تحریر ؛ ۔ سید ساجد شاہ
پچھلے ہفتے کوئٹہ کے کوئلہ کان میں شہید ہونے والے مزدور کارکنوں کے بچوں کے ساتھ گورنمنٹ کالج الپوری میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی سماجی کارکنان کے علاوہ اس محفل میں اساتذہ،وکلاء،صحافیوں،طلباء سول سو سایٹی کے نمایندوں،سرکاری اہلکاروں اور زندگی کی دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی اس تقریب میں تقریباً ڈیڑھ سو سے زیادہ یتیم بچوں نے شرکت کی وہ یتیم بچے جن کے باپ کوئلے کے کان میں زندگی ہاربیٹھے ہیں یہ بچے انتہائی دور اور دشوار گزار علاقوں سے گزر کر اس پروگرام میں شامل ہونے کے لئے آئے تھے یہ بچے آج بھی کسی مسیحا کے منتظر ہیں کیونکہ باپ کا سا یہ سر سے اٹھنے کے بعد ان کا دنیا میں کوئی نہیں رہا، باپ کی وفات کے بعد یہ بچے اور ان کا پورا خاندان شدید مالی اور ذہنی دباو کا شکار رہتا ہے ان کے گھر کے چولھے نہیں جلتے انہیں زندگی کی بنیادی سہولیات میسر نہیں ان کا کوئی حال پوچھنے والا نہیں ان کے باپ کے ملے ہوئے پیسے( death claim) ان کے خاندان والے آپس میں بانٹ لیتے ہیں اور باقی کچھ نہیں بچتا ؟ایسے خاندانوں کے پاس زندگی کی مشکلات سے نبرد آزما ہونے کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں ہوتی اور نہ وسائل ہوتے ہیں اکثر گھروں کے اندر بیوہ مائیں ان کی ضروریات پورا نہیں کر سکتی اور یوں ایسی مائیں شدید ذہنی دباو کے علاوہ شوگر اور بلڈ پر یشر کی مریض بن چکی ہوتی ہیں پھر بھی ان کے یہ بچے ان کے لاڈلے ہوتے ہیں اور ان کی زندگی کی آس پر جیتے ہوئے مائیں ان کی مستقبل کے سنہرے خواب دیکھتے ہیں ان بچوں کے علاوہ ان بے آسر ماؤں کا کوئی سہارا نہیں ہوتا ان چھوٹے بچوں کی کفالت ،تعلیم،تربیت،صحت ایسی ماؤں کیلئے بہت بڑا چیلنج ہوتاہے دوسری طرف باپ نہ ہونے کی وجہ سے ان یتیم بچوں کی زندگی میں خوشی کا آنا ایک خواب بن چکا ہے اس پروگرام کا مقصد بھی بچوں اور بچیوں کے چہروں پر افسردگی اور پریشانی کے کھلے آثار کو ختم کرکے انہیں دلاسہ دینا تھا اور انہیں تعلیم کیلئے بھی راغب کرنا تھا
بچے اگر چہ بچے ہوتے ہیں اسلئے اس محفل میں شاید اپنے باپ کا کوئی متبادل ڈھونڈ رہے تھے مگر باپ کی کمی کو دنیا میں کون پورا کر سکتا ہے ادھر ادھر نظریں دوڑانے کے بعد بچوں کی پر اسرار خاموشی کیا معنی رکھتی ہے یہ تو ان سے پوچھا جائے جن کے باپ نہیں ہوتے تاہم اس پروگرام میں صرف تعلیم پر فوکس کیا گیا اور بچوں کی تعلیمی ضروریات پورا کرنے کیلئے ہر قسم تعا ون کو یقینی بنانے کی سعی کی گئی اس پروگرام میں یتیم بچے سخت طوفان،ژا لہ باری اور طوفانی بارش میں گورنمنٹ کالج الپوری میں جب پہنچے توکول مائنز ورکرز ویلفئیر سو سایٹی کے چیف ایگزیکٹیو سید ساجد شاہ ،جنرل سیکرٹری خالد خان اور دیگر رفقاء کار نے انہیں خوش آمدید کہا اسکے بعد بچوں کے ساتھ گھل مل کر باتیں ہوئی بعد میں کول مائنز ورکرز کے فنانس منیجر محمدشعیب خان نے بچوں میں وہ فارم تقسیم کئے جسے بھرنے کے بعد ان کے مسائل کا اندازہ ہو گا کیونکہ اس وقت کوئی ایسا ڈیٹا موجود نہیں جس سے اندازہ لگایا جا سکے کہ کول مائنز کے اندر اس وقت صحیے تعداد کتنی ہیں تقریب کا مقصد بھی بچوں سے ان کے حقیقی مسائل سننے کے بعد ان کا ازالہ کرنا تھا۔بچوں،بچیوں ان کے خاندان والوں کو اس قابل بنانا تھا کہ وہ اس سیارے پر بہتر سے بہتر زندگی گزار سکیں کیونکہ شانگلہ میں غربت کی وجہ سے جہاں مزدور کان کن کوئلے کا رخ کرتے ہوئے اپنی زندگی کی بازی ہارتے ہیں وہاں ان بچوں کا مستقبل بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے تاریک ہو جاتا ہے شانگلہ میں نسل درنسل کول مائنز کی گرفت میں پھنسے ہوئے مکینوں کے پاس کوئی اور متبا دل نہیں شاید؟یا پھر ان کے قسمت میں یہی کچھ لکھا ہے؟
یہ سوال صرف مشکل نہیں انتہائی توجہ طلب بھی ہے اس طرح باپ کے مرنے کے بعد بیٹے کا بھی اس پیشے میں آنا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے جس پر تحقیق کی ضرورت ہے اور پھر ا نہیں اس پیشے کا متبادل کام کرنے کی؟ جب لوگ unskilledہونگے تو انہیں زندگی گزارنے کیلئے اس صنعت کا سہارا لینا ہو گا تاہم مستقبل میں بچوں کوskilledبنا کر ان کا یہ مسلہ ختم ہو سکتا ہے مگر اس میں معاشرہ ساتھ دے گا تو تب یہ عملی ہوگا۔ اس وقت شانگلہ میں کول مائنز ورکرز کی اموات کے بعد ان کی بیواؤں کی کافی تعداد موجود ہے جن کی معاشی،سماجی اور معاشرتی حالت کوئی زیادہ سدھری ہوئی نہیں اوپر سے ان کے یتیم بچوں کی تعلیم،کفالت،زندگی ادھوری کہانی بن جاتی ہے جبکہ اس وقت بھی ان کول مائنز ورکرز کی بچیاں اپنی گھروں سے پیا کی نگری میں جانے کی انتظار میں ہیں مگر بدقسمتی اور غربت کی وجہ سے ان بچیوں کی شادیاں نہیں ہو رہیں حالانکہ ان بچیوں کیلئے ورکرز بورڈ کی طرف سے جہیز فنڈ کی ٹھیک ٹھاک رقم موجود ہے مگر اس رقم تک رسائی ہر کسی کے بس کی بات نہیں اور بیچ میں یہ رقم کرپٹ لوگ اور مافیا ہڑپ کر جاتی ہے اس طرح تعلیم کیلئے مختص مد میں جو گرانٹ کی صورت میں ان بچوں کا حق ہوتا ہے اس تک بھی ان کی کوئی رسائی نہیں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف ایگزیکٹیو سید ساجد شاہ نے کہا کہ اس وقت ان بچوں کو ضرورت ہے معاشرے کا ہر فرد اس میں اپنا حصہ ڈالے حکومت اور ارباب اختیار بھی،کیونکہ ان بچوں اور یتیموں اور بیواؤں کا ہم سب پر حق ہے ہمیں اس حق کو ادا کرنا ہو گا جبکہ حکومت وقت اور شانگلہ کے نمایندوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ مرکز اور صوبے سے ان کا حق اٹھا کر لائیں صرف advocacyنہ کریں حکومت وقت کی طرف سے پانچ مختلف سہولیات جس میں بچیوں کیلئے سکا لرشپ کے علاوہ صحت کے حوالے سے کم ازکم چار سو کمروں پر مشتمل ہسپتال بھی شامل ہے اس طرح کان کنوں کے بچوں اور بچیوں کیلئے ورکرز ویلفیر سے منظور شدہ سکول یعنی ورکنگ فوکس گرامر سکول کا قیام بھی شامل ہے جبکہ ان صنعتی کان کنوں کیلئے غریبوں کی بستی کا قیام بھی ان کے حقوق میں شامل ہے مگر شانگلہ کی اسی فیصد آبادی جو کول مائنز میں کام کرتے ہیں انہیں ان کا یہ حق مل نہیں رہا آج تک شانگلہ میں ان غریب کان کنوں کی بچیوں کو جہیز فنڈ کا بہت کم حصہ ملا وہ لے کر دینا بھی ان سیاسی زعماء اور لیڈران کا کام ہے تقریب میں ان ساری مشکلات اور ان بچیوں کامستقبل بچانے پر زور دیا گیا تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خالد خان کا کہنا تھا کہ بچے کسی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں ان کی ذہنی،جسمانی،معا شرتی ،سماجی،معاشی مہارتوں ان کے احساسات اور جذبات کو پروان چڑھانا اور ان کا مستقبل تابناک بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے ، ہمیں اس ذمہ داری کو قبول کرنا ہو گا مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ شانگلہ کو پائیدار ترقی اور خوشحالی ،امن کو قائم رکھنے میں سب کو برابر کا حصہ ڈالنا ہو گا ۔ شانگلہ کی غربت کو بدلنا ہم سب کی ذمہ داری ہے جس کیلئے ہمیں ان معماران قوم کو بدلنا ہو گا اسلئے ان بچوں اور بچیوں کے ساتھ ہر قسم کی مالی،اخلاقی مدد کرناہمارا فرض ہے۔ تقریب میں بچوں اور بچیوں نے اپنی خیالات اور احساسات سے حاضرین محفل کو آگاہی دلائی جبکہ کچھ یتیم بچوں کی extra ordinary پر فا رمنس نے حاضرین کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا اور یہ ثابت کر دیا کہ اگر ان بچیوں اور بچوں کو موقع دیا جا ئے تو یہ نہ صرف اپنے بلکہ اس ملک کی ترقی اور خوشحالی میں بھرپور کردار ادا کر سکتے ہیں
بد قسمتی سے آج بھی ضلع شانگلہ کا شمار ان اضلاع میں ہوتا ہے جہاں غربت نے سچ مچ ڈھیرے ڈال دئے ہیں تعلیمی پسماندگی کی وجہ سے اس ضلع کا شمار صوبے کے پچیس اضلاع میں چوبیسویں نمبر پر ہوتا ہے شانگلہ کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی صرف اس وقت ملتی ہے جب کبھی کول مائنز کے اندر کوئی حادثہ رونما ہوتا ہے بیشک وہ کوئٹہ ہو یا چواں سیدان شاہ،جہلم،چراٹ،ہنگو یا درہ آدم خیل ہو شانگلہ میں سکولوں کی تعداد نہ ہونے کی برابر ہے ،والی سوات کے زمانے کے بنے ہوئے سکول آج کی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی اسلئے غربت میں اضافہ ہو رہا ہے دوسری طرف جو سکول بنے ہوئے ہیں وہ بھی دور افتادہ یعنیunaccessiableہے اسکے علاوہ بچوں کے پانچویں کلاس کے بعد سکول بھاگ جانے یعنی drop out rateبھی زیادہ ہو رہاہے جس سے ان کا مستقبل مخدوش ہوتا ہے اور یوں کول مائنز میں جہاں ان اموات سے شرح بڑھتی ہے وہاں تعلیمی میدان سے بھاگنے والوں کی شرح میں قابل قدر اضافہ ہوتا چلا آرہا ہے جو ایک انتہائی منفی انڈیکٹر ہے اس دن کی مناسبت سے تمام آئے ہوئے بچوں سے عہد لیا گیا کہ کول مائنز ورکرز وئلفئیر ایسو سی ایشن جو خالصتاً سماجی،معاشتری اور معاشی بنیادوں پر کام کر رہی ہے وہ بچوں اور بچیوں کی تعلیم تک رسائی یقینی بنائے گی بعد میں ان بچوں اور بچیوں کو تنظیم کی طرف سے سکول کے کپڑے دئے گئے اس محفل میں ان بچوں کی امد اور شرکت نے جہاں خوبصورتی میں اضافہ کیا وہاں ذمہ داریوں کا تعین بھی کیا کہ کس نے کیا کرنا ہے؟ آخر میں اس تقریب میں شرکت کرنے والے سب مہمانوں نے عہد کیا کہ وہ انسانیت کی خاطر،اپنے بچوں کی خاطر اس ملک اور قوم کی خاطر ان معصوم یتیم بچوں کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے۔ بچوں نے بھی عہد کیا کہ وہ اپنی تعلیم کو جاری رکھتے ہوئے اپنی اور اس ملک کی تقدیر بدلیں گے آخر میں شانگلہ ورکرز ویلفئیر کی منیجمنٹ نے سب مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور عنقریب ان بچوں کے ساتھ ایک مربوط پروگرام بنانے کا عندیہ بھی دیا۔
2,090 total views, 2 views today