کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے سخت گیر مؤقف رکھنے والے ملا فضل اللہ کو اپنا نیا سربراہ منتخب کرلیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی طالبان اور حکومت کے مذاکراتی عمل پر بھی بے یقینی کے سائے گہرے ہوگئے ہیں۔ فاٹا میں موجو ذرائع کے مطابق ملا فضل اللہ کا شمار مذاکرات کے سخت ترین مخالفین میں ہوتا ہے اور یہ کہ حکیم اللہ محسود کی زندگی میں بھی وہ حالیہ مذاکراتی عمل کے مخالف رہے۔ تاہم قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے جہاں دیدہ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کو مذاکرات کی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔ کچھ بعید نہیں کہ کچھ عرصے بعد بات چیت کی راہ پھر ہم وار ہوجائے۔ گزشتہ جمعرات کو شمالی وزیرستان کے نامعلوم مقام پر ایک پریس کانفرنس میں ٹی ٹی پی کے قائم مقام چیف عصمت اللہ شاہین نے ملا فضل اللہ کو سربراہ منتخب کیے جانے کا اعلان کیا۔ شاہین کے مطابق طالبان کی سپریم شوریٰ نے شیخ خالد حقانی کو تحریک طالبان پاکستان کا نائب سربراہ چنا ہے۔ فاٹا میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان شوریٰ کے ارکان کے درمیان ایک ہفتے کی طویل مشاورت کے دوران میں ٹی ٹی پی کے نئے سربراہ کے طور پر جو 5 نام زیر غور رہے۔ ان میں مولوی فضل اللہ، خان سید عرف سجنا، شیخ خالد حقانی، عمر خالد خراسانی اور حافظ سعید شامل تھے۔ ابتداء میں اگر چہ محسود قبیلے سے تعلق رکھنے والے خان سید سجنا کو تحریک کا نیا سربراہ بنانے پر اکثریت کا اتفاق تھا۔ چوں کہ انھیں ٹی ٹی پی میں اکثریت رکھنے والے محسودوں کی بھر پور حمایت حاصل تھی۔ ان ذرائع کے بقول خان سید سجنا کو تحریک کا نیا امیر بنانے کے حق میں دلائل دینے والے ارکان کا کہنا تھا کہ اس وقت حکومت سے مذاکرات کا معاملہ چل رہا ہے اور اس عمل کی کام یابی سے جنوبی وزیرستان سے در بدر ہونے والے محسود قبیلے کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا مستقبل وابستہ ہے، لہٰذا اگر باہر سے کوئی امیر منتخب کیا گیا، تو پھر یہ عمل پٹڑی سے اتر سکتا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ خان سید سجنا کے نئے سربراہ بننے کے امکانات شروع میں اتنے زیادہ روشن تھے کہ مشاورتی عمل سے واقف بعض ذرائع نے ان کے امیر منتخب ہونے کی خبریں میڈیا میں بھی چلوادیں۔ تاہم ان اطلاعات پر کنڑ میں موجود ملا فضل اللہ گروپ کی جانب سے شدید رد عمل کا اظہار کیا گیا جب کہ پاکستان میں موجود ان کے بعض حامی گروپوں میں بھی بے چینی پائی گئی۔ ان میں مہمند ایجنسی کے طالبان سربراہ عمر خالد خراسانی کا گروپ سر فہرست تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس صورت حال میں ٹی ٹی پی کے اتحاد کو خطرات لاحق ہوگئے تھے، جس کے سبب خان سید سجنا کے حامی ارکان کو اپنے رویے میں لچک پیدا کرنی پڑی۔ ذرائع کے بقول شوریٰ کے مشاورتی عمل میں آخری دو دنوں کے دوران میں ٹی ٹی پی کے نئے سربراہ کے طور پر جن دو ناموں پر سب سے زیادہ غور کیا گیا، ان میں ایک مولانا فضل اللہ اور دوسرا شیخ خالد حقانی کا تھا۔ بالآخر ان میں سے ایک کو ٹی ٹی پی کا نیا امیر اور دوسرے کو نائب امیر منتخب کرلیا گیا۔ جب ذرائع سے استفسار کیا گیا کہ تحریک کے نئے سربراہ کے طور پر فضل اللہ کو کیوں فوقیت دی گئی، حالاں کہ ان کا تعلق قبائلی علاقے سے بھی نہیں، تو ذرائع کا کہنا تھا: ’’تین وجوہات کی بنیاد پر ملا فضل اللہ کا انتخاب کیا گیا۔ ان میں سے ایک تو بیان کی جاچکی ہے کہ تحریک کے اتحاد کو بر قرار رکھنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا اور دوسرا یہ کہ بیت اللہ محسود، قاری حسین، ولی الرحمان محسود اور حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملوں میں ہلاکت کے بعد اس وقت محسود قبائل میں ان کا ہم پلہ کوئی لیڈر موجود نہیں جب کہ ان کے قد کاٹھ اور بارعب لب و لہجے کی وجہ سے انھیں طالبان حلقوں بالخصوص ان کے حامی گروپوں میں ایک ’’کرشماتی‘‘ شخصیت قرار دیا جاتا ہے۔ جنھوں نے سوات میں ریڈیو پر اپنی شعلہ فشاں تقریروں کے ذریعے پوری وادی کو اپنے سحر میں جکڑ رکھا تھا اور سوئم یہ کہ ٹی ٹی پی کی امارت سونپنے کے لیے ان کی سینیارٹی کو بھی مد نظر رکھا گیا۔‘‘
ملا فضل اللہ کو قریب سے جاننے والے ایک ذریعے کے بقول: ’’وہ زبردست مقرر ہیں اور بطور لیڈر ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ آسانی سے اپنے ارادوں کا پتہ نہیں لگنے دیتے کہ اگلا قدم کیا اٹھانے والے ہیں۔‘‘ اس ذریعے نے مزید کہا کہ پنج پیر کے ایک مدرسے سے بنیادی تعلیم حاصل کرنے والے ملا فضل اللہ کا شمار تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد کے انتہائی قریبی شاگردوں میں ہوتا تھا۔ بعد ازاں مولانا صوفی محمد نے انھیں اپنا داماد بنالیا۔ تاہم ذریعے نے انکشاف کیا کہ آج کل مولانا فضل اللہ اور مولانا صوفی محمد کے درمیان اختلافات چل رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ملا فضل اللہ نے انٹر میڈیٹ تک دنیاوی تعلیم بھی حاصل کررکھی ہے۔ مقامی و غیر ملکی میڈیا میں متعدد بار ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی خبریں آتی رہی ہیں، جو بعد میں غلط ثابت ہوئیں۔ رواں برس کے اوائل میں ان کے گروپ نے میجر جنرل ثناء اللہ کو قتل کرنے کی ذمے داری قبول کی تھی اور اس موقع پر ویڈیو جاری کی گئی۔ اس میں ملا فضل اللہ کو ’’کام یابی‘‘ پر جشن مناتے دکھایا گیا ہے جب کہ نورستان اور کنڑ سے سرحد پار پاکستان کے سیکورٹی اہل کاروں پر حملوں کی ذمے داری بھی وہ قبول کرتے رہے ہیں۔
فاٹا میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر چہ مولانا فضل اللہ کے ٹی ٹی پی امیر منتخب کیے جانے کے فوری بعد طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے یہ بیان جاری کیا کہ اب حکومت سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔ تاہم یہ بات ’’اوپن سیکرٹ‘‘ ہے کہ مولانا فضل اللہ پہلے ہی مذاکرات کے حق میں نہیں ہیں۔ اور اس سلسلے میں انھیں اپنے حامی گروپوں کی سپورٹ حاصل ہے۔ لہٰذا ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکراتی عمل کو جاری رکھنا حکومت کے لیے انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ بلکہ سخت گیر مولانا فضل اللہ کے امیر منتخب ہونے کے بعد ملک میں تشدد کی ایک نئی لہر آنے کا خدشہ ہے۔ مذاکرات کے حوالے سے مولانا فضل اللہ کے رویے کا ذکر کرتے ہوئے ان ذرائع کا کہنا تھا کہ 2009ء میں اے این پی کی صوبائی حکومت اور تحریک نفاذ شریعت محمدی کے راہ نما صوفی محمد کے درمیان جب معاہدہ ہوا، تو حکومت نے یہ ذمے داری صوفی محمد کو ہی سونپی تھی کہ اب وہ اپنے داماد ملا فضل اللہ کو کارروائیوں سے روکنے پر آمادہ کریں، تاہم ملا فضل اللہ کی جانب سے ’’سیز فائر‘‘ پر آمادگی ظاہر کرنا تو دور کی بات ہے، انھوں نے صوفی محمد سے ملنے تک سے انکار کردیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نئی صورت حال میں اگر چہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے امکانات خاصے معدوم ہوگئے ہیں، تاہم اب بھی ایسے غیر سیاسی علماء امید کی آخری کرن ہیں، جن کا مولانا فضل اللہ پر اثر و رسوخ ہے۔ ان کے ذریعے بات چیت کے عمل کو زندہ رکھنے کی ایک امید ضرور باقی ہے، تاہم اصل مسئلہ کنڑ میں بیٹھے مولانا فضل اللہ تک رسائی کا درپیش ہوگا، اور یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ دیار غیر میں بیٹھ کر وہ اپنے مرضی کے فیصلے کرنے میں کتنے با اختیار ہیں۔ دوسری جانب جنوبی وزیرستان میں موجود ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ٹی ٹی پی کے اتحاد کو بر قرار رکھنے کے لیے مولانا فضل اللہ کو امیر بنا تو دیا گیا ہے تاہم مستقبل قریب میں اس پر تنازعات کھڑے ہوسکتے ہیں۔ ان ذرائع کے بقول بالخصوص مولانا فضل اللہ کے لیے سب سے پہلا اور بڑا چیلنج محسود جنگ جوؤں کو کنٹرول کرنا ہے، جن کی تحریک طالبان پاکستان میں اکثریت ہے۔
اس ساری صورت حال پر جب معروف تجزیہ نگار اور سابق سیکرٹری فاٹا بریگیڈئیر (ر) محمود شاہ سے رابطہ کیا گیا، تو ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل اللہ کے ٹی ٹی پی سربراہ بن جانے کے بعد یقیناًمذاکرات کے امکانات کم ہوگئے ہیں۔ اس صورت حال میں اس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ سیکورٹی فورسز کو ایک نیا آپریشن کرنا پڑجائے۔ بریگیڈئیر (ر) محمود شاہ کا مزید کہنا تھا: ’’نورستان اور کنڑ میں ملا فضل اللہ اور ان کے ساتھیوں کو افغان حکومت نے پناہ دے رکھی ہے اور وہ ان کی ہر طرح کی مدد بھی کرتی ہے۔ لہٰذا یہ امکان اپنی جگہ پر موجود ہے کہ افغان حکومت انھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرسکتی ہے جب کہ دوسری صورت یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کا امیر منتخب ہونے کے بعد مولانا فضل اللہ شمالی وزیرستان منتقل ہوجائیں، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ محسود باہر کے لوگوں کو زیادہ دیر قبول نہیں کرتے۔ لہٰذا یہاں مولانا فضل اللہ کو اپنی رٹ قائم کرنے میں مشکل در پیش ہوگی اور اگر وہ کنڑ میں مقیم رہتے ہیں، تو پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ موجود رہے گا کہ اتنی دور بیٹھے شخص کا حکم محسود سنتے بھی ہیں یا نہیں جب کہ میری اطلاع کے مطابق ٹی ٹی پی کی چھتری تلے کام کرنے والی دیگر کالعدم تنظیمیں جن میں لشکر جھنگوی اور پنجابی طالبان سرفہرست ہیں، ان میں بھی اس فیصلے پر کچھ تحفظات پائے جاتے ہیں۔‘‘ بریگیڈئیر (ر) محمود شاہ نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ملا فضل اللہ کی شخصیت کا یہ خاصا ہے کہ کوئی بھی آسانی کے ساتھ ان کے ارادوں کو نہیں بھانپ سکتا۔ اس حوالے سے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا۔۔۔ ’’جن دنوں ملا فضل اللہ اپنے سسر مولانا صوفی محمد کے ساتھ جیل میں تھے، تو میں ان دنوں ایک ٹریبونل کارکن تھا۔ معلوم ہوا کہ مولانا فضل اللہ اپنی ضمانت کے خواہش مند ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مولانا صوفی کی تحریک سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔ ان کی ضمانت کا کیس ہمارے پاس آیا، تو ہم نے یہ دیکھ کر کہ ایک جواں سال شخص جس کی بیوی بھی ہے۔ مولانا فضل اللہ اور ان کے دیگر 5 ساتھیوں کی ضمانت منظور کرلی۔ رہائی کے بعد کچھ عرصے تک تو مولانا فضل اللہ خاموش بیٹھے رہے۔ بعد ازاں انھوں نے ضلع سوات میں اس قدر زوردار تحریک چلائی کہ بالآخر فوج کو آپریشن کرنا پڑا۔‘‘ (بشکریہ روزنامہ امت)
1,964 total views, 2 views today