تحریر ؛۔ فضل خا لق خان
جمہوری عمل کو جاری رکھنے اور اسے دوام بخشنے کیلئے ملک میں رائج قوانین کے تحت عام انتخابات کے انعقاد کی اہمیت ایک مُسلّمہ حقیقت ہے جس سے اکثر احتراز برتا جاتا ہے،عوام کیلئے عوام کے ذریعے عوام کی حکمرانی کی بقاء اور تسلسل کی خاطر انتخابی انعقاد کیلئے ذمہ دار ادارے کو با الخصوص اور دیگر ملحقہ ریا ستی اداروں کو بالعموم انتخابات کو آزادانہ،منصفانہ اور غیر جانبدارانہ منعقد کرنے کیلئے موثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہوتی ہے،بروقت اور شفاف انتخابی عمل کا تسلسل ہی کسی ریاست میں جمہوری اقدار کو زندہ رکھنے ،مضبوط بنانے کیلئے ایک اہم قدم ہوتاہے،مذکورہ ضابطوں اور اقدامات کیساتھ ساتھ ریاست کو قومی شمولیت کی بناء پر تمام اہل شہریوں کو بلا کسی صنفی ،نسلی ولسانی تفریق وامتیازکے انتخابی عمل میں شمولیت اور حقِ رائے دہی کے آزادانہ استعمال کیلئے ممکنہ سہولیات کی فراہمی کو یقینی بناناایک فلاحی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے سوات سمیت ملاکنڈ ڈویژن کے بعض علاقوں میں گزشتہ کئی الیکشنوں میں ان قواعد پر عمل درآمد نہ ہونے سے ملک کی نصف آبادی یعنی خواتین اپنی رائے آزادانہ طریقے سے دینے میں ناکام رہیں جو الیکشن نتائج پر بری طرح اثر انداز ہونے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جاسکے ،
آئین پاکستان 1973کے مطابق قانون کی نظر میں تمام شہری برابر اور یکساں قانونی تحفظ کے حقدار ہیں اور جنس کی بنیاد پر کوئی امتیاز روا رکھنے کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے۔اسی طرح شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدہ ، International Covenant on Civil and Political Rights (ICCPR))جو حکومت پاکستان نے 2010میں قبول کیاہے کے مطابق انتخابی عمل میں شرکت تمام شہریوں کا حق ہے۔جیسا کہ ظاہر ہے ہمارے معاشرے میں با العموم خواتین، بوڑھے، اور معذور افراد جو کمزور اور محروم سمجھے جاتے ہیں اور دیگر گروہوں کے برعکس یہ لوگ ریاست کی جانب سے دئے گئے حقوق اور ہر طرح کی سہولیات سے یا تو قطعی محروم ہیں اور یا ان میں سے بہت کم لوگوں کو ان سہولیات تک رسائی حاصل ہے، فرد کا جمہوری عمل میں حصہ اور حق رائے کا آزادانہ استعمال بھی ریاستی حقوق میں سے ایک ہے،درجہ بالاگروہ کو درپیش ووٹ کے حوالے سے مسائل پر بات پھر کھبی سہی اب صر ف خواتین کو اس ضمن میں درپیش مشکلات اور پیچید گیوں کا ایک مختصر جائزہ مقصود ہے ،پاکستان میں عام انتخابات میں خواتین کی شمولیت کے حوالے سے اگرماضی پر نظر دوڑائی جائے توتعداد کی نسبت انتخاب کے عمل میں ان کی شمولیت بہت کم ہے۔تعداد کی بنیاد پر اگر خواتین کو جمہوری عمل میں شمولیت دی جائے تو انتخابی نتائج کیساتھ ساتھ مجموعی ٹرن آوٹ پر بہت بڑا مثبت اثر ڈال سکتا ہے،
خوا تین کو دیگر معاشرتی مسائل کے ساتھ حق رائے کے استعمال کے حوالے سے کئی مشکلات اور پیچیدگیاں درپیش ہیں جس کی وجہ سے پولنگ سٹیشنوں پر ان کی ٹرن آوٹ نہایت کم رپورٹ ہوتا ہے۔ گذشتہ عام انتخابات کے دوران بعض حلقوں کی پولنگ سٹیشنزمیں خواتین کی ایک ووٹ کیساتھ بھی نمائندگی ظاہر نہیں ہوئی جو کہ ایک جمہوری ریاست میں انتخابات کی منتظمین کیلئے لمحہ فکریہ اور ممبران اسمبلی کے انتخاب میں ملک کی ایک بڑی صنف کی حق رائے کی استعمال سے محرومی ہے۔الیکشن کمیشن کے مطابق خیبر پختون خوا میں بلدیاتی انتخابات 2015 میں مجموعی ٹرن آوٹ40%،مردوں کے 50.5%،اور خواتین کی ٹرن آوٹ 27.85%رہا۔ ضلع سوات میں مجموعی ٹرن آوٹ 36.22%،مردوں کے 52.16%اورخواتین کا ٹرن آوٹ 15.81رپورٹ ہواہے جو مردوں کے مقابلے میں تین گَنا کم ہے۔اگر چہ سابقہ ادوار کی نسبت گذشتہ عشرہ کے دوران اس شرح میں قدرے اضافہ ریکارڈ ہوا ہے جیسا کہ عام انتخابات 2008میں مجموعی طور پر ٹرن آوٹ 44%ریکارڈ ہوا تھاجو 2013میں بڑھ کر 55% جبکہ خیبر پختون خوا میں 34%سے بڑھ کر 45%ریکارڈ ہوا ہے لیکن خواتین کی شرح آبادی کے نسبت ٹرن آوٹ کے حوالے سے ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔ خواتین کی کم ٹرن آوٹ کی وجوہات ان کو درپیش سماجی اور سیاسی مسائل سے مربوط ہیں جس کی وجہ سے یا تو وہ ووٹ استعمال کرنے کیلئے اہل نہیں اور یا دوسرے سماجی رکاوٹیں ان کی حق انتخاب کی ادائیگی میں حائل ہیں جن میں سب سے اہم اور قابل غور مسئلہ بہت سی خواتین کے قومی شناختی کارڈ سے محرومی ہے،خیبر پختون خوا کے پسماندہ علاقے بالعموم اور فا ٹا بالخصوص اس حوالے سے بہت متا ثرہ ہیں ۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان(2013) کے مطابق خواتین رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد مردوں سے تقریبا 10ملین کم ہے،اسی طرح خواتین کی ایک بڑی تعداد قومی شناخت سے محروم ہیں اور ظاہر ہے قومی شناخت سے محرومی ہی حق رائے کی استعمال سے محرومی ہے۔اس حوالے سے اگر ہم منسلکہ مسائل کا جائزہ لیں تو ووٹ پول کرنے کیلئے خواتین کو مخلوط پولنگ سٹیشنوں پر جانا بھی ایک طرح کا مسئلہ ہے کیونکہ اکثر خواتین کو اپنے خاندان وغیرہ کی طرف سے اسی وجہ سے بھی پولنگ سٹیشن جانے کی اجازت نہیں ملتی اور یوں خواتین کی ایک بڑی تعداد علیحدہ پولنگ بوتھ کی سہولت میسر نہ ہونے کی وجہ سے حق رائے کی استعمال سے محروم رہ جاتی ہیں ۔ اسی طرح زنانہ پولنگ بوتھ کی کمی بھی اس سلسلے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ گذشتہ بلدیاتی انتخابات 2015کے دوران دیکھنے میں آیا جہاں ایک ہی پولنگ سٹیشن میں مردوں کیلئے دو یا تین پولنگ بوتھ موجود تھے وہا ں خواتین کیلئے صرف ایک بوتھ پر ووٹ پول کرنا پڑتا تھا جس کیلئے خواتین لمبی لمبی قطاروں میں گھنٹوں کھڑی ہوکر ووٹ پول کرنے پہنچ جاتی اور یا مایوس ہوکر بغیر ووٹ پول کئے واپس گھر وں کو روانہ ہوتیں۔زنانہ پولنگ بوتھ پر سیکیورٹی و نظم ضبط بر قرار رکھنے کیلئے وہاں پر موجود مرد سیکیور ٹی افسران کے زیر سایہ اگر لیڈی کانسٹیبلز کی ڈیوٹی لگادی جائے تو یہ زنانہ ووٹرز کیلئے حوصلہ افزاء ثابت ہوگا، اسی طرح معذور افراد کیلئے گراونڈ فلور/یعنی بلڈنگ کے زمینی حصے پر ووٹ پول کرنے کی سہولت دینا لازمی ہے تاکہ وہاں پر معذور خواتین و حضرات اپنے وہیل چیر کے ذریعے آسانی سے جاکر ووٹ ڈالیں بصورت دیگریہ لوگ بھی سیاسی عمل سے خارج ہوکر حق انتخاب سے محروم ہی رہیں گے۔ الیکشن کمیشن اس حوالے سے اگر موثر اقدامات اٹھاکر ان کیلئے علیحدہ پولنگ اسٹیشنز کے قیام،پولنگ بوتھ میں اضافہ، معذور افراد کیلئے درکاروسائل و دیگر ممکنہ سہولیات کی میسری کو یقینی بنائے تو ٹرن آوٹ بڑھا نے میں یہ کافی معاون ثابت ہوسکتا ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کے زیر انتظام ضلعی سطح پر ڈسپلے سنٹرز کا اہتمام کیا گیا ہے.
جو 24اپریل 2018تک ابتدائی انتخابی فہرستوں میں نام کی اندراج،منتقلی اور کوائف کی درستگی کیلئے مقامی سطح پر خدمات فراہم کررہے ہیں،میڈیا کے ذریعے عوام کو مطلع کیا گیا ہے کہ اپنے مقامی مرکز جا کر مذکورہ خدمات سے استفادہ حاصل کرکے اپنے ووٹ سے متعلق معلومات اور اگر ضرورت ہوں تو اندراج، منتقلی اور درستگی کو یقینی بنائیں۔مقامی سطح پر خواتین کی حقوق کیلئے کام کرنے والے ادارے ،غیر سرکاری تنظیمات اور دیہی فلاحی تنظیمیں انتخابات میں خواتین کی ٹرن آوٹ بڑھانے کیلئے ڈسپلے سنٹرز کے حوالے سے آگاہی پھیلاکر اپنا کردار ادا کریں ۔اس سلسلے میں ویلج کونسل/نیبر ہوڈ کونسل میں موجود منتخب خواتین و متعلقہ ناظمین کا کردار بھی بہت اہم ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طورپر آنے والے الیکشن 2018 سے قبل ان تمام امور پر ہر سطح کے ذمہ داری اپنی ذمے داریوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں تاکہ لوگوں کو اس بار پورے شعور کے ساتھ اپنے مرضی کے نمائندے منتخب کرنے کے مواقع آسانی سے میسر ہوسکیں.
——————————————————————————————————————————————-
فضل خالق خان
2,696 total views, 2 views today