تحریر : محمدرفیق سائرؔ
من جملہ اُن تمام برائیوں کے، جو ہمارے نظام حکومت میں پوری طرح رچ بس گئی ہیں، ایک بڑی بُرائی ،آئین اور قانون سے عمداً رُوگردانی ہے۔چونکہ ہمارے ہاں سیاسی شخصیتں، آئین اور قانون پر مقدّم ہیں، اس لیے یہاں قانون کو مکڑی کا جال قراردیا جاتا ہے جس میں سے توانگرتو گزر سکتا ہے اورناتواں پھنس جاتا ہے۔ ستربرس سے آئین اور قانون کے ساتھ یہی دھینگامُشتی جاری ہے جس کے نتیجے میں جمہوری قدریں رُوبہ زورال ہیں۔ دوسری بُرائی یہ ہے کہ ہمارے ہاں قومی مرض کی درست تشخیص نہیں کی جاتی۔ اس لئے ہرمرض کا علاج وقتی اور ناقص ہوتاچلاآرہاہے۔ہمارے سیاسی قائدین اپنی خامیوں کو دُور کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بلکہ اُلٹا چور کو توال کو ڈانٹے کے مصداق ایک دوسرے پر الزام تھوپ دیتے چلتے آرہے ہیں ۔ اور اپنی ناکامی اور غیر ذمہ داری کو دوسروں کے کھاتے ہیں ڈالتے رہے ہیں۔ اسی ردیئے کے نتیجے میں ہمارے ہاں سرکاری اور قومی اداروں کا اختیار شخصی وذاتی اداروں کے پاس چلاجاتا ہے۔ کچھ یہی صورت آج کل ہمارے قومی ،سرکاری اور تعلیمی اداروں کے ساتھ درپش ہے۔ جن میں خالی آسامیوں پر پھرتیوں کا اختیار National Testing Serviceاور دوسرے ایسے نجی اداروں کے سپرد کرنے کافیصلہ ہے۔
ایک عرصہ قبل مشرف حکومت نے سرکاری اور قومی اداروں میں اصلاحات کا ایک جامع پروگرام شروع کیا تھا جس کا ایک حصہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں بہتری لانے کے لئے وظائف اور ترغیبات دینامقصودتھا۔ چنانچہ ایم فل میں داخلے کے لئے GREاور پی ایچ ڈی میں داخلے کے لئے GAT Subject کے نام سے ایک ٹیسٹ کا ڈول ڈالاگیا۔ جس کی ذمہ داری اُٹھانے کے لئے NTSنام کا ایک ادارہ دفعتاً اسلام آباد کے اُفق پر نمودار ہوا۔ یہی نہیں بلکہ ہائر ایجوکیثن نے بیرونی ملک وظائف اور اعلیٰ تعلیم کے لئے ٹیسٹ لینے کا پورا اختیار NTS کے سپردکردیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں میں NAT وغیرہ کے نام سے ٹیسٹ متعارُف کرائے گئے۔ پی ایچ ڈی کے لیےGAT Subject کا ٹیسٹ متعلقہ یونیورسٹیوں کی بجائے NTS سے منعقد کرانا ٹھہرگیا۔ بے روزگارنوجوانوں سے بھاری رقومات وصول کی جانے لگیں اور ہوتے ہوتےNTS سونے کی ایک چڑیابن گیا۔ اس طرح ایم فل میں داخلے کے لیے GREکے نام پرایک اور ٹیسٹ متعارف کرایا گیا۔ جسے گرایجوائشن کی سطح کا ٹسٹ کہا جاتا رہا۔ مگر ایم فل والوں سے آٹھویں جماعت کے نصاب کی سطح کے سوالات پوچھے جاتے رہے۔ مقام افسوس ہے کہ کسی نے بھی NTS کی اس اختراع اور ایجاد پرکوئی اعتراض نہ کیا۔ کہ M.S/ M.Phil کے لیے ساتویں اور آٹھویں جماعت کے نصابوں کو یادرکھناکیوں ضروری ہے؟ اگر کسی طالب العلم نے جینیات،زراعت ،کیمسٹری اور فزکس میں ایم فل کرنا ہو تو اُسے سود مرکب اورسودمفرد سے متعلق تمام کلیئے ا ور فارمولے یاد رکھنے ہوں گے۔ورنہ اُس کی مہارت اور تحقیق کی ڈگری ناقص تصور ہوگی۔ کسی اسلامیات ، عربی ، اُردو اور فارسی یا علاقائی زبان میں ایم فل کرنے کے لیے انگریزی مشکل الفاظ ، گرائمر اور آٹھویں جماعت کی ریاضی کے سوالات حل کرنا اِس لئے ضروری ٹھہر گیاکہ اِن کے بغیر تحقیق اور تنقید کرنا ناممکن ہے۔
مرورِ ایام کے ساتھNTS اربوں کھربوں روپے بے روزگار اور تعلیمیافتہ طبقے سے بٹورنے لگا۔مگر کسی نے یہ سوال ہی نہیں کیا کہNTS کس قانون کے تحت قومی اداروں کا نگہبان بن گیا ہے ؟ یا کوسی آئینی شق کے تحت وجود میں آیا ہے؟ مگر ملک بھر کی سبھی یونیورسٹیاں اس بات کی پابند بنادی گئیں ، کہ وہ اعلی تعلیم کے لیے تسلیم شدہ سندیا ڈگری کو ناکافی قراردے کر NTS کا مڈل اور ہائی سکول کے نصاب پر مشتمل غیر نصابی اور غیر ضروری ٹیسٹ کو لازی کردیں ۔ یوں یونیورسٹیوں کا اپنی ڈگریوں کے ساتھ مذاق شروع ہوا جبکہ ملک کے بے روز گار نوجوانوں کے ساتھ NTS کے نام پر ہمدردی جاری رہی۔ نوجوان طبقے کا بقولِ شاعر یہ حال ہوا کہ
ہم سے تمام سال کی تفصیل نہ پوچھئیے
ہمدردیوں کے نام پہ سازش بہت ہوئی
جتنے گھنے درخت تھے جڑ سے اکھڑ گئے
کل رات آندھیوں کی نوازش بہت ہوئی۔
بد قسمتی سے جب نئی حکومت بر در اقتدار آئی تو NTS کا ادارہ مزیدپھلتا پھولتا چلا گیا اور اس کی دیکھا دیکھی کئی ایک اسی نجی ادارے اور بھی وجود میں آئے جنھوں نے سرکاری اداروں کے علاوہ عدلیہ میں بھی بھرتیاں کرنے کے اختیارات حاصل کیے ۔ اور کسی نے اس کے قانونی جواز پر حرف گیری تک نہ کی۔ بلکہ آج تک کوئی یہ جواب نہ دے سکا کہ نجی ادارے کو کس آئینی حکم کے تحت پورے ملک کے اداروں میں داخلوں کا اختیار دیا گیا ہے؟۔
ایسے میں لاہور ہائی کورٹ میں M.Phil Chemistry کی طالبہ سیدہ انام الیاس صاحبہ نے NTS کا پورا نظام چیلنج کردیا۔ نتیجتاً لاہور ہائی کورٹ نے تیراصفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں بلی تھیلے سے باہر لاتے ہوئے پاکستانی قوم کو پہلی بار اگاہ کر دیا کہ NTS HEC کا ادارہ ہی نہیں۔ مقام حیرت ہے کہ کسی یونیوسٹی یاتعلیمی ادارے نے یہ زحمت گوارہ ہی نہیں کی کہ معلوم کریں کہNTS اورHEC کا ازروئے آئین وقانون کیا تعلق ہے؟ اور وہ کیوں کر ایک پراؤیٹ ادارے کے منت بار ہیں؟ اسی فیصلے کے مطابق NTS ایک پرائیویٹ ادارے کے طور پر کام کر سکتا ہے لیکن HECکے تحت کام کرنے والے تعلیمی ادارے اور دیگر ریاستی ادارے اس کی دست وبُرد سے آزاد ہیں تاہم NTS اور HEC 30مئی 2014 تک عشق ومحبت کی اپنی کہانی اپنے انجام تک پہنچادیں اور بے ضرر طالب علم طبقے کی گردنوں کو اپنے خون چکاں پنجوں سے آزاد کردیں اور اسی طرحNTS اورHEC کی گزشتہ داستان عشق کو اداروں اور طالب علموں کے بہتر مفاد میں جائز قرار دے دیا گیا۔ آخر کار آئین اور قانون سے روگردانی کی اس نئی مثال کے بعد بعض جامعات اور تعلیمی اداروں کو ہوش آیا اور NTS سے اپنے طلباء کی گردنیں چھڑا لیں۔ایک اور المیہ یہ ہے کہ NTS کے جادوئی حُسن سے ملک بھر کے دوسرے قومی ادارے بھی ایسے متاثر ہوگئے کہ عدلیہ سے لے کر انتظامیہ تک کئی سرکاری محکموں نے NTS کے زریعے بھرتی کروانے کی ٹھان لی۔ کسی کے ذہن میں یہ سوال ہی نہیں اُٹھا کہ سرکاری اداروں کے لئے بھرتی کروانے کااختیار ایک پراؤیٹ ادارے کو دیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اسی لہر سے خیبر پختون خواہ کی حکومت بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی چنانچہ اسی صوبے میں پولیس سے لے کر تعلیم تک خالی اسامیوں پر بھرتی کروانے کے ٹیسٹ اختیاربھی NTS کو دے دیا گیاہے جس میں ٹیسٹ کے دوراں ہی بد انتظامی کی خبریں کئی قومی اخبارات کی زینت بنتی چلی آرہی ہیں۔ بعض قومی اخبارات میں میرٹ میں ردوبدل اور پرچوں کے آوٹ ہونے کی خبریں بھی جلی سرخیوں میں چھپ گئی ہیں۔ نہیں معلوم، کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد خیبر پختون خواہ کی حکومت نے NTS سے مددلینے کا فیصلہ کیوں کیا ہے اور شاعر کے بقول طلباء کی تمنا یہ آرمان بن کر رہ گئی کہ
ہم باغ تمنا میں دن اپنے گزارآئے
آئی نہ بہار آخر، شاید نہ بہار آئے
بدیہی طور پریہ سوال بہت اہم ہے کہ آخر حکومت اور ریاستی اداروں کو میرٹ کے تعین کے حوالے سے ایک پرایؤیٹ ادارے کا دستِ نگرکیوں بنا پڑا ہے اس سلسلے میں یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ NTS کے پاس امتحان لینے کا ایک صاف وشفاف نظام موجود ہے۔ اور یہ کہ NTS ایک آزاد نجی ادارہ ہے جو کسی حکومت کا زیرِاثر کام نہیں کرتا۔ فرض کریں کہ پہلی بات درست ہے تو پھر ایک عدد وفاقی اور پانچ عدد صوبائی پبلک سروس کمیشن کا کیا جوازبنتا ہے ؟جو کہ تمام آئینی ، قانونی اور پاک وصاف ریاستی ادارے ہیں اورقیام پاکستان سے ملک کے بیشتر ادارہ جات کے لئے خالصتاََ میرٹ کی بنیاد پر بھرتیاں کرتے چلے آرہے ہیں بلفرض اگران میں کوئی خامی ہے تو اِسے قانون سازی کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے اور اگر وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشنوں پر سیاسی قیادت کا اعتماد نہیں تو پھر بہتر ہوگا کہ ان سب کو ختم کر کے قومی خزانے پر بوجھ ہلکا کیا جائے اور ملک بھر میں بھرتیوں کا اختیار بلاشرکت غیرے نجی اداروں کے سپرد کیاجائے اس سے ایک طرف پورا ملک اور اس کے تمام ادارے نجگاری کی طرف بہ آسانی گامزن ہوں گے۔ شدہ شدہ تمام وزارتیں ختم ہوجائیں گی ۔ اور ملک کا نظام چلانے کے لئے صرف ایک وزارت الموسوم بہ وزارتِ نجکاری باقی بچ جائے گی جس سے قومی خزانے کی بجائے حکومت کو بہت بڑی بچت ہوگی اور بجٹ کا خسارہ صفر کے برابر رہ جائے گا۔ پوری مملکت خُدادادکو نجی شعبے کے حوالے کرکے اس خوابیدہ قوم کی سوئی ہوئی تقدیر کو جگایا جاسکتا ہے
NTSکا طُرہ امتیاز یہ ہے کہ دربدر بے روزگار نوجوانوں سے تین سوسے لے کرپندرہ سوروپے تک عوضتاََ ایسا ٹیسٹ منقد کر سکتا ہے جس کا پورا نظام اسلا آباد کے ایک آفس میں مقید ہے اور اس ادارے کے امریکی تصدیق نامے اور شفافیت کا بین ثبوت یہ ہے کہ جس میں دوران امتحان ایک خاتوں دوسری کی جگہ بیٹھ سکتی ہے یا کئی امید واروں کو ان کا رول نمبر سلپ ٹیسٹ کے دوروز بعد بہ آسانی مل سکتا ہے یہ ایک ایسا صاف اور شفاف امتحانی نظام ہے جس میں کسی بھی وقت میرٹ میں تبدیلی ہوسکتی ہے اور دوسری یاتیسری پوزیشن لینے والے امیدوار آٹھ یا دسوویں پوزیشن پر جاسکتے ہیں یا کسی Ph.D اورM.Phil کرنے والے ریسرچ سکالر سے ساتویں اور آٹھویں جماعتوں کے نصاب کے منتخب کر دہ ایسے سوالات پوچھے جاسکتے ہیں کیونکہ ان سکالرزکو بعدازاں، ساتویں اور آٹھویں کو پڑھانا ہی ہوتا ہے یا پھر Edcon سکالرشپ کے نام پر پورے ملک کے طلباء وطالبات اور ان کے والدین کو پراؤیٹ اداروں میں داخلہ لینے کے لئے بے وقوف بنایا جاسکتا ہے مگر افسوس صداافسوس کہ پبلک سروس کمیشن جیسے آئینی ادارے کو نظرانداز کر کے ایک پرائیویٹ ادارے کو صرف اسلئے نوازا جارہاہے کہ وہ صرف تحریری امتحان منعقد کر کے مختلف محکموں کوتحریری امتحا ن کی فہرست برائے انٹرویو بھجوا سکتا ہے اور یہ اہلیت نہ تو ان محکموں میں ہے اور نہ صوبائی ووفاقی پبلک سروس کمیشنوں میں۔نہ جانے کیوں ریاست کے اداروں کو قصداََ عمداََ یا تو ناکام بنایا جارہا ہے یا منظورِنظر افراد کے حوالے کیا جارہاہے پروفیسر محسن احسان نے شاید درست کہا تھا
امیر شہر نے کاغذ کی کشتیاں دے کر
سمندرَوں کے سفر پر کیاروانہ ہمیں
حال ہی میں خیبر پختون خواہ کے محکمہ ابتدائی وثانوی تعلیم نے سکول اساتذہ کی بھرتی کے لئے NTSکی مدد حاصل کی ہے، ٹیسٹ منعقد ہونے کے بعد امیدواروں کو بہت سی شکایات ہیں جس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کو سمجھ ہی نہیں آرہا ہے کہ میرٹ کسی طرح بن رہاہے؟ ایک ابہام یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ وفاق المدارس سے ہزاروں کی تعداد میں فارغ طلباء وطلبات کی اسناد جوکہ ایم اے کے برابر ہیں، کوNTSمیں ایم اے کے برابر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ بلکہ ڈپلومہ کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس امتیاز کے نتیجے میں بہت سے طلباء و طالبات اسلامیات اور عربی کی آسامیوں کے لیے نااحل ہوجاتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ اسلامیات اور عربی کے استاد کے انتخاب کے لیے جو فارمولہ تشکیل دیا گیا ہے اس میں صرف تیس فی صد(30%) سوالات متعلقہ مضمون میں پوچھے جاتے ہیں جبکہ بقیہ ستر فی صد(70%) انگریزی ،ریاضی اور تجزیاتی سوالات پوچھے جاتے ہیں کسی مدرسے کے طالب علم کے لیے ریاضی اور انگریزی کا امتحان پاس کرنا دیگر طلباء کے مقابلے میں ناممکن ہوتا ہے ۔بہتر ہوتا کہ اسلامیات اور عربی کے لیے متعلقہ مضامین میں پوچھے جاتے ۔
ہمارے صوبے میں میڈکل اور انجنیئرنگ کے لیے ETEAنامی سرکاری ادارہ امتحان لیتا ہے جو کہ ایک کامیاب کاوش ہے اگر نا گزیرہو تو سکول اساتذہ کی بھرتی کی ذمہ داری ETEA کے سپرد کی جاسکتی ہے بہ شرط یہ کہ اسے تمام ضروری سہولیات فراہم کی جائیں۔ زیادہ بہتر یہ ہوگاکہ تمام تعلیمی اداروں میں برتی صوبائی پبلک سروس کمیشن سے کروائی جائیں۔
صوبائی حکومت کو اس بات کا شدت سے احساس ہوگا کہ تعلیمی اداروں کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے قابل ترین اساتذہ کی خدمات حاصل کی جائیں ۔مگر یہ کام صوبائی سروس کمیشن سے بہتر کو ن سر انجام دے سکتا ہے اگر صوبائی پبلک سروس کمیشن کویہ اختیار دیا جائے کہ وہ سکولوں ،کا لجوں اور جامعات کے لئے اساتذہ کی بھرتیPMSکے طرز پریا وفاقی پبلک سروس کمیشن کے طریقہ امتحان کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایک امتحان منعقد کریں۔ تو اس کے نتیجے میں صوبے کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ اگر صوبائی پبلک سروس کمیشن کے ہرڈویژن میں علاقائی دفاتر قائم کئے جائیں اور عملے کی تعداد میں اضافہ کیاجائیں۔نیز صوبائے پبلک سروس کمیشن کی خامیاں دور کی جائیں تو کوئی امر مانع نہیں کہ خیبر پختون خواہ میں پر قسم کی بدعنوانی سے پاک وصاف ایسا نظام تشکیل دیا جا سکتا ہے جو تمام محکمہ جات کے لئے خالصہ تاََ میرٹ کی بنیاد پر بھرتیاں کر سکے گا ۔ یقیناََ صوبائی حکومت کا یہ کارنامہ باقی صوبوں اور وفاق کے لئے ایک قابل تقلید مثال بن سکے گا۔
NTSکی موجودگی پر کئی سوالات اُٹھائے جاسکتے ہیں کہ آخر یہ کس ادارے کے ساتھ رجسٹرڈ ہے، اور کام کررہاہے؟ کون اُس کے معاملات کی نگرانی کا زمہ دار ہے؟ کس قانون کے تحت وجود میں آیا ہے؟ اور یونیورسٹیوں کے داخلوں سے لے کر اب بھرتیوں تک اُس کی مداخلت کا کیا جواز بنتا ہے؟ اِن سوالات کے جوابات دنیا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ ایک قومی معاملہ ہے۔ اور قومی معاملات کو کئی برسوں تک اندھیرے میں نہیں رکھا جاسکتا۔
سطور بالا سے مراد یہ ہر گزنہ لی جائے کہ کوئی ادارہ کھولنا جُرم ہے مگر مَقصودیہ ہے کہ موجودہ آئینی اداروں میں اصلاحات کر کے اُن کو بدرجہا بہتر بنایا جاسکتا ہے ۔ اور اُن کے ہوتے ہوئے نت نئے تجربات کر نے اُمورِ ر یاست میں نجی اداروں کی مداخلت
تحریر : محمدرفیق سائرؔ
من جملہ اُن تمام برائیوں کے، جو ہمارے نظام حکومت میں پوری طرح رچ بس گئی ہیں، ایک بڑی بُرائی ،آئین اور قانون سے عمداً رُوگردانی ہے۔چونکہ ہمارے ہاں سیاسی شخصیتں، آئین اور قانون پر مقدّم ہیں، اس لیے یہاں قانون کو مکڑی کا جال قراردیا جاتا ہے جس میں سے توانگرتو گزر سکتا ہے اورناتواں پھنس جاتا ہے۔ ستربرس سے آئین اور قانون کے ساتھ یہی دھینگامُشتی جاری ہے جس کے نتیجے میں جمہوری قدریں رُوبہ زورال ہیں۔ دوسری بُرائی یہ ہے کہ ہمارے ہاں قومی مرض کی درست تشخیص نہیں کی جاتی۔ اس لئے ہرمرض کا علاج وقتی اور ناقص ہوتاچلاآرہاہے۔ہمارے سیاسی قائدین اپنی خامیوں کو دُور کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بلکہ اُلٹا چور کو توال کو ڈانٹے کے مصداق ایک دوسرے پر الزام تھوپ دیتے چلتے آرہے ہیں ۔ اور اپنی ناکامی اور غیر ذمہ داری کو دوسروں کے کھاتے ہیں ڈالتے رہے ہیں۔ اسی ردیئے کے نتیجے میں ہمارے ہاں سرکاری اور قومی اداروں کا اختیار شخصی وذاتی اداروں کے پاس چلاجاتا ہے۔ کچھ یہی صورت آج کل ہمارے قومی ،سرکاری اور تعلیمی اداروں کے ساتھ درپش ہے۔ جن میں خالی آسامیوں پر پھرتیوں کا اختیار National Testing Serviceاور دوسرے ایسے نجی اداروں کے سپرد کرنے کافیصلہ ہے۔
ایک عرصہ قبل مشرف حکومت نے سرکاری اور قومی اداروں میں اصلاحات کا ایک جامع پروگرام شروع کیا تھا جس کا ایک حصہ اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں بہتری لانے کے لئے وظائف اور ترغیبات دینامقصودتھا۔ چنانچہ ایم فل میں داخلے کے لئے GREاور پی ایچ ڈی میں داخلے کے لئے GAT Subject کے نام سے ایک ٹیسٹ کا ڈول ڈالاگیا۔ جس کی ذمہ داری اُٹھانے کے لئے NTSنام کا ایک ادارہ دفعتاً اسلام آباد کے اُفق پر نمودار ہوا۔ یہی نہیں بلکہ ہائر ایجوکیثن نے بیرونی ملک وظائف اور اعلیٰ تعلیم کے لئے ٹیسٹ لینے کا پورا اختیار NTS کے سپردکردیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں میں NAT وغیرہ کے نام سے ٹیسٹ متعارُف کرائے گئے۔ پی ایچ ڈی کے لیےGAT Subject کا ٹیسٹ متعلقہ یونیورسٹیوں کی بجائے NTS سے منعقد کرانا ٹھہرگیا۔ بے روزگارنوجوانوں سے بھاری رقومات وصول کی جانے لگیں اور ہوتے ہوتےNTS سونے کی ایک چڑیابن گیا۔ اس طرح ایم فل میں داخلے کے لیے GREکے نام پرایک اور ٹیسٹ متعارف کرایا گیا۔ جسے گرایجوائشن کی سطح کا ٹسٹ کہا جاتا رہا۔ مگر ایم فل والوں سے آٹھویں جماعت کے نصاب کی سطح کے سوالات پوچھے جاتے رہے۔ مقام افسوس ہے کہ کسی نے بھی NTS کی اس اختراع اور ایجاد پرکوئی اعتراض نہ کیا۔ کہ M.S/ M.Phil کے لیے ساتویں اور آٹھویں جماعت کے نصابوں کو یادرکھناکیوں ضروری ہے؟ اگر کسی طالب العلم نے جینیات،زراعت ،کیمسٹری اور فزکس میں ایم فل کرنا ہو تو اُسے سود مرکب اورسودمفرد سے متعلق تمام کلیئے ا ور فارمولے یاد رکھنے ہوں گے۔ورنہ اُس کی مہارت اور تحقیق کی ڈگری ناقص تصور ہوگی۔ کسی اسلامیات ، عربی ، اُردو اور فارسی یا علاقائی زبان میں ایم فل کرنے کے لیے انگریزی مشکل الفاظ ، گرائمر اور آٹھویں جماعت کی ریاضی کے سوالات حل کرنا اِس لئے ضروری ٹھہر گیاکہ اِن کے بغیر تحقیق اور تنقید کرنا ناممکن ہے۔
مرورِ ایام کے ساتھNTS اربوں کھربوں روپے بے روزگار اور تعلیمیافتہ طبقے سے بٹورنے لگا۔مگر کسی نے یہ سوال ہی نہیں کیا کہNTS کس قانون کے تحت قومی اداروں کا نگہبان بن گیا ہے ؟ یا کوسی آئینی شق کے تحت وجود میں آیا ہے؟ مگر ملک بھر کی سبھی یونیورسٹیاں اس بات کی پابند بنادی گئیں ، کہ وہ اعلی تعلیم کے لیے تسلیم شدہ سندیا ڈگری کو ناکافی قراردے کر NTS کا مڈل اور ہائی سکول کے نصاب پر مشتمل غیر نصابی اور غیر ضروری ٹیسٹ کو لازی کردیں ۔ یوں یونیورسٹیوں کا اپنی ڈگریوں کے ساتھ مذاق شروع ہوا جبکہ ملک کے بے روز گار نوجوانوں کے ساتھ NTS کے نام پر ہمدردی جاری رہی۔ نوجوان طبقے کا بقولِ شاعر یہ حال ہوا کہ
ہم سے تمام سال کی تفصیل نہ پوچھئیے
ہمدردیوں کے نام پہ سازش بہت ہوئی
جتنے گھنے درخت تھے جڑ سے اکھڑ گئے
کل رات آندھیوں کی نوازش بہت ہوئی۔
بد قسمتی سے جب نئی حکومت بر در اقتدار آئی تو NTS کا ادارہ مزیدپھلتا پھولتا چلا گیا اور اس کی دیکھا دیکھی کئی ایک اسی نجی ادارے اور بھی وجود میں آئے جنھوں نے سرکاری اداروں کے علاوہ عدلیہ میں بھی بھرتیاں کرنے کے اختیارات حاصل کیے ۔ اور کسی نے اس کے قانونی جواز پر حرف گیری تک نہ کی۔ بلکہ آج تک کوئی یہ جواب نہ دے سکا کہ نجی ادارے کو کس آئینی حکم کے تحت پورے ملک کے اداروں میں داخلوں کا اختیار دیا گیا ہے؟۔
ایسے میں لاہور ہائی کورٹ میں M.Phil Chemistry کی طالبہ سیدہ انام الیاس صاحبہ نے NTS کا پورا نظام چیلنج کردیا۔ نتیجتاً لاہور ہائی کورٹ نے تیراصفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں بلی تھیلے سے باہر لاتے ہوئے پاکستانی قوم کو پہلی بار اگاہ کر دیا کہ NTS HEC کا ادارہ ہی نہیں۔ مقام حیرت ہے کہ کسی یونیوسٹی یاتعلیمی ادارے نے یہ زحمت گوارہ ہی نہیں کی کہ معلوم کریں کہNTS اورHEC کا ازروئے آئین وقانون کیا تعلق ہے؟ اور وہ کیوں کر ایک پراؤیٹ ادارے کے منت بار ہیں؟ اسی فیصلے کے مطابق NTS ایک پرائیویٹ ادارے کے طور پر کام کر سکتا ہے لیکن HECکے تحت کام کرنے والے تعلیمی ادارے اور دیگر ریاستی ادارے اس کی دست وبُرد سے آزاد ہیں تاہم NTS اور HEC 30مئی 2014 تک عشق ومحبت کی اپنی کہانی اپنے انجام تک پہنچادیں اور بے ضرر طالب علم طبقے کی گردنوں کو اپنے خون چکاں پنجوں سے آزاد کردیں اور اسی طرحNTS اورHEC کی گزشتہ داستان عشق کو اداروں اور طالب علموں کے بہتر مفاد میں جائز قرار دے دیا گیا۔ آخر کار آئین اور قانون سے روگردانی کی اس نئی مثال کے بعد بعض جامعات اور تعلیمی اداروں کو ہوش آیا اور NTS سے اپنے طلباء کی گردنیں چھڑا لیں۔ایک اور المیہ یہ ہے کہ NTS کے جادوئی حُسن سے ملک بھر کے دوسرے قومی ادارے بھی ایسے متاثر ہوگئے کہ عدلیہ سے لے کر انتظامیہ تک کئی سرکاری محکموں نے NTS کے زریعے بھرتی کروانے کی ٹھان لی۔ کسی کے ذہن میں یہ سوال ہی نہیں اُٹھا کہ سرکاری اداروں کے لئے بھرتی کروانے کااختیار ایک پراؤیٹ ادارے کو دیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اسی لہر سے خیبر پختون خواہ کی حکومت بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی چنانچہ اسی صوبے میں پولیس سے لے کر تعلیم تک خالی اسامیوں پر بھرتی کروانے کے ٹیسٹ اختیاربھی NTS کو دے دیا گیاہے جس میں ٹیسٹ کے دوراں ہی بد انتظامی کی خبریں کئی قومی اخبارات کی زینت بنتی چلی آرہی ہیں۔ بعض قومی اخبارات میں میرٹ میں ردوبدل اور پرچوں کے آوٹ ہونے کی خبریں بھی جلی سرخیوں میں چھپ گئی ہیں۔ نہیں معلوم، کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد خیبر پختون خواہ کی حکومت نے NTS سے مددلینے کا فیصلہ کیوں کیا ہے اور شاعر کے بقول طلباء کی تمنا یہ آرمان بن کر رہ گئی کہ
ہم باغ تمنا میں دن اپنے گزارآئے
آئی نہ بہار آخر، شاید نہ بہار آئے
بدیہی طور پریہ سوال بہت اہم ہے کہ آخر حکومت اور ریاستی اداروں کو میرٹ کے تعین کے حوالے سے ایک پرایؤیٹ ادارے کا دستِ نگرکیوں بنا پڑا ہے اس سلسلے میں یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ NTS کے پاس امتحان لینے کا ایک صاف وشفاف نظام موجود ہے۔ اور یہ کہ NTS ایک آزاد نجی ادارہ ہے جو کسی حکومت کا زیرِاثر کام نہیں کرتا۔ فرض کریں کہ پہلی بات درست ہے تو پھر ایک عدد وفاقی اور پانچ عدد صوبائی پبلک سروس کمیشن کا کیا جوازبنتا ہے ؟جو کہ تمام آئینی ، قانونی اور پاک وصاف ریاستی ادارے ہیں اورقیام پاکستان سے ملک کے بیشتر ادارہ جات کے لئے خالصتاََ میرٹ کی بنیاد پر بھرتیاں کرتے چلے آرہے ہیں بلفرض اگران میں کوئی خامی ہے تو اِسے قانون سازی کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے اور اگر وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشنوں پر سیاسی قیادت کا اعتماد نہیں تو پھر بہتر ہوگا کہ ان سب کو ختم کر کے قومی خزانے پر بوجھ ہلکا کیا جائے اور ملک بھر میں بھرتیوں کا اختیار بلاشرکت غیرے نجی اداروں کے سپرد کیاجائے اس سے ایک طرف پورا ملک اور اس کے تمام ادارے نجگاری کی طرف بہ آسانی گامزن ہوں گے۔ شدہ شدہ تمام وزارتیں ختم ہوجائیں گی ۔ اور ملک کا نظام چلانے کے لئے صرف ایک وزارت الموسوم بہ وزارتِ نجکاری باقی بچ جائے گی جس سے قومی خزانے کی بجائے حکومت کو بہت بڑی بچت ہوگی اور بجٹ کا خسارہ صفر کے برابر رہ جائے گا۔ پوری مملکت خُدادادکو نجی شعبے کے حوالے کرکے اس خوابیدہ قوم کی سوئی ہوئی تقدیر کو جگایا جاسکتا ہے
NTSکا طُرہ امتیاز یہ ہے کہ دربدر بے روزگار نوجوانوں سے تین سوسے لے کرپندرہ سوروپے تک عوضتاََ ایسا ٹیسٹ منقد کر سکتا ہے جس کا پورا نظام اسلا آباد کے ایک آفس میں مقید ہے اور اس ادارے کے امریکی تصدیق نامے اور شفافیت کا بین ثبوت یہ ہے کہ جس میں دوران امتحان ایک خاتوں دوسری کی جگہ بیٹھ سکتی ہے یا کئی امید واروں کو ان کا رول نمبر سلپ ٹیسٹ کے دوروز بعد بہ آسانی مل سکتا ہے یہ ایک ایسا صاف اور شفاف امتحانی نظام ہے جس میں کسی بھی وقت میرٹ میں تبدیلی ہوسکتی ہے اور دوسری یاتیسری پوزیشن لینے والے امیدوار آٹھ یا دسوویں پوزیشن پر جاسکتے ہیں یا کسی Ph.D اورM.Phil کرنے والے ریسرچ سکالر سے ساتویں اور آٹھویں جماعتوں کے نصاب کے منتخب کر دہ ایسے سوالات پوچھے جاسکتے ہیں کیونکہ ان سکالرزکو بعدازاں، ساتویں اور آٹھویں کو پڑھانا ہی ہوتا ہے یا پھر Edcon سکالرشپ کے نام پر پورے ملک کے طلباء وطالبات اور ان کے والدین کو پراؤیٹ اداروں میں داخلہ لینے کے لئے بے وقوف بنایا جاسکتا ہے مگر افسوس صداافسوس کہ پبلک سروس کمیشن جیسے آئینی ادارے کو نظرانداز کر کے ایک پرائیویٹ ادارے کو صرف اسلئے نوازا جارہاہے کہ وہ صرف تحریری امتحان منعقد کر کے مختلف محکموں کوتحریری امتحا ن کی فہرست برائے انٹرویو بھجوا سکتا ہے اور یہ اہلیت نہ تو ان محکموں میں ہے اور نہ صوبائی ووفاقی پبلک سروس کمیشنوں میں۔نہ جانے کیوں ریاست کے اداروں کو قصداََ عمداََ یا تو ناکام بنایا جارہا ہے یا منظورِنظر افراد کے حوالے کیا جارہاہے پروفیسر محسن احسان نے شاید درست کہا تھا
امیر شہر نے کاغذ کی کشتیاں دے کر
سمندرَوں کے سفر پر کیاروانہ ہمیں
حال ہی میں خیبر پختون خواہ کے محکمہ ابتدائی وثانوی تعلیم نے سکول اساتذہ کی بھرتی کے لئے NTSکی مدد حاصل کی ہے، ٹیسٹ منعقد ہونے کے بعد امیدواروں کو بہت سی شکایات ہیں جس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کو سمجھ ہی نہیں آرہا ہے کہ میرٹ کسی طرح بن رہاہے؟ ایک ابہام یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ وفاق المدارس سے ہزاروں کی تعداد میں فارغ طلباء وطلبات کی اسناد جوکہ ایم اے کے برابر ہیں، کوNTSمیں ایم اے کے برابر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ بلکہ ڈپلومہ کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس امتیاز کے نتیجے میں بہت سے طلباء و طالبات اسلامیات اور عربی کی آسامیوں کے لیے نااحل ہوجاتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ اسلامیات اور عربی کے استاد کے انتخاب کے لیے جو فارمولہ تشکیل دیا گیا ہے اس میں صرف تیس فی صد(30%) سوالات متعلقہ مضمون میں پوچھے جاتے ہیں جبکہ بقیہ ستر فی صد(70%) انگریزی ،ریاضی اور تجزیاتی سوالات پوچھے جاتے ہیں کسی مدرسے کے طالب علم کے لیے ریاضی اور انگریزی کا امتحان پاس کرنا دیگر طلباء کے مقابلے میں ناممکن ہوتا ہے ۔بہتر ہوتا کہ اسلامیات اور عربی کے لیے متعلقہ مضامین میں پوچھے جاتے ۔
ہمارے صوبے میں میڈکل اور انجنیئرنگ کے لیے ETEAنامی سرکاری ادارہ امتحان لیتا ہے جو کہ ایک کامیاب کاوش ہے اگر نا گزیرہو تو سکول اساتذہ کی بھرتی کی ذمہ داری ETEA کے سپرد کی جاسکتی ہے بہ شرط یہ کہ اسے تمام ضروری سہولیات فراہم کی جائیں۔ زیادہ بہتر یہ ہوگاکہ تمام تعلیمی اداروں میں برتی صوبائی پبلک سروس کمیشن سے کروائی جائیں۔
صوبائی حکومت کو اس بات کا شدت سے احساس ہوگا کہ تعلیمی اداروں کے معیار کو بہتر بنانے کے لئے قابل ترین اساتذہ کی خدمات حاصل کی جائیں ۔مگر یہ کام صوبائی سروس کمیشن سے بہتر کو ن سر انجام دے سکتا ہے اگر صوبائی پبلک سروس کمیشن کویہ اختیار دیا جائے کہ وہ سکولوں ،کا لجوں اور جامعات کے لئے اساتذہ کی بھرتیPMSکے طرز پریا وفاقی پبلک سروس کمیشن کے طریقہ امتحان کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایک امتحان منعقد کریں۔ تو اس کے نتیجے میں صوبے کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ اگر صوبائی پبلک سروس کمیشن کے ہرڈویژن میں علاقائی دفاتر قائم کئے جائیں اور عملے کی تعداد میں اضافہ کیاجائیں۔نیز صوبائے پبلک سروس کمیشن کی خامیاں دور کی جائیں تو کوئی امر مانع نہیں کہ خیبر پختون خواہ میں پر قسم کی بدعنوانی سے پاک وصاف ایسا نظام تشکیل دیا جا سکتا ہے جو تمام محکمہ جات کے لئے خالصہ تاََ میرٹ کی بنیاد پر بھرتیاں کر سکے گا ۔ یقیناََ صوبائی حکومت کا یہ کارنامہ باقی صوبوں اور وفاق کے لئے ایک قابل تقلید مثال بن سکے گا۔
NTSکی موجودگی پر کئی سوالات اُٹھائے جاسکتے ہیں کہ آخر یہ کس ادارے کے ساتھ رجسٹرڈ ہے، اور کام کررہاہے؟ کون اُس کے معاملات کی نگرانی کا زمہ دار ہے؟ کس قانون کے تحت وجود میں آیا ہے؟ اور یونیورسٹیوں کے داخلوں سے لے کر اب بھرتیوں تک اُس کی مداخلت کا کیا جواز بنتا ہے؟ اِن سوالات کے جوابات دنیا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ ایک قومی معاملہ ہے۔ اور قومی معاملات کو کئی برسوں تک اندھیرے میں نہیں رکھا جاسکتا۔
سطور بالا سے مراد یہ ہر گزنہ لی جائے کہ کوئی ادارہ کھولنا جُرم ہے مگر مَقصودیہ ہے کہ موجودہ آئینی اداروں میں اصلاحات کر کے اُن کو بدرجہا بہتر بنایا جاسکتا ہے ۔ اور اُن کے ہوتے ہوئے نت نئے تجربات کر نے کی ضرورت نہیں ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر لازم ہے کہ تمام سرکاری محکمہ جات اور خود مختار اداروں میں بھرتیوں کا اختیار متعلقہ صوبائی پبلک سروس کمیشن کو دیا جائے اور ریاستی اداروں میں پوری نیک نیّتی سے ہر قسم کی مداخلت اور اثر رسوخ کا خاتمہ کیا جائے۔ اور موجودہ حالات سے مایوس اہل نظر کا یہ گلہ دُور کیا جائے۔ سرمنبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
علاجِ غم نہیں کرتے، فقط تقریر کر تے ہیں
کی ضرورت نہیں ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر لازم ہے کہ تمام سرکاری محکمہ جات اور خود مختار اداروں میں بھرتیوں کا اختیار متعلقہ صوبائی پبلک سروس کمیشن کو دیا جائے اور ریاستی اداروں میں پوری نیک نیّتی سے ہر قسم کی مداخلت اور اثر رسوخ کا خاتمہ کیا جائے۔ اور موجودہ حالات سے مایوس اہل نظر کا یہ گلہ دُور کیا جائے۔ سرمنبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
علاجِ غم نہیں کرتے، فقط تقریر کر تے ہیں
2,518 total views, 2 views today