہا ہوں ہے، اب کی بات نہیں ہے، ایسا ماضی میں ہو اکرتا تھا۔ میری طرح تھکان سے چور لوگ اسی دریاکنارے ڈیرے ڈال دیتے تھے۔بچے اور بڑے بوڑھے اکثر اس میں غوطے لگا کر اس کو پارکرنے کی کوشش کرتے تھے اور کبھی اس کے ٹھنڈے پانی سے مقابلہ ہار کر واپس بڑے سے پتھر پر بیٹھ کر دوسروں کا تماشا کرتے تھے۔سیاح جب بحرین آئیں اور تصویر کشی نہ کریں، تو اپنے دوستوں کو کیسے یقین دلائیں گے کہ وہ سوات آکر بحرین بھی آئے تھے؟ درال دریا تھا ہی ایسا کہ جسے دیکھتے ہی سیاح اپنے کیمرے اٹھا لیتے تھے۔ پھر مستیاں، سیلفیاں اور شرارتیں شروع ہوجاتیں۔ وہ بھاری بھرکم پتھروں سے موجوں کا ٹکرانا، وہ درال کا مسحور کن شور، وہ دوستوں کی خوش گپیاں
یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
افسوس صدافسوس اب طبیعت بوجھل ہے۔ یاروں کی محفلیں نہیں جمتیں۔ کہیں حسن نہیں ملتا۔ ہر جگہ روکھا پن دکھائی دے رہا ہے۔ درال خاموش ہے۔ اس میں ایک قطرہ پانی بھی نہیں ہے۔ شاید درال کے آنسو خشک ہوگئے ہیں۔ کبھی کبھار یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں وادئی بحرین میں نہیں بلکہ پنڈی کے ہزارہ کالونی میں پڑا ہوں اور ٹھنڈے پانی کی ایک ایک بوند کے لیے ترس رہا ہوں۔ آپ ضرور پوچھیں گے کہ درال کیوں خاموش ہوا، یا خاموش کردیا گیا؟ تو سنیں کہ ہمارے لیے ایک بڑا منصوبہ تیار ہورہا ہے۔ ’’پاکستانی کی ترقی کا منصوبہ۔‘‘ یہ یقیناًہی کوئی بہت بڑا منصوبہ ہوگا جو ملکی بجلی میں چھتیس میگاواٹ کا اضافہ کرے گا اور بات اگر ملکی ترقی کی ہو، تو بھلا ہم کیسے ’’ناں‘‘ کہہ سکتے ہیں؟ چاہے ہماری وادی کی معیشت کو زوال ہی کیوں نہ آتا ہو۔ چاہے یہاں غربت کا دور دورہ شروع کیوں نہ ہوجائے، لیکن بقول شاعر
آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور رکریں
ہم اگر عرض کریں گے، تو شکایت ہوگی
اس منصوبے سے ہمارے لیے ایک بلب روشن کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔ اوپر سے ہماری معیشت کا زوال ابھی سے شروع ہوچکا ہے۔ جب ڈیم کا کام شروع ہوا تھا، تب بھی ہم نے بہت سے نقصانات اٹھائے تھے،مگر اب ہم در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ سیاحت زوال پذیر ہونے کے باعث ہزاروں کی تعداد میں مقامی لوگوں نے شہروں کی طرف نقلِ مکانی شروع کر دی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دس ہزار سے زائد دیار کے قیمتی درختوں کو اس منصوبے کی نذر کردیا گیا ہے۔ اس سارے نقصان میں ہمارے بڑے بھی برابر کے شریک ہیں، جنہوں نے نہ تو پہلے حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ کیا اور نہ ان کے پاس ایسی کوئی دستاویزات ہیں کہ جن کی بنیاد پر وہ اپنے حقوق کے لیے لڑسکیں۔ یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ ہمارے مشران سے صرف دستاویزات پہ انگوٹھے لگوائے گئے۔ ان کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ہم ایک تباہی کے منصوبے پر انگوٹھے لگا رہے ہیں۔دوسرا بڑا قصور ہم نوجوانوں کا بھی ہے، جنہوں نے بس اپنے علاقہ مشران کو ملک صاحب، خان صاحب کہہ کر ان کا ہر جگہ احترام کیا ہے،لیکن کبھی ایسی تجویز پیش نہیں کی جس سے ہم ترقی کی جانب بڑھ سکیں۔ ہمارے مشران کا قصور صرف یہ ہے کہ انہیں حکومت نے ناخواندہ بنائے رکھا مگر ہمارے پڑھے لکھے نوجوانوں نے بھی ہوش کے ناخن نہیں لیے کہ ان مشران کے ساتھ بیٹھ کر انہیں سمجھایا جائے کہ جو منصوبہ تیار ہورہا ہے، اس سے ہمارے لیے فائدہ کتنا ہے اور نقصان کتنا ہے؟
آخر میں ان حضرات سے چند سوالات پوچھنے کی جسارت کرتا ہوں جنہوں نے دستاویزات پر انگوٹھے لگائے۔درال ڈیم کی وجہ سے ہماری جو لاکھوں کی زراعت تباہ ہوچکی، اس کا ذمہ دار کون ہے؟
درال ڈیم کی وجہ سے جو رہن سہن کے طریقے تھے، وہ برباد ہوئے، اس کا ذمہ دار کون ہے؟
درال ڈیم کی وجہ سے ہم بہت سے قدرتی معدنیات سے محروم ہوگئے، اس کا ذمہ دار کون ہے؟
درال ڈیم کی وجہ سے جو وادئی بحرین کا قدرتی حسن تباہ و برباد ہوا، اس کا ذمہ دار کون ہے؟
درال ڈیم روڈ کی وجہ سے گھروں پہ آئے دن بڑے بڑے پتھر آگرتے ہیں اور لینڈ سلائڈنگ ہوتی ہے ، اس کا ذمہ دار کون ہے؟
درال ڈیم روڈ کی وجہ سے لوگوں کا اپنے ہی گھروں میں رہنا دشوار ہو چکا ہے، اس کا ذمہ دار کون ہے؟
پہلے جب بارش ہوتی تھی، تو سب کے چہرے کھل اٹھتے تھے۔ اب آسمان پہ بادل چھا جائیں، تو یہی فکر رہتی ہے کہ پتا نہیں کب پتھر گریں گے۔ اب درال کے ارگرد گرد جو گھر ہیں، ان کے مکین ہر وقت اسی پریشانی مبتلا رہتے ہیں کہ کہیں کوئی پتھر نہ آگرے۔اس فکر نے انہیں ذہنی مریض بنادیا ہے۔ اس تمام تر صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟اگر ہمارے ہمدرد مشران کو پہلے سے معلوم ہوتا کہ عنقریب ایک مصیبت آرہی ہے، تو چاہیے یہ تھا کے ہر علاقے سے دو تین معززین کو بلایا جاتا اور مشورہ کیا جاتا۔جرگہ کیا جاتا اور کوئی نہ کوئی حل نکالا جاتا۔ میرے ناقص خیال کے مطابق ہر عام وخاص تک اس بات کی رسائی ہونی چاہیے تھی کہ ہماری جنت نظیر وادی بحرین کے حسن کو داؤ پر لگایا جارہا ہے، لیکن ایسا نہیں ہوا۔
بحرین والوں پہ دو بڑے اژدھے مسلط ہوئے ہیں۔ ایک سیلاب کی شکل میں اور دوسرا ہم نے خود اپنے آپ اوپر مسلط کیا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے ہر چیز اور ہر کام درہم برہم ہوا تھا۔لوگوں کے پاس کھانے کو بھی کچھ نہیں بچاتھا جب کہ دوسرا اژدھا جو ہم پر مسلط ہے ،بہت ہی خطرناک ہے۔ امید ہے اس سے بھی اللہ ہی نجات دے گا،لیکن اگر ہم ہی اپنے اوپر ظلم کریں تو مسئلے کا حل نکلنا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ا س حوالہ سے سب کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔
2,791 total views, 2 views today