ریستوران میں بیٹھ کر بارش رکنے کا بے تابی سے انتظار کر رہا تھا۔اسی اثنا میں ایک دوست بھاگا بھاگا ریستوران میں گھس آیا۔ اس کی سانسیں پھول رہی تھیں۔ وہ سیدھا میرے پاس آکر بیٹھ گیا اور اٹکی ہوئی آواز میں گویا ہوا: ’’جلدی اپنا موبائل نکالو اور پاکستان زندہ باد کا سٹیس لگاؤ۔‘‘یہ سن کر میں چونک گیا اور آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ اچانک میرے ملک پر کہاں سے آفت ٹوٹ پڑی؟ یوں محسوس ہونے لگا جیسے دشمن نے دھرتی ماں کو چاروں طرف سے گھیر لیا ہو۔ اس لیے اب دشمن کو مرعوب کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر ایسا پیغام بھیجنا پڑ رہا ہے۔ لیکن ہمت کرکے اعصاب پر قابو پالیا اور پوچھ ہی لیا کہ بھائی ہوا کیا ہے کہ ایسے اچانک پاکستان زندہ باد کا سٹیٹس لگانے کی نوبت آگئی ہے؟ جواباًدوست کہنے لگا کہ کچھ نہیں ہوا، بس ایک نیا ٹرینڈ شروع کردیا گیا ہے۔ اس کا جواب پاکر میرے حواس بحال ہوئے۔ میں نے اسے اپنے تئیں سمجھانے کی کوشش کی کہ بھائی پاکستان سے لازوال محبت کی مثالیں تمام ثبوتوں اور گواہوں کے ساتھ موجود ہیں۔ جب بھی دشمنوں کی نیت میں کھوٹ پڑگئی، تو پاکستانی قوم کا جذبہ اور جنون دشمن کا نام و نشان مٹانے کے لیے کافی ہوگا۔ اسی کی بدولت اب دشمن اپنی نیت ظاہر کرنے سے قبل سو مرتبہ ان نشانیوں کی طرف گھورتا ہے اور نیت بدل کر واپس بل میں گھس جاتا ہے۔
قارئین، یہ کہہ کر میں نے اپنے دوست کو رخصت کیا اور اطمینان سے واپس اپنے گھر آگیا۔ موبائل نکال کر جیسے ہی فیس بک کھولی، توپاکستان زندہ باد کے نعروں سے فیس بک بھرا ہوا دیکھ رہا تھا۔
تھوڑی دیر کے لیے خوشی سے پھولے نہیں سمایا کہ چلو ایک ٹرینڈ ہی سہی، مگر دھرتی ماں سے محبت اور پیار کا جذبہ کتنا مؤثر ہوتا ہے کہ چند لمحوں میں فیس بک ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعروں سے اس طرح گونج اٹھا ہے کہ شاید ’’مارک زکر برگ‘‘ صاحب کو بھی کان میں انگلیاں ٹھونسنی پڑیں۔ لیکن کچھ لمحے بعد اپنے ایک قابل سوشل ایکٹیوسٹ دوست مجاہد توروالی کی پوسٹ مع تصاویر دیکھ کر یک دم ایک تشویش میں مبتلا ہوگیا۔ پھر اس کے بعد معلوم کرنے پر پتا چلا کہ پی ٹی ایم کے سخت ناقدین اور اس کے خلاف اٹھنے والے لوگوں کا ایک گروہ مسیجز بھیج کر یہ سب کچھ کروا رہا ہے۔ اور ایسا کرنے کا مقصد خواہ مخواہ پی ٹی ایم کو ایک بھرپور ’’اینٹی سٹیٹ‘‘ قوت ظاہر کرنا ہے۔ مجھے صد فیصد یقین ہے کہ ہمارے سیکورٹی ادارے ہر ایرے غیرے کو یہ اختیار نہیں دے سکتے کہ کس کو محب وطن قرار دیا جائے اور کس سے زبردستی وطن دوستی کا اظہار کروایا جائے۔ عام آدمی بخوبی جانتا ہے کہ ہمارے اداروں کے پاس اپنے پیشہ ورانہ استعمال کے وہ جواہر موجود ہیں جن کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا،تو پھر کون ہو تم ؟کیا ایجنڈا ہے آپ لوگوں کا؟ کیا ثابت کرنا چاہتے ہو؟ آپ کو سٹیٹ نے یہ اختیار کب دیا ہے کہ آپ حب الوطنی کا سرٹیفیکیٹ تقسیم کرتے پھریں؟ اگر آپ کے پاس یہ اختیار ہے، تو کوئی ثبوت دکھا دیں؟ اگر یہ اور اس قبیل کے دیگر سوالات کے جوابات آپ کے پاس نہیں ہیں، تو پھر ہم پارلیمان میں بیٹھے لوگوں، سیکورٹی اداروں اور تمام ذمہ داروں سے یہ سوال کرتے ہیں کہ آخر فردِ واحد یا سویلینز کے ایک مخصوص گروہ کو کیوں کھلی چھوٹ دی جارہی ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ وطن عزیز میں انتشار پھیلاتے پھریں؟ عام شہریوں کو کیوں کر ذہنی اضطراب کا شکار بنایا جا رہا ہے؟
آخر میں منظور پشتین، محسن داوڑ اور اس کے ساتھیوں سے بھی درخواست کرتے ہیں کہ آپ کس کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں؟ ایسا کون سا ایجنڈا ہے اور ایسی کیا سٹریٹجی ہے جو ہماری سمجھ میں نہیں آرہی؟ بس جو حقوق آپ اور آپ کے ساتھ نکلے ہوئے مظلوم مانگ رہے ہیں، ان میں صداقت کیوں دکھائی دے رہی ہے؟ آپ کے مطالبات آئینی اور قانونی کیوں نظر آ رہے ہیں؟ منظور پشتین اور ان کے مخالفین، آپ دونوں سے ہم عوام بس ہاتھ جوڑ کر یہی سوال کرتے ہیں کہ جو دل میں ہے وہی بتائیں اور ہمیں اس ذہنی خلجان سے نکالیں۔ یہ قوم بھوک، افلاس، جنگ و جدل، نا انصافی اور ظلم و بربریت سے نفسیاتی مریض بن چکی ہے۔ اب انہیں آرام کی ضرورت ہے، ایک اور ڈراما کی نہیں۔
1,827 total views, 2 views today