تحریر ؛۔ گوہر علی گوہر
ملاکنڈ میں الیکشن کے دن جوں جوں قریب آرہے ہیں سیاسی جماعتو ں کی سرگرمیاں بڑھتی جارہی ہیں، دوسری جانب ملاکنڈ کی سیاست میں گزشتہ ہفتے حیرت انگیز تبدیلی اس وقت محسوس کی گئی جب پیپلز پارٹی کے سابق وفاقی وزیر لعل محمد خان کی جانب سے ضلع ملاکنڈ سمیت تین تحصیلوں میں متوازی تنظیموں کا اعلان کیا گیا ، لعل محمد خان نے خود کو اس متوازی تنظیموں سے بظاہر دور رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے اس میں نہ خود کوئی عہدہ قبول کیا اور نہ اپنے گھر کے کسی فرد بیٹے بھانجے یا بھتیجے کو عہدہ دلانے میں دلچسپی لی، ساتھ ہی اس موقف کو بھی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا پر جاری کیا کہ اختلافات سے پارٹی کو نقصان پہنچے گا ، لعل محمد خان کی طرف سے قائم شدہ تنظیموں کومتوازی تنظیمیں اس وجہ سے قرار دی جاتی ہیں کہ ضلع اور تحصیلوں میں پہلے سے تنظیمیں قائم ہیں جس کی وضاحت پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری فیصل کنڈی کی طرف سے جاری کردہ اخباری بیان میں بھی کیا گیا کہ لعل محمد خان کی طرف سے قائم کردہ تنظیموں کی کوئی آئینی حیثیت نہیں اور مذکورہ تنظیمیں مکمل طور پر غیر قانونی اور غیر آئینی ہیں ۔ملاکنڈ میں پیپلز پارٹی کے گزشتہ الیکشنوں کی روایات کو اگر دیکھا جائے تو سابق وفاقی وزیر محمد حنیف خان مرحوم اور لعل محمد خان کے درمیان ہر مرتبہ الیکشن سے قبل اس طرح کے اختلافات سامنے آئے ہیں مگر بعد ازاں پارٹی کی طرف سے ٹکٹیں تقسیم ہوکر دونوں کو ٹکٹ ملنے پر یہ متحد ہوکر مشترکہ الیکشن مہم چلاتے رہے ہیں ، حنیف خان مرحوم کے بعد ان کے بیٹے ہمایون خان جو کہ اب صوبائی صدر ہیں کے ساتھ بھی گزشتہ الیکشن سے پہلے لعل محمد خان کا اسی طرح اختلافات چلتے رہے مگر ٹکٹ ملنے کے بعد دونوں نے اختلافات کو ختم کرکے مشترکہ انتخابی مہم چلائی ، صوبے میں پی ٹی آئی کی سونامی کی انقلابی تبدیلوں کی ہوا میں جنرل الیکشن 2013 میں مذکورہ دونوں امیدوارشکست سے دوچار ہوئے ، مگر ان دونوں لیڈروں کے درمیان اختلافات کے دوران کارکن بھی آپس میں تقسیم ہوکر ایک دوسرے کے مخالف دھڑوں کے حمایتی بن جاتے ہیں اور پھر ان دونوں میں صلح ہونے کے بعد کسی بھی کارکن کو یہ توفیق نصیب نہیں ہوئی کہ وہ ان سے یہ پوچھتے کہ آپ لوگوں کا اختلاف کس بات پر تھا اور اب صلح کس بات پر ہوئی ،
اب بھی یہی صورت حال ہے کہ لعل محمد خان اور ہمایون خان کے درمیان اگر راضی نامہ ہوجاتا ہے تو دونوں گروپوں کے کارکن بھی اس پر وقت ضائع کرنے کی جرأت یا کوشش نہیں کریں گے ، مگر اس دفعہ ان دونوں لیڈروں کے درمیان صلح ہونے کی توقع اس وجہ سے نہیں کی جاسکتی کہ پیپلز پارٹی اس مرتبہ قومی اسمبلی کا ٹکٹ لعل محمد خان یا ان کے بیٹے کو دینے کی بجائے تین مرتبہ مسلسل منتخب ہونے والے ایم پی اے محمدعلی شاہ باچا کے بھائی ضلع ناظم سید احمد علی شاہ کو دینے کی اطلاعات مل رہی ہیں ۔ لعل محمد خان کی طرف سے ضلع اور تحصیلوں میں متوازی تنظیموں کے اعلان کے بعد توقع یہ تھی کہ دو نوں گروپوں کے کارکن اس کے خلاف سراپا احتجاج بن کر واویلا شروع کریں گے اور لعل محمد خان سمیت ان کے حمایتیوں کا بھی یہی خیال تھا مگر ملاکنڈ کے ضلعی اور تحصیل تنظیموں نے انہیں نظر انداز کرکے صرف صوبائی جنرل سیکرٹری کی طرف سے جاری کردہ اخباری بیان پر اکتفاء کیا ہے ، اب مرکزی قیادت اس حوالے سے کیا فیصلہ کرتی ہے ؟ اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے تاہم ضلع میں لعل محمد خان کی سیاسی پوزیشن سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ملاکنڈ میں پارٹی کے قیام سے اب تک وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ ہی سفر پر گامزن ہے اور ان پر پارٹی کے ساتھ ’’غداری ‘‘ کا کوئی الزام نہیں لگا۔ تاہم پہلے موصوف کے اختلافات صرف حنیف خان خاندان کی حد تک محدود تھے اور اب انہوں نے اس میں ضلعی صدر احمد علی شاہ باچا اور صو بائی پارلیمانی لیڈر محمد علی شاہ کو بھی نشانہ بنایا ہے ، جو کسی خطرے سے کم نہیں ۔دوسری طرف پی ٹی آئی میں ٹکٹ کی حصول پر ملاکنڈ میں پی ٹی آئی بھی دو واضح دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے ، آئندہ جنرل الیکشن میں ٹکٹ کے خواہشمند امیدواروں کے حمائتیوں نے گزشتہ ہفتے ملاکنڈ پریس کلب بٹ خیلہ کے سامنے منتخب ایم این اے جنید اکبر اور وزیر اعلیٰ کے مشیر شکیل خان کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرکے ان پر پارٹی کو دیوار سے لگانے کے الزامات لگاکر الیکشن کمیٹی اور ڈویژنل چئیرمین محمود خان سے مطالبہ کیا کہ آئندہ جنرل الیکشن میں ان دونوں کو ٹکٹ نہ دیا جائے ، مظاہرین کی طرف سے ایم این اے پر کم اور ایم پی اے پر زیادہ کرپشن اور اقربا پروری کے الزامات لگا کر ان کے خلاف چارج شیٹ پیش کی گئی جس میں ایم پی اے پر مختلف اداروں میں مبینہ کرپشن کے علاوہ گزشتہ پی پی پی دور میں شروع کردہ عوامی فلاحی منصوبوں ہیڈ کوارٹر ہسپتال بٹ خیلہ عمارت، ظفر پارک میں ٹاؤن ہال، گریویٹیبیس واٹر سپلائی سکیم ، گرلز ڈگری کالج کی عمارت کے لئے اراضی ،پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ عمارت کی تعمیر اور اراضی کی خریدار ی میں جان بوجھ کر تاخیری حربوں کے الزامات شامل تھے ، کارکنوں کو یہ بھی شکایت تھی کہ ایم پی اے شکیل خان ترقیاتی منصوبوں میں پیپلز پارٹی کے لئے کام کررہے ہیں جبکہ انہوں نے اکثریت کے باوجودضلعی حکومت پیپلز پارٹی اور تحصیل حکومت جماعت اسلامی کے گود میں ڈال دی ہے جس کا مقصد پارٹی میں کسی کے آگے بڑھنے کا راستہ روکنا ہے ۔اس موقع پر سابق ڈویژنل صدر حاجی نیک محمد بھی پریس کلب پہنچ گئے ان کے آنے سے محسوس ہوا کہ وہ جائزہ لینے کے لئے پہنچ چکے ہیں کیونکہ موصوف نے میڈیا کو اپنی وڈیو نہ بنانے کی گزارش کی ۔
اس کے دوسرے روز ایم پی اے اور ایم این اے کی حمایت میں سینکڑوں کارکن پریس کلب کے سامنے جمع ہوکر پارٹی کے منتخب ممبران پر الزامات لگانے والوں پربرس پڑے ، اور ایم این اے سمیت ایم پی اے کے حق میں نعرے بازی کی ۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے الزام لگایا کہ گزشتہ روز ایم این اے اور ایم پی اے کے خلاف مظاہر ہ کرنے والے مفاد پرست اور خود غرض ہیں اور وہ ایک سازش کے تحت پارٹی کو بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں جنہیں خاتون ایم پی اے نگینہ خان کی آشیر باد حاصل ہے ، ان کا کہنا تھا کہ ایم پی اے شکیل خان اور ایم این اے جنید اکبر نے گزشتہ پانچ سال میں پارٹی کومنظم کرکے ضلع میں لوٹ مار اور کرپشن کا راستہ روک لیا پارٹی کو مضبوط اور مستحکم کیا ، ان پر کرپشن کے الزمات بے بنیاد او رمن گھڑت ہیں ، نگینہ خان نے خود سینیٹ کا ٹکٹ فروخت کیا ہے پارٹی میں اب ان کے لئے کوئی جگہ نہیں اس وجہ سے دوسری سیاسی جماعتوں کا راستہ ہموار کرنے کی سازش کررہی ہیں۔ادھر عوامی نیشنل پارٹی کے ضلعی جنرل سیکرٹری اور پی کے 18 کے ٹکٹ ہولڈر اعجاز علی خان نے گزشتہ تین سال سے پارٹی کا دفتر فعال کرکے خاموشی سے پارٹی کو منظم کرانے کی کوشش شروع کی ہے ، جبکہ پارٹی کے ناراض ورکروں کو راضی کرانے کی کوشش سے بھی لاپرواہ نہیں ، تھانہ میں پارٹی سے پی ٹی آئی اور بعد ازاں جمعیت علماء اسلام میں چلے جانے والے تحصیل کونسلر ضیاء الحق ایڈووکیٹ کو دوبارہ پارٹی میں شامل کرانے پر بھی ان کی بھرپور کامیابی قرار دی جاتی ہے تاہم انہیں پارٹی میں موجود بعض اختلافات کو ختم کرانے کی شدید ضرورت ہے ۔ایم ایم اے بحالی کے بعد جماعت اسلامی ملاکنڈ اور جمعیت علماء اسلام بھی ایک دوسرے کے قریب آنے کی کوشش کررہے ہیں جبکہ جماعت اسلامی کی طرف سے الیکشن مہم کا آغاز کافی عرصہ پہلے سے ہوچکا ہے ، اس دوران ان کی طرف سے متعدد مرتبہ سیاسی قوت کے مظاہروں سمیت مشاورتی کونسلوں کا بھی اہتمام کیا گیا ہے جس میں عوام سے انتخابی مہم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کی تجاویز حاصل کی گئی ہیں ۔ جماعت اسلامی کی طرف سے ایم ایم اے بحالی سے بہت پہلے صوبائی اسمبلی نشست پر امجد علی شاہ اور قومی اسمبلی کی نشست کے لئے شہاب حسین کے ناموں کا اعلان کیا گیا تھا مگر ایم ایم اے بحالی کے بعد دوبارہ کسی مشترکہ امیدوار کا اعلان نہیں ہوا ہے تاہم ایم ایم اے فارمولہ کے مطابق پی کے 18 پر جماعت اسلامی کے نامزد امیدوار امجد علی شاہ اور پی کے 19 کی نشست جماعت اسلامی کے جمال الدین کو ملے نے کی امید ہے ، امجد علی شاہ کی پوزیشن پارٹی کے علاوہ شخصی لیول پر بھی مستحکم اس لئے ہے کہ انہیں علاقے میں نہ صرف ماہر تعلیم کی حیثیت حاصل ہے بلکہ ان کے مطابق گزشتہ بیس پچیس سال سے ان کے سکول اور کالج سے ہزاروں طلبہ اور طالبات فارغ ہوکر ان کی اکثریت اعلیٰ عہدوں پر فائز ہے اس وجہ سے انہیں جماعت اسلامی ، جمعیت علماء اسلام اور شاگردوں کے ووٹ ملنے پر انہیں کامیابی سے کوئی نہیں روک سکتا بشرط یہ کہ الیکشن صاف و شفاف طریقے سے منعقد ہوں۔مسلم لیگ کی طرف سے ملاکنڈ کی عوام کو درپیش بجلی کم وولٹیج اور غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ سے اربوں روپے کی دو گرڈ اسٹیشنوں کی تعمیر کو کیش کرانے کا موقع فراہم ہے مگر لیگی قیادت کی طرف سے انہیں کیش کرانے یا سیاسی پروگرامات کے انعقاد میں معنی خیز خاموشی سے اس جماعت کی سرگرمیاں کچھ زیادہ دکھائی نہیں دے رہی ہیں اور نہ مسلم لیگ کی طرف سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کے نام سامنے آئے ہیں تاہم پی کے 18 کے لئے ضلعی صدر سجاد خان کی نامزدگی کا گمان غالب ہے ، جب تک اس جماعت کی امیدواروں کے نام سامنے نہیں آتے اس وقت تک ان کے بارے میں کوئی تبصرہ مشکل ہے ۔
قومی وطن پارٹی کی طرف سے این اے کے لئے پی ٹی آئی سے اس جماعت میں شامل ہونے والے ظفریاب خان اور صوبائی اسمبلی کے لئے محمد ابرار یوسفزئی کو نامزد کردیا گیا ہے اور انہوں نے اس سلسلے میں انتخابی مہم کا آغاز کردیا ہے ۔پختونخوا ملی عوامی پارٹی (اچکزئی ) کی طرف سے ان نشستوں پر جنرل الیکشنوں میں مختلف سیاسی جماعتوں سے اتحاد کیا گیا ہے جس میں زیادہ تر پیپلز پارٹی سے اتحاد یں کی گئی ہیں اس لئے ائندہ الیکشن میں بھی توقع ہے کہ پی ایم اے پی اس مرتبہ بھی دوسری پارٹی سے اتحاد میں دلچسپی لے گی ۔
1,846 total views, 2 views today
Comments